کالمز

چاند کی حقیقت اور رویت ہلال کا مسئلہ

تحریر:حسام الدین ایسوسی ایٹ پروفیسر
اللہ تعالیٰ کی پیدا کر دہ یہ کائنات بہت وسیع ہے معلوم کائنات میں تقریباً دو سو بلین تک کہکشان دریافت ہو چکے ہیں ۔ہر کہکشان بذات خود اربوں ستاروں کا ایک دستہ یا گروپ ہوتا ہے ، جو کشش کی قوت کے ذریع ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ھر ہر ستارے کا ایک خاندان یا نظام ہوتا ہے جس کے گرد سیارے ، سیارچے ،دم دار سیارے گھوم رہے ہوتے ہیں اور چاند سیاروں کے گرد گردش کرتے ہیں۔
کائنات میں کوئی چیز جامد یا ساکن نہیں ہے جس طرح قرآن میں ارشا د ہے ’’ کل فی فلک یسجون‘‘ستاروں کی اپنی روشنی ہوتی ہے ۔سیاروں اور چاند کی اپنی روشنی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ ستاروں سے روشنی حاصل کرتے ہیں ہمارے سورج بھی ایک ستارہ ہے جس کے گرد اٹھ سیارے ہزاروں سیار چے گھوم رہے ہیں۔سورج کے خاندان میں بعض سیاروں کے کئی کئی چاند دریافت ہوچکے ہیں اور بعض کے ابھی تک کسی چاند کا پتہ نہیں چلا ہے ، مثلا عطارد اور زہر ہ کا کوئی چاندد ریافت نہیں ہوا ۔ زمین کاا یک چاند ، مریخ ،کے دو ، مشتری کے 68 ، زحل کے 62 ، یورنیس 27 ۔ اور نیپچون کے 14 اور پلوٹو سیارے چے کے پانچ چاند دریافت ہوچکے ہیں ۔اس طرح 014 2 کے اختتام تک نظام شمسی میں چاندوں کے تعداد 181 تک پہنچ چکی ہے ۔
آئیے اب ذرا زمین کے چاند کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہمارے زمین کا ایک ہی چاند ہے جو زمین کے گرد 2288 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک بیضوی شکل کے مدار میں گھوم رہا ہے ۔اور چودہ لاکھ23 ہزار میل کا فاصلہ 27 دن 7 گھنٹے اور 34 منٹ میں مکمل کرتی ہے ۔آسمان پر دیگر ستاروں کے حساب سے یہ چاند کا ایک مہینہ پورا کرتا ہے لیکن چونکہ چاند گردش کے دوران زمیں کا ساتھ نہیں چھوڑتی اور زمین سورج کے گرد گردش کرکے کچھ اگے نکل جاتی ہے اس طرح چاند کو کچھ فاصلہ مزید طے کرنا پڑتاہے اور اس طرح 29 دن 12 گھنٹے میں دوبارہ نئے چاند کا آغاز ہوتا ہے ۔اس طرح قمری مہینہ ساڑے 29 دن کا ہوتا ہے ۔اور قمری سال تقریبا 354 دنوں کا ہوتا ہے، جس طرح بتایا گیا کہ چاند کا مدار بیضوی شکل کا ہوتا ہے اس لئے چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ کبھی کم سے کم ہو کر 221463 میل رہ جاتاہے اور کبھی زیادہ سے زیادہ ہوکر 252710 میل رہ جاتا ہے اور اوسط فاصلے 238840 میل ہوتا ہے ۔
چاند کی رفتار بھی فاصلے کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے ،یہ اگر زمین کے قریب ہوتو اس کی رفتار تیز ہوتی ہے، اور اگر فاصلہ دور ہوتو رفتار آہستہ ہوتی ہے چاند کی روشنی زمین تک سوا سکینڈ میں پہنچتی ہے، چاند کا قطر 2160 میل ہے، اور اس کا حجم زمین کے حجم کا 1/49 ہے یعنی ہماری زمین سے49چاند بن سکتے ہیں۔اگر ہم زمین کو باسکٹ بال سے تشبیہ دیں تو چاند ٹینس بال کے برابر تصور ہوگا ۔ چاند کاوزن زمین کے وزن کا 1/8 اور کشش ثقل زمین کے 1/6 کے برابر ہے ،چاند کی محوری گردش زمین کے محوری گردش کے موافق یعنی مغرب سے مشرق کی جانب ہے اس لئے چاند کا ہمیشہ ایک ہی رخ زمین کی طرف رہتا ہے، البتہ انعطا ف کی وجہ سے ہم چاند کی سطح کا 59 فیصدزمین سے مشاہدہ کرسکتے ہیں ،چاندکی سطح پر سایہ نہیں ہوتا کیونکہ وہاں پر ہوا نہیں ہے ۔اس لئے چاند پر یا تو مکمل روشنی ہے یا مکمل اندھیرا ،چاند پر دن اور رات دو دو ہفتے کے ہوے ہیں ۔
