کالمز
شکار
کیا کبھی آپ نے شکار کھیلا ہے۔یوں تو شکار کی بہت ساری قسمیں ہیں جنگلی جانوروں سے لیکر انسانوں کے شکار تک انسانوں کی اس بستی میں جنگلی جانوروں سے زیادہ انسانوں کے شکار کو زیادہ ہی پسند کیا جاتا ہے۔ہرانسان ہر دم اپنے شکار کی تلاش میں رہتا ہے اور ہر ادمی اپنی حثیت کے مطابق اپنا شکار دبوچ لیتا ہے۔آپ سمجھ گئے ہونگے میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ پرانے وقتوں کا انسان جنگل میں رہا کرتے تھے اور جنگلی جانوروں کا شکار کرکے اپنا پیٹ پالتے تھے آج کا انسان شہر میں رہنے کے باوجود اپنی خوراک اور پاپی پیٹ کے لئے اب بھی ان جنگلی جانوروں کا ہی مختاج ہے۔کسی کو ان جنگلی جانوروں کی کھال چاہئے ہوتی ہے تو کسی کو ان کے سینگ ۔ان چکروں میں اسی انسان نے انسانوں کے ساتھ ساتھ ان جنگلی جانوروں کا بھی جینا دوبھر کردیا ہےاگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک وقت ایسا آئیگا کہ آنکھیں ان جنگلی جانوروں کو دیکھنے کے لئے ترس جائینگی۔
ایک وقت تھا کہ گلگت بلتستان میں فری سٹائل پولو کی طرح جنگلی جانوروں کا شکار بھی فری سٹائل تھا جس کی جو مرضی جس طرح چاہئے شکار کھیلے جتنا چاہئے اتنے ہی جانوروں کو شکار بنائے شائد اس اصول کو اپناتے ہوئے گلگت میں انسانوں کا شکار بھی عام ہوا یہ تو بھلا ہو فوجی ایکشن پلان کا کہ اب انسانوں کا شکار بند ہوا ہے کچھ ایسا ہی فوجی ایکشن پلان کمیونٹی لیول پر جنگلی جانوروں پر بھی عائد کئے گئے ہیں جس کے باعث اب جنگلی جانوروں نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔ وہ اس لئے کہ ذبح یا مرنا تو ان کو انسانوں کے ہاتھوں ہی ہے ان جنگلی جانوروں کا کہنا ہے کہ یہ انسانوں کے مشکور ہیں کہ اب یہ ہمیں گن گن کر نہیں مارینگے۔ جی ہاں کمیونٹی لیول پر جنگلی جانوروں کے شکار کو ایک منظم طریقہ اپنایا گیا ہے۔آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں کوئی شکاری ہوں اور آپ لوگوں کو شکار کی بہت ساری باتیں بتانے لگا ہوں ایسی کوئی بات نہیں میں تو ہمیشہ شکار بنا ہوں اپنوں کے ہاتھوں غیروں سے شکایت کون کرے
یہ شکار کی باتیں تو ذہن میں اس لئے سما گئی کہ نصرت صاحب جو شوٹی گائوں کے رہنے والے ہیں انہوں نے ایک تنظیم بنائی ہے جو کارگاہ نالہ میں پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کو ایک منظم طریقے سے شکار کرنے کا بندوبست کرتی ہے ۔ان ہی کی سرپرستی میں کمیونٹی لیول پر کاگاہ نالے کے پہاڑ وں میں مارخور کے شکار پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اگر کسی نے مارخور کا شکار کرنا ہوتا ہے تو باقائدہ اس کے لئے پہلے درخوست گزارنی پڑتی ہے پھر اس کے بعد ایک پراسس سے گزر کر مارخور کا شکار کیا جا سکتا ہے۔۔یوں مار خور کے شکار سے گائوں لیول میں قائم اس تنظیم کو ایک معقول آمدنی بھی حاصل ہوتی ہے جو فلاح و بہبود کے لئے کام میں لائی جاتی ہے۔۔مقامی لوگوں میں بہت کم لوگ ایسے ہونگے جو اتنی طاقت رکھتے ہوں کہ بڑی رقم خرچ کریں البتہ بیرونی ممالک کے شکاری ہر سال گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں مارخور کے شکار کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور مارخور کے شکار سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اس وقت کارگاہ گلگت ، نگر اور سکردو میں ایسی ہی تنظیمں کام کر رہی ہیں جو پاکستان کے قومی جانور مارخور کی نسل کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ساتھ اسے ذریعہ آمدن بنانے کے لئے کوشاں ہیں ۔کارگاہ نالے میں تنظیم کے صدر نصرت صاحب کے سات گپ شپ کے دوران ان تنظیموں اور شکار سے متعلق بہت ساری باتوں کے علاوہ شکار اور شکاری کے حوالے سے بات چیت ہوئی تھی تو ان کی باتوں سے یہ چند خیالات ذہن میں ابھرے تھے جن کو قرطاس میں لایا ۔
ایک محاورہ ہے ہاتھی مر کر بھی سوا لاکھ کا بلکل اسی طرح مارخور کے متعلق بھی یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔جیسا پہلے ذکر ہوا ہے مار خور پاکستان کا قومی جانور ہےجہاں یہ گلگت سکاوٹس کےسر کا تاج بنا ہے ویاں یہ آئی ایس آئی کا سرکا ری نشان بھی اس کی بہت ساری تاولیں ہو سکتی ہیں ویسے مارخور کے بارے ایک کہانی بھی بڑی مشہور ہے کہ یہ سانپ کو کھا جاتا ہے ۔۔