کالمز

قدرتی جنگلات کا تحفظ

تحریر: اسلم چلاسی
قدرت نے کرہ ارض کے 35فیصد حصے پر قیمتی جنگلات پیدا کئے ہیں جس سے تمام جاندار انسان چرند ، پرند سب استفادہ حاصل کرتے ہیں ۔ جنگلات کی کثرت سے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات میں خاطرخواہ کمی ہوتی ہے ۔ لیکن انسان کا یہ جنڈ ااسے نسل کشی پر تلا ہوا ہے ۔ انسان جتنا بھی جدت کی طرف جاتا ہے اتنا ہی اپنے لئے خطرات پیدا کرتا ہے ۔ جنگلات جیسے عظیم قدرتی تحفے کی تحفظ کے بجائے اسکو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے نت نئے تجربے کئے جاتے ہیں ۔ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ قدرتی جنگلات ضلع دیامر میں واقع ہیں ۔ تمام دیہات قدرتی جنگلات سے ڈھکے ہوئے ہیں جس میں مختلف قسم کے جنگلی حیات کی نایاب نسلیں موجود ہیں ۔ یہ جنگل انوا ع اقسام کے چرند پرند کا مسکن ہیں مگر بد قسمتی سے گزشتہ پانچ دہائیوں سے قدرت کے اس عظیم تحفے و حوس کو ذر کی خاطرتہس نہس کرتے ہوئے آرہے ہے تو روایتی اوزار کلہاڑی اور آری استعمال کرتے تھے۔ اب توایسی جدید مشینوں کا استعمال شروع ہو چکا ہے کہ چند گھنٹوں میں ہزاروں کھڑے درختوں کو کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اسکام کیلئے تمام نالہ جات میں مخصوص گروپ سرگرم ہے ۔ ٹمبر مافیا ان مخصوص گروہوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔ فی درخت کے حسا ب سے کٹائی مافیا اور ٹمبر مافیا کے درمیان معاوضہ طے ہوتا ہے ۔ چند گھنٹوں میں ہزاروں درختوں کو کاٹ کر ٹمبر مافیا کے حوالے کیا جاتا ہے اور پھر مختلف مراحل سے گزر کر چکور سیلپر کی شکل میں تبدیل کرنے کے بعد اونچے ٹیلوں سے رسیوں اور لکڑیوں کی مدد سے اڈوں تک منتقل کیا جاتا ہے پھر بالائی علاقوں سے میدانی علاقوں تک ڈھلائی کی جاتی ہے ۔ یہاں سے پھر گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع اورملک بھر میں اس لکڑی کی سمگلنگ ہوتی ہے ۔ ٹمبرمافیا کے کارندے محکمہ جنگلات کے آفیسران بالا سے ملکر اس قیمتی لکڑی کو منڈیوں تک منتقل کرتے ہیں۔ فارسٹ چیک پوسٹ اپنے بالا آفیسران کے حکم پر ٹمبر مافیا کا ویلکم کے منتظر رہتے ہیں اور معمولی نظرانہ وصول کرکے ڈھیر ساری دعاؤں کیساتھ رخصت کرتے ہیں ۔ محکمہ جنگلات کا نچلا طبقہ انتہائی مفلوج الحال طبقہ ہوتا ہے جو سالوں سے تنخواہ سے محروم ہوتے ہیں۔ آٹھ دس مہینوں کے بعد جاکر ایک یا دو مہینوں کی تنخواہ مل جاتی ہے اور وہ بھی انتہائی معمولی تنخواہ ہوتی ہے ۔ بالا آفیسروں کے نزدیک ان چھوٹے ملازمین کو تنخواہ کی ضرورت ہیں ۔ تنخواہ اور مراعات صرف اعلیٰ طبقہ کو ملنا چاہئیے جو کہ بالا طبقہ کے اخراجات کا شاہانہ ر ہے ۔ جنگلات شہر سے میلوں دور پہاڑوں پر ہیں لیکن جنگلات کے آفیسر شاہی کے محلات اور دفاتر محاذ جنگ سے کوسوں دور شہروں میں واقع ہیں یہاں بیٹھ کر نظروں سے اوجھل درجنوں میل دور جنگلات کے نام پر سمجھا ہوا دکان آنکھوں پر پرردہ ڈالنے اور وقت گزری کے علاوہ کسی کام کا نہیں ہے ۔ گزشتہ پانچ دہائیوں سے دیامر کے جنگلات مسلسل کٹتے آرہے ہیں قدرتی جنگلات عنقریب ختم ہو چکے ہیں مگر جنگلات کے تحفظ کے نام پر محکمہ جنگلات کا ادارہ اپنی ناکامیوں اور رسوائیوں کے باوجود بھی آب و تاب کے ساتھ قائم ہے کیوں قائم نہ رہے چونکہ ٹمبر مافیا کے ففٹی کے پارٹنر ہیں جو مل جل کر جنگلات کی کٹائی کرتے ہیں اور ملنے والی رقم کو آپس میں برابربانٹتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جنگلا�آکے تحفظ کیلئے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گءئے جسکی وجہ سے جنگلات سے ڈھکے ہوئے پہاڑ اب خالی ہو چکے ہیں خالی محکمہ جنگلات کی بے حسی کے ثبوت کے طور پر موجود ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلی حیات ناپید ہو آچکے ہیں ۔ انواع اقسام کے نایاب جنگلی حیات کا مسکن تباہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسل کشی ہو گئی ہے ۔ مقامی ماہرین کے مطابق دیامر کے جنگلات میں پایا جانے والے جنگلی حیات کی تعداد میں 75فیصد کمی آئی ہے اور کچھ جنگلی حیات کی تو نسل کشی ہوکر ختم ہو چکے ہیں اور اسی طرح ہر سال خانہ بدوشوں کے معمولی غلطی سے آگ لگنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں جو دیکھتے دیکھتے ہزاروں درختوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ آگ کو بھجانے کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار جنگل جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔ مہینوں بعد محکمہ جنگلات کا ایک آدھ اہلکار نمودر ہوکر راکھ کی تصدیق کرکے چلا جاتا ہے ۔ اور اپنے مقامی کمیٹی یعنی علاقے کے چند لوگوں پر مشتمل خود ساختہ تحفظ کمیٹی کے نام پر مافیا کا قائم کردہ گروپ پورے جنگلات کے تحفظ ان پرمنحصر کیا گیا ہے اور بد قسمتی سے اس نام نہاد تحفظ کمیٹی کا کام جنگلات کے آفیسروں کیلئے فرنیچر بنانا اور اپنے لئے ہزاروں مکعب فٹ لکڑی حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ ولیج کمیٹی کے ممبران کا اپنا کارخانہ یا لکڑی کا ڈپو بلواسطہ یا بلا واسطہ موجود ہے ۔ ان کو جنگلات کے تحفظ سے زیادہ عزیز اپنا چلتا ہوا کاروبار ہوتا ہے ۔ بلا تعطل حکومت وقت کو جنگلات کے تحفظ کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ دیامر میں ایکڑوں پر محیط قدرتی جنگلات ہیں انکے تحفظ کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی محکمہ جنگلات کا یہ موقف بھی سوفیصد درست ہے کہ اتنے بڑے علاقے کیلئے محدود عملہ ناکافی ہے اگر حکومت وقت قدرتی ماحول کے تحفظ کیلئے سنجیدہ ہے تو دیامر کے جنگلات اور جنگلی حیات کو محفوظ بنانے کیلئے مقامی لوگوں پر مشتمل فارسٹ فورس بنانے کی ضرورت ہے ۔ اور جن اضلاع میں جنگلات ہی نہیں ہیں وہاں پر محکمہ فارسٹ کا کوئی کردار نہیں بنتا ۔ لہذا جن اضلاع میں عملہ کی ضرورت ہے وہاں پر تبادلہ کرکے قدرت کے عظیم تحفے جنگلات کا تحفظ یقینی بنانا چاہئیے۔ اور ساتھ ہی محکمہ فارسٹ کے چھوٹے ملازمین کے ساتھ روا رکھے گئے رویے کو تبدیل کرکے ان کی تنخواہوں کو بحال رکھنا چاہئیے تاکہ یہ حضرات دلجمیی سے کام کریں اور ساتھ ہی بہتر تربیت کے ساتھ تعاون کی بھی ضرورت ہے ورنہ آئندہ چند سالوں میں محکمہ فارسٹ حسب معمولی رہے گا مگر جنگلات کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button