چاند کی شکلیں :
چاند زمین کے گرد اور زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے ۔اس لئے زمین سورج کی روشنی کو ہمیشہ چاند کی مکمل سطح پر پہنچنے نہیں دیتی ۔زمین کی رکاؤٹ کی وجہ سے چاند کے کبھی چھوٹے اور کبھی برے حصے پر سورج کی روشنی پہنچتی ہے۔ تو جتنا حصہ اس روشنی سے چمکتا ہے ہیں چاند کی اتنی شکل بنتی نظر آتی ہے ۔کبھی پورے چاند پر روشنی پڑتی ہے جو گو ل شکل کا پورا چاند نظر آتا ہے اس طرح کبھی چاند ہلال کبھی بد ر جاتا ہے ۔ہلال کی حالات میں چاند کے بہت باریک حصے پرو روشنی پڑتی ہے ، پھر اس کا سائز پڑھتا جاتا ہے سات دن کے بعد ادھا اور 14 دن کے بعد وہ مکمل چاند بدر کی حالت میں ہوتا ہے ۔پھر اس کا سائز گھٹنے لگتا ہے ، 21 دن بعد وہ دوبارہ ادھے اور 26 دن بعد وہ غائب ہوتا ہے ، اس پوزیشن کو محاق کہتے ہیں ۔اس وقت چاند کے اس حصے پرروشنی پڑتی ہے جو زمین کی طرف نہیں ہوتا۔
چاند گرہن اور سورج گرہن:
جس طرح بتا یا گیا کہ چاند زمین کے گرد اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس طرح کبھی کبھی چاند زمین اور سورج کے درمیاں میں آتا ہے اور زمین کے بعض حصوں پر سورج کی روشنی کو چھپا دیتی ہے، اسے سورج گرہن کہتے ہیں ، اور کبھی کبھی زمین چاند اور سورج کے درمیان میں آتی ہے اور چاند تک سورج کی روشنی پہنچنے نہیں دیتی،اسے چاند گرہن کہتے ہیں ۔یوں تو ہر مہینے چاند زمین اور سورج کی سید ھ میں آجاتے ہیں لیکن گرہن ہوتے ، کیونکہ چاند کے مدار اور سورج کے مدار ہم سطح نہیں ہیں۔بلکہ چاند کے مدار اور زمین کے مدار کو 5,5 درجے کے زوائے پر دو نقاط پر کاٹتی ہے ۔پس چاند جب بدر کی حالت میں یا محاق کی حالت میں ان نقاط پر یا ان کے قریب ہوگا گرہن ہوگا ورنہ نہیں ہوگا ۔
چاند تقریباً 14 دن خط استوا کے شمال میں اور 14 دن اس کے جنوب میں گھومتا ہے ۔ماہرین آج کل چاند گرہن اور سورج گرہن کے بارے میں بہت پہلے حساب لگاتے ہیں اور اس کا وقت ، علاقہ ، دور انیہ سب کچھ بتا دیتے ہیں ۔سیورس کے طریقے کے مطابق جس تاریخ کو چاند گرہن ہوتا ہے اس کے 18 سال 11 دن اور8 گھنٹے بعد چاند گرہن ہوگا البتہ جگہ مختلف ہوگا سورج گرہن کے وقت چاندکا سایہ زمین تک پہنچتے ڈیڑھ سو میل یا اس سے بھی کم رہ جاتا ہے ،جبکہ زمین کا سایہ کائنات میں 858200 میل تک چلا جاتاہے
اس لئے مکمل سورج گرہن صرف چند منٹ کا ہوتا ہے، اور پورا چاند گرہن ڈیڑھ گھنٹے کا ہوتا ہے ۔ چونکہ نئے چاندوں کے درمیان وقفہ ساڑھے 29 دن کا ہوتا ہے اور پورا مدار 360 درجے کا ہوتا ہے اس لئے چاند کو روزانہ پونے تیرہ درجے اپنے کل کے مقام سے پیچھے ہٹنا ہوگا اور خط نصف النہار پر چاند ایک درجہ 4 منٹ میں طے کر تا ہے اس لئے چاند کو روزانہ 51 منٹ پیچھے ہونا چاہیے لیکن اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ،چونکہ چاند اور زمین مدار ہم سطح نہیں ہیں ،اس لئے اس میں کچھ فرق رہتا ہے ۔لیکنمہینے کا اوسط51منٹ کا رہتا ہے۔
