کالمز

ستر(70)سالہ مسائل اور صوبائی حکومت

تحریر:اسلم چلاسی

گلگت بلتستان کی نومولود صوبائی حکومت کو بے شمار مسائلوں کا سامنا ہے گزشتہ 7 دہائیوں سے حل طلب معاملات جوں کے توں موجود ہیں ۔صرف صوبائی دارلحکومت کے مسائل اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو تا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے کچھ بھی کا م نہیں کیا صرف وقت گزری اور لوٹ مار کر کے چلے گئے ۔پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے گلگت شہر کے 70 فیصد آبادی صاف پانی سے محروم ہیں ۔باوجود اس کے کہ کارگاہ نالہ کے صا ف شفاف قدرتی تحفہ سے گلگت جیسے 4 مزید شہروں کے ضروریات پورے کئے جا سکتے ہیں ۔وفاق سے اتنی بڑی رقم آئی زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا ۔شہر میں ایک ٹکے کا کام نظر نہیں آتا سارا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر تا ہے ۔شہر کے ٹوٹل تین کلو میٹر کے علاقے میں اب بھی کچے لنک روڈ سابقہ حکمرانوں کے نا اہلی کو ثابت کرتے ہیں ۔سیوریج کا نظام نہ ہونے سے آلودہ پانی شہر میں ابلتا ہوا نظر آتا ہے اور غضب کی بات یہ ہے کہ اب بھی صوبائی دارلحکومت کے کچھ حصوں میں بجلی نہیں پہنچی ہے ۔لکڑی کے پول لگا کر شہریوں نے بجلی حاصل کر نے کی کوشش کی ہے جوٹیال دیامر کالونی کے مکین تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔پانی تو ٹینکروں کے ذریعے خرید کر استعمال کرتے ہیں مگر بجلی کے ٹرانسفارمر اور پولز کی کمی کی وجہ سے عوام روشنی سے محروم ہیں تو دوسری طرف غیر محفوظ نالہ خطرے کے علامت بنا ہوا ہے نالہ پر مضبوط احتیاطی بند نہ ہونے کی وجہ سے رہائشی آبادی خطرے میں پڑ گئی ہے اور کسی بھی وقت سیلابی ریلوں کا پانی رہائشی آبادی میں داخل ہو کر تباہی مچا سکتا ہے ۔چونکہ نالے میں بے جا تجاوزات کئے ہیں جس سے پانی کی بہاؤ میں خلل پیدا ہو سکتا ہے ۔باب گلگت سے مرکزی شہر تک کا سڑک پر نظر دوڑائی جائے تو حکمرانوں کی اہلیت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ۔پانچ سال تک اسی روڈ پر پروٹوکول کے قافلے گزر ے،لگتا ایسا ہے کہ حکمران آنکھ بند کر کے یہا ں سے گزرتے رہے ہیں ۔زمین و آسمان کے قلابیں مارنے والوں کو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ یہ دو چار کلومیٹر سڑک کو مضبوط بنیادوں پر تعمیر کر سکے ۔

باہر سے آنے والے باب گلگت کے اندر داخل ہوتے ہی پتھر دور کے خستہ حال شہر کی حالت دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں ۔اتنی خوبصورت وادی کو ذرا سی بناؤ سنگھار کی ضرورت ہے مگر ذمہ داران کی غیر ذمہ داری کا نتیجہ دھول اڑائی ہوئی سڑکیں لعن طعن کے ساتھ شہریوں اور سیاحوں کیلئے باعث عذاب بنا ہوا ہے ۔دریاؤں کے کنارے دونوں جانب آباد رہائشیوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت تھی جن پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیا گیا اب بھی یہ لوگ انتہائی پر خطر زندگی گزار رہے ہیں ۔کسی بھی وقت دریا کے بہاؤ میں اضافہ ہو ا تو بڑی تباہی پھیل سکتی ہے چونکہ بلکل دریا کے کنارے کے ساتھ احتیاطی تدابیر کے بغیر آباد کاری کی گئی ہے ۔ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جگہ جگہ کھڈے اچھلتی کودتی گاڑیاں ڈوگرہ دور کے یاد کیلئے کافی ہے ۔پچاس سال قبل تعمیر شدہ خستہ حال سرکاری عمارتیں حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔گلی کوچوں میں کیچڑ سے بھرے تعفن زدہ جگہ جگہ کچرے کا ڈھیر ٹریفک کی بے ہنگم نظام کوئی سگنل سسٹم روڈ کراس کرنے کیلئے فلائی اور یا لوہے کا پل کتک موجود نہیں ۔کچھ تو بہتر کرتے گاڑیوں کے درمیان میں دوڑتے بھاگتے سڑک پار کرنے والے بزرگ،خواتین ،بچے سبھی رسک پر ہیں ۔یہ تھے صرف گلگت شہر کے وہ چند مسائل جو مہدی سرکار کی دلچسپی ہوتی تو یوں چٹکیوں میں حل کئے جاتے مگر اس کو گلگت شہر کے ساتھ ان کی عدم دلچسپی کہے یا نا اہلی پانچ سال تک بیس لاکھ عوام کے نام پر دونوں ہاتھوں سے مال و زر سمیٹتے رہے کوئی ایک بھی عوامی فلاحی کام ڈھنگ سے نہیں ہوا سوائے مایوسی کے۔

