May 30, 2016 پامیر ٹائمز کالمز Comments Off on غالب کی غالبیت
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعہ خیال ابھی فرد فرد تھا
’’ نسخہ ہائے‘‘ وفا پاکستان کے کی سرزمین کے عظیم شاعر فیض احمد فیض کا مجموعہ کلام ہے
وہ میری چین جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطی عنواں سمجھا
’’ چین جبین ‘‘ کے درمیاں بہ لگانے سے اردو کا محاورہ بن جاتا ہے ۔اس نام سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کے 15روزہ دورہ چائنہ کے دوران ہونے والے تجربات پر مشتمل ایک سفر نامہ ہے جس کا نام انہوں نے ’’ چین جبین’’ رکھا ۔
دردِ دل لکھوں کب لگ جاؤں ان کو دکھلاؤں
انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا
ارود کے مزاحیہ شاعری کی تاریخ میں ایک عظیم شاعر دلاور فگار ہیں ان کے بہت سارے مجموعے کلام شائع ہوئے ان کے ایک شعری مجموعہ کا نام غالب کے اسی شعر سے مستعار لیا لگتا ہے ان کے شعرے مجموعہ کا نام ’’انگلیاں فگار اپنی ‘‘ ہے
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور
غالب کے اس شعر میں لفظ سخن ور کے نام سے سلطانہ مہر کی چار جلدوں پر مشتمل ایک تصنیف ہے جس میں پاکستان کے اردو شعرا کا تذکرہ ہے اور اسی نام سے ایک ادبی ماہنامہ کوثر نقوی نکالتے ہیں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
غالب کے اش شعر میں فقرہ ’’ وہ آئیں گھر میں ہمارے‘‘ عبد القوی ضیا علیگ کی خاکوں پر مشتمل ایک کتاب ہے
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں
بزم آرائیاں کے نام سے معروف مزاح نگار کرنل محمد خان صاحب کا مضامین کا ایک مجموعہ ہے اس کتاب کی ایک تحریر’’ قدرِد ایاز‘‘ کو ادرو زبان کی شہکار تحریروں میں شامل کیا جاتا ہے
تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں
ڈپٹی نذیر احمد کا اردو کا پہلا ناول ’’ بنات النعش‘‘ جو کہ بہت معروف ہوا یہ گھریلوں مسائل پر مشتمل ہے اور اصلاح معاشرہ پر لکھا گا ہے
قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہوگئیں
پاکستان کے ایک مشہور کالم نگار عطاء الحق قاسمی جن کے دلیرانہ کالموں کا مجموعہ ہے’’ روزن دیوار‘‘ ایک اور برا نام شورش کاشمیری جو کہ سیاست ، خطابات اور صحافت و تاریخ کا ایک بڑا نام ہیں انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اپنی باغایانہ تقاریر سے آٹھ سال قید و بند کی صعوبت برداشت کئیں ان کی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب ’’ پس دیوار زنداں ‘‘
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کے اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
پروفیسررشید احمد صدیقی کے ہم عصروں کے خاکوں پر مشتمل ایک کتاب ہے جس کا نام ہے ’’ گنج ہائے گراں مایہ‘‘ ہے
کیا بیاں کر کے میرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی آپ بیتی’’ آشفتہ بیانی میری‘‘ ہے حکومت ہند نے پروفیسر صاحب کو متعدد اعزازات سے نوازہ تھا ان کی آرام گاہ علی گڑھ ہے
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
دنیا میرے آگے اور تماشا میرے آگے اردو کے معروف شاعر جمیل الدین عالی کے سفر نامے ہیں
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جمیل الدین عالی کے اظہاریوں کا انتخاب دو ضخیم مجموعوں ’’ صدا کر چلے‘‘ اور دعا کر چلے کی صورت میں شائع شدہ ہیں
تیرا اندازَِ سخن شانہ زلف الہام
تیری رفتار قلم جنبش بال جبریل
بال جبرئیل کے نام سے پاکستان کے مشہور شاعر علامہ محمد اقبال کا کلام ہے
بخشے ہے جلوہ گل ذوق تماشا غالب
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
پروفیسر شیخ محمد اقبال کی تصنیف کا نام ’’ ذوق تماشا‘‘ ہے یہ نابیناؤں کے انتالیس اہم مسائل پر مبنی ادبی مزاح کی حامل کتاب ہے
کہاں تک روؤں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے
مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی
سید قاسم محمود صاحب جو کہ اردو کے مشہور افسانہ نگار اور کئی انسائیکلوپیڈیا کے مصنف ہیں ان کی دس کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کا نام دیوار پتھر کی ہے
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
لطف اللہ خان جن کی وجہ شہرت یہ ہے کہ ان کے پاس بر صغیر کے نامور لوگوں کی آوازوں کا ایک خزانہ ہے اور انہوں نے کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں اور ایک سفر نامہ بھی لکھا ہے ۔ ’’ تماشائے اہل کرم ‘‘ کے نام سے ان کی ایک تصنیف ہے جس میں انہوں نے کئی شاعروں اور ادیبوں کے خاکے لکھے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مرگیا غالب آشفتہ نوا کہتے ہیں
ڈاکٹر آفتاب احمد خان کے مضامین کے مجموعے کا نام ہے یہ مضامین کلام غالب زندگی کے حادثات اس زمانے کے تاریخی حالات اور سماجی فضا سے متعلق ہیں ہیں
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
نوائے سروش کے نام سے مولانا غلام رسول مہر نے دیوان غالب کی بے مثل شرح لکھی ہے جو کہ غالب کی شاعری سے ذوق رکھنے والوں میں نہایت مقبول ہے ۔اردو میں غالب کے مقام کو شاید ہی کوئی پاسکے اور بلا شبہ غالب کا کلام بہت سے معنوں میں اور بہت ساری درجہ بندیوں میں بے مثل ہے اور یوں لگتا ہے کہ غالب کا یہ کہنا کہ
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں غالب کا ہے انداز بیان اور
ایک ایشائی مبالغہ نہ تھا بلکہ ا ن کو اپنے کلام کی طاقت کا شاید اندازہ تھا۔
نوٹ:(اس مضمون کی تیاری میں خاکسار نے کتب کے ساتھ ساتھ انٹر نیٹ سے کافی مدد لی ہے)
Mar 04, 2021 0
Mar 04, 2021 0
Mar 01, 2021 0
Feb 21, 2021 0
Mar 04, 2021 0
Feb 12, 2021 Comments Off on نذیر صابر اور علی سدپارہ ، ہم شرمندہ ہیں
Feb 11, 2021 Comments Off on (زندگی) ایک مسلمان بچی کے دل کی جراحت ، موت کے بعد نئی زندگی کا تحفہ
Jan 27, 2021 Comments Off on طاقتور کی گالی بھی “تعریف” ہے