اور یہ بھی ضروری نہیں کہ چاند 14 تاریخ کو ہی مکمل گول یابدر کی حالت میں ہو ، اس میں بھی فرق ہو سکتا ہے کبھی کچھ آگے اور کبھی کچھ پیچھے اوقات میں چاند مکمل گول ہو جائے اور یہ کوئی کلیہ نہیں ہے کہ 14 تاریخ کو ہی چاند کی حالت میں ہو اس لئے حدیث شریف میں بھی چاند کے موٹائی کو دیکھ کر اس کی عمر بتا نے کو منع کیا گیا ہے ۔
اگر چاند کا سفر شمال کی طرف ہو تو یہ اگلے دن زیادہ عرصے اُفق پر رہتا ہے یعنی جلدی طلوع ہوتا ہے اور دیر سے غروب ہوتا ہے اور اگر چاند کا سفر جنوب کی جانب ہوتو یہ کم عرصے کے لئے اُفق پر رہتا ہے دیر سے طلوع ہوتا ہے اور جلدی غروب ہوتا ہے ۔
چاند کا ماضی :
چاند کے ماضی کے بارے میں سائنسدانوں کے مختلف آراء ہیں۔کچھ کا خیال ہے کہ یہ زمین کا ایک علیحدہ شدہ حصہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ بحرا لکا ہل کے مقام سے کسی وجہ سے جدا ہوا ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ چاندکہیں اورا پیدا ہوا اور زمین نے اسے اپنے کشش کے اثر سے لے کر اپنے گرد گھومنے پر مجبور کر دیا ہے ۔کوئی حتمی رائے نہیں دے سکے ہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے ۔
چاند پر انسانی قدم :
انسان نے چاند کو مسخر کر نے کے لئے مہم کافی عرصہ پہلے شروع کیا تھا لیکن اسے پہلی کامیابی 1969 ؁ء کو ملی جب ’’ نیل ارم سیٹرانگ‘‘نے چاند پر قدم رکھا ۔ اس کے بعد 1969 ؁ء سے 1972 ؁ء کے درمیان مختلف مشین بھیجے گئے ابھی تک 12 انسانوں نے چاند پر قدم رکھا ہے اور ان لوگوں نے اپنے ساتھ 372 کلو گرام ریزے وغیر ہ لائے ۔ ان سے چاند کی عمر کا پتا چل گیا کہ چاند کی عمر چار ارب تیس کروڑ سال ہے جبکہ زمین کی عمر چار ارب پچاس سے ساٹھ کروڑ سال ہے ۔ گو یہ چاند زمین سے20 سے 30 کروڑ سال چھوٹا ہے ۔
چاند کی سطح :
چاند کی سطح تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ اس میں اونچے علاقے ، میدانی علاقے اور مختلف سائز کے گڑھے پائے جاتے ہیں جس کی تعداد تین لاکھ تک ہے ۔ یہ گڑھے چاند پر بیرونی سیارچوں کے گرنے کی وجہ سے بن گئے ہیں کیونکہ چاند پر ہماری زمین کی طرح کرہ ہوائی نہیں ہے جو ان گرنے والے شہا بیوں کو روک کر جلائے ۔
چاند کے سطح کی درجہ حرات:
چونکہ چاند پر کر ہ ہوائی نہ ہونے کی وجہ سے دن کے وقت درجہ حرات 100 درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے اور رات کو درجہ حرات منفی 83 درجہ سینٹی گریڈ تک گر جاتی ہے ۔
رویت ہلا ل :
