کالمز

دھجیاں

محمد جاوید حیات

پولیس آفیسر کے سامنے میز پر ایف ،آئی،آر کی کاپی پڑی ہے۔درخواست گزار بااثر اور با رسوخ ہے۔۔ملزم گمنام شہری ہے۔راج مزدور ہے۔ ۔آفیسر کو کچھ ہو جاتا ہے کہ ایف آئی آر پر دستخط نہیں کرتا۔کہ اگر یہ پریشر کی وجہ سے ایف آئی آر غلط باندھا گیا ہے تو بے قصور کی درگت ہوگی۔بے قصور قصوروار گردانا جائے گا۔۔۔انصاف کی دھجیاں اڑجائیں گی۔۔قیامت کا دن آئے گا اس کا ہاتھ ہو گا میرا گریبان ہو گا۔آفیسرانکوائری کرتا ہے۔حقیقت تک پہنچتا ہے۔۔۔۔ڈاکٹر کے مریض پاس بیٹھتا ہے۔مسئلہ کرانک ہے۔بار بار ڈاکٹر کے دل میں آتا ہے کہ کلینک میں آجائے۔ٹسٹ ہونگے مناسب علاج ہوگا۔کوئی طاقت قلم روکتی ہے۔دور سے آواز آتی ہے۔کہ جس کرسی میں تم بیٹھے ہو۔یہ امانت ہے۔امانت میں خیانت نہ کرو۔مریض کا ڈٹ کرخلوص سے علاج کرو۔انصاف کی دھجیاں مت آڑاؤ۔۔مریض کا نبض دیکھا جاتا ہے۔علاج ہوتا ہے۔ڈاکٹر مطمین ہے۔۔۔سیاسی لیڈر کے سامنے درخواستیں پڑی ہیں ۔درخواستیں اس کی وفاداروں اور سیاسی کارکنوں کی ہیں ۔ایسے میں اہلیت نہیں دیکھی جاتی۔پوسٹیں ہیں سیاسی قیادت کے ہاتھوں میں موقع ہے۔لیڈر کو بس سفارش دیکھنی ہے۔۔۔،،اس کی تقرری کے بعد رپورٹ کرو۔،،کوئی طاقت ہے جو اس کا قلم روکتی ہے۔خود کلامی کرتا ہے۔اقتدار آنی جانی ہے۔یہ امانت ہے۔حقدار کا حق امانت ہے۔اس کا خیال نہ رکھنا سوشل کرپشن ہے ۔انصاف کی دھجیاں اڑجائیں گی۔اس سزا سے جو رحمان کے سامنے قیامت کے مجھے دی جائی گی کوئی مجھے نہیں روک سکتا۔۔۔

بی اے کا امتحان ہے۔سپرٹنڈنٹ اور عملہ مستعد کھڑا ہے۔بچے آتے ہیں جتنی جیبیں ہیں اتنی پاکٹ ہیں ۔انمول گائیڈز ہیں ۔سفارشیں ہیں ۔دوستیاں نبھائی جارہی ہیں ۔خیال ساعیقے کی سی رفتار سے دل سے گزرتا ہے۔کہ انصاف کی دھجیاں اڑجائیں گی۔۔میں پوری قوم کا خائین بن جاؤں گا مجرم بن جاؤں گا ۔۔۔ اوپن یونیو رسٹی کے ایک ٹیوٹر کو ایک لفافہ تھما دیا جاتا ہے۔لفافے میں تین خالی پرت ہیں ۔ایک بااثر شخص کا خط ہے ۔متن میں ہے ۔۔،،یہ میرا رشتہ دار ہے ۔اس کے نمبر ۹۰ سے اوپر رکھیں ۔ٹیوٹر پھرت بھر نے کیلئے قلم نکالتا ہے مگر کوئی اس کو روکتی ہے۔کہ ایسا کرنے سے انصاف کی دھجیاں اڑجائیں گی۔قوم کے خائین کہلاؤگے۔خود تباہ ہوجاؤ گے۔۔۔انصاف کی دھجیاں اڑانے کا خیال کم کم لوگوں کو آتا ہے ۔مگر جس کو آتا ہے ۔وہ امر بن جاتا ہے بے مثال بن جاتا ہے ۔۔خلیفہ اول سے پوچھا گیا۔۔خلافت کا بوجھ پڑا ہے تجھے بیت المال سے راشن مقرر کیا جائے گا تاکے خلافت کے کام اطمنان سے کر سکو خود بتاؤ کتنا مقرر کریں ۔۔۔فرمایا کہ جتنا مدینے میں عام مزدور کی اجرت ہے۔بتایا گیا کہ گزارا نہیں ہوگا ۔۔فرمایا اگر نہ ہوا تو مزدور کی اجرت بڑھاؤں گا۔۔۔انصاف کی دھجیاں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئیں ۔۔۔ہم ان کے پیروکار ہیں مگر آج کل ہر کہیں انصاف کی دھجیاں اڑتی ہیں ۔ٹوٹتی ہیں ۔ایوانوں سے لیکر گلی کوچوں تک ،محلوں سے لیکر جھونپڑیوں تک،بنکوں سے لیکر باورچی خانوں تک۔۔۔

کبھی کبھی بہت رونا آتا ہے۔جب کہا جاتا ہے کہ مغرب میں عدالتو ں میں بلکل سچ سچ بتانا پڑتا ہے کیونکہ وہاں پر انصاف ہوتا ہے ۔تو قرآن عظیم الشان کی وہ آیت بار بار در دل پہ دستک دیتی ہے ۔۔اعدلو ھوا اقربو التقوہ ۔۔۔بہت بڑا سوال ہے کہ ہمارے ہاتھوں یہ دھجیاں کیوں اُڑتی ہیں ۔انصاف کے عالم برداروں میں انصاف کا بول بالا نہیں ۔انصاف کی دھجیاں فکر آخرت سے جڑی ہوتی ہیں ۔ہم سب عارضی دنیا کے متوالے بن گئے ہیں ۔۔پیارے پاکستان میں اگر ہر ایک فکر آخرت کو شعار بنائے تو یوں سب کچھ نہ ہوگا۔زندگی انصاف کے دامن میں خوبصورت بنتی ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگ خود انصاف کے دامن میں پناہ مانگتے ہیں ۔انصاف کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔انصاف کے سائے میں رہنا چاہتے ہیں ۔انصاف کی کرنیں ہر کہیں بکھری ہوتی ہیں ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button