شگر اور کھرمنگ سے لیکر داریل اور تانگیر تک سبھی کو جھوٹے آسرے میں رکھا گیا ۔داد و تحسین پورا حاصل کیاگیا لیکنعملی طور پر کام کچھ نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت ہزار برائیوں کے باجود بھی کریڈیٹ کا حق دار ہے ۔شگر ،کھرمنگ ،ہنزہ کا دیرینہ مطالبہ حل کر دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے داریل اور تانگیر پر صوبائی حکومت کی نظر نہیں پڑی لیکن سچائی ایک ایسی حقیقت ہے جس کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا ہے وہ دن دور نہیں ہے جب داریل اور تانگر دو الگ الگ اضلاع بن کر دنیا کے نقشے پر آئینگے ۔

موجودہ حکومت کو چاہئے کہ سابقہ حکومتوں سے سبق حاصل کر کے عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے بلا تفریق سرکاری وسائل استعمال کر کے عوام کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں ۔سرکاری اداروں میں موجود روایتی فرسودہ نظام پر نظر ثانی کر کے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں چونکہ عوامی آنکھ کو اب بھی بے قاعدگیوں کی چند جھلکیاں کہیں نہ کہیں نظر آتی ہیں ۔صوبائی حکومت اگر برائے نام حکومت نہیں کچھ اختیارات حاصل ہیں تو انتظامی اداروں کو فعال بنائے اور عوامی مفادات کا دفاع کریں ۔سیاسی بیان بازیوں سے ہٹ کر عملی اقدامات پر توجہ دیں ۔سکردو روڈ عوامی فلاحی اور دفاعی ضرورت ہے روڈ کے تکمیل کیلئے اثر رسوخ کا استعمال کریں ۔غذر روڈ انتہائی تنگ ہونے کی وجہ سے آئے رود قیمتی انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا باعث بن رہا ہے اس روڈ کی توسیع کر کے لاکھوں انسانوں کو محفوظ بنایا جائے ۔

دیامر میں کچھ دنوں سے سیاسی طور پر سخت گھٹن محسوس کی جاتی ہے ۔ایک طبقہ سیاسی طور پر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگا ہے علاقے کی نفسیات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر سیاسی فیصلو ں کی ضرورت ہو تی ہے اب یہ صوبائی حکومت پر منحصر ہے کہ دیامر میں ایک بڑے طبقے کو مطمئن کر نے کیلئے کیا اقدامات کرتی ہے ۔اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ حکومت کو ترقیاتی کام کیلئے ذرا وقت دے دیں ۔ایک سال میں ستر سال کے مسائل حل نہیں ہو سکتے اس کے ساتھ تنقید کر برداشت کرنا اور اپوزیشن کی سرگرمیوں کو تعمیری انداز میں لینا حکومت کا فرض ہے موجودہ حکومت خدا نخواستہ سابقہ حکومت کے نقش و قدم پر چلے تو یہ نہ صرف یہاں کے عوام کیلئے باعث تباہی ہے بلکہ خود حکومت کیلئے بھی یہ آخری موقع ہے ۔بے شمار مسائل اور محدود وسائل میں کیسے مینیج کیا جائے یہ گلگت بلتستان کی نو مولود صوبائی حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔عوام صرف اور صرف اپنے مسائلوں کا حل چاہتے ہیں جماعتیں اور اشخاص عوام کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔قصہ پارینہ بننے میں ایک لمحہ درکار ہو تا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button