چاند کی پیدائش زمین کے آسمان پر ایک ہی وقت میں ہوتی ہے ۔ لیکن چاند پیدا ہوتے ہی انسانی نظر میں آنے کی قابل نہیں ہوتا ۔ کافی وقت گذرنے کے بعد یہ انسانی نظر میں آنے کے قابل ہوتا ہے ، چونکہ چاند کی مدار بیضوی شکل کا ہو تا ہے اس لئے چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ کبھی 252710 میل تک زیادہ ہوتا ہے اور کبھی 221463 میل تک کم ہو جاتا ہے ، اس لئے اگر چاند زمین کے قریب ہو تو کم از کم 17 گھنٹے کی عمر کے بعد چاند انسانی نظر میں آنے کا امکان ہوتا ہے اور اگر فاصلہ زیادہ ہو تو 24 کی عمر کے بعد چاند انسانی نظر میںآنے کا امکان نہیں ہوتا ۔ بعض اوقات لوگوں کو شک ہوتا ہے جب وہ دوسرے دن کے چاند کے سائز کو دیکھتے ہیں جو بڑا نظر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ حکومت نے ایک دن کی غلطی کر دی ۔ لیکن یہ بات صیحح نہیں جیسے مثال کے طور پر اگر پہلے دن چاند کی عمر 15 یا 16 گھنٹے کی ہوتو وہ انسانی نظر میں نہیں آئے گا اور دوسرے دن وہ 40=24+16 گھنٹے کا بن جائے گا جو بڑا بھی ہوگا اور زیادہ عرصے تک افق پر بھی رہے گا ۔ یقینی طور پر 29 دن والے مہینے کے چاند سے 30 دن والے مہینے کا چاند بڑا دیکھائی دے گا اس میں شک نہیں ہونا چاہیے 20 گھنٹے کی عمر والا چاند 45 منٹ افق پر رہے گا ۔اور40گھنٹے کی عمروالا چاند90منٹ اُفق پر رہے گا۔ اسکے علاوہ شرقی نصف کرے کے مغربی علاقوں میں چاند پہلے نظر آسکتا ہے کیونکہ مشرقی علاقوں میں چاند کی عمرکم ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہیں آسکتا جبکہ مغربی علاقوں میں پہنچتے پہنچتے اس کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے بڑ ا ہوتا ہے اور وہ نظر بھی آتاہے ۔ہمارے ملک کے بھی انتہائی مغربی علاقوں مثلاً گوادر ، پسنی اور جیوانی وغیرہ میں دوسرے علاقوں کی نسبت چاند نظر آنے کے امکانات زیادہ نہیں ۔اور مشرقی وسطی کے ممالک میں اس لئے چاند پہلے نظر آتا ہے ۔ موسم گرمامیں ملک کے انتہائی شمالی علاقوں مثلاً چترال اور گلگت میں چاند نظر آنے کے امکانات ہوسکتے ہیں ۔اوراس کے علاوہ چاند نظر آنے کے لئے سورج ، چاند اور زمین کے درمیان بننے والے زاویے کی بھی اہمیت ہے ۔اگر یہ زاویہ نو درجے سے کم ہوتو سائز بڑا ہو کر بھی چاند نظر نہیں آسکتا اور اس کے علاوہ موسم اور افق کی شفافیت بھی اہمیت کے حامل ہیں ۔اور بادل چھا جائے اور گرد الود ہوا کی کیفیت ہو تو چاند نظر نہیں آسکتا ۔
چونکہ زمین کے مدار اور چاند کے مدار میں تبدیلی آتی رہتی ہے کیونکہ یہ ہم سطح نہیں ہیں اور ہوا کی کیفیت بھی یکسان نہیں رہتی اور چاند کی رفتار میں بھی فرق ہوتا ہے کبھی زمین کے قریب ہو کر تیز گھومتا ہے اور کبھی زمین سے دور ہو کر آہستہ گردش کرتا ہے اس لئے ہم سائنسی طور پر مستقبل کے چاند کے پوزیشن کے بارے میں بات کر سکتے ہیں ۔البتہ رویت ہلا ل کے بارے میں یقینی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس میں کئی ایک عوامل ہیں جو یکسان نہیں رہتے ۔اس لئے حدیث شریف میں بھی چاند کو دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند کو دیکھ کر افطار کر نے کا حکم دیا گیا ہے ۔سائنسی طور پر رویت ہلا ل کا کوئی کیلنڈر مرتب نہیں کیا جاسکتا۔اور نہ ہی ہم کسی اور ملک کے اعلان اور مرتب کر دہ کیلنڈر کی پیر وی کر نے میں پابند ہے ۔ کیونکہ ہمارے اور ان کے جعرافیا ئی حالات اور وقت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button