کالمز

دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہزادہ سہیل ایوب نے سوچنے والی بات کی

تحریر: شمس الحق قمر
اللہ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: میں نے تمہیں قبیلوں میں پیدا کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے بہتر وہ ہے جو پرہیزگار ہو۔ اپنی نسل اور اپنے قبیلوں کی ترجیح اور ایک دوسرے پر فوقیت دینا ایک قدیم معاشرتی برائی ہے ، ایسی ہی برائیوں کی سدباب کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے جوکہ اپنے اپنے زمانوں میں انسانوں کو صراط مستقیم کی تربیت دیتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری پیغمبر ایک ایسے بشر تھے جسے اِس دنیا اور اُس دنیا پر رحمت بنا کر بھیجا گیا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اے لوگو تم میں سے کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاحل نہیں ‘‘ لیکن بد قسمتی سے ہم تمام مسلمان اُنہی برائیوں کا شکار ہیں جن برائیوں سے ہمیں سختی سے روکا گیا ہے۔

پچھلے دنوں فیس بک پر شہزادہ سہیل ایوب صاحب نے ایسی ہی کسی بات پر ایک چھوٹا مگر پُر مغز بیان رقم کیا ۔ عنوان یہ چل پڑا تھا کہ 2015  ء کی بارشوں سے چترال میں جو تباہی پھیلی اُس پر آج تک کسی سیاسی راہنما نے توجہ نہ دی ۔ ہمارے سیاسی راہنما ہوٹلوں میں قیام و طعام کے مزے لوٹ رہے ہیں یہاں تک کہ جس عوام سے انہوں نے ووٹ لئے جن کی صحت ، تعلیم ، مال و دولت اور آبرو کی حفاظت کے لئے حلف اٹھائے آج اُسی عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چترال سے فرار ہیں ۔ اسی عنوان پر بحث کرتے ہوئے شہزادہ سہیل نے ایک پوشیدہ حقیقت کا پردہ چاک کیا اور ہمارے سیاسی راہنماؤں کی اس بے حسی کو چترال میں تیزی سے جڑ پکڑتی ہوئی برائی مذہبی شدت پسندی اور نسل پرستی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے علاقے میں اگرچہ کئی ایک برائیاں ہیں تاہم ان سب برائیوں کی جڑ لوگوں کی بصیرت پر پڑانسل پرستی اور مذہبی شدت پسدی کا سیاہ پردہ ہے ۔ موصوف اگردلائل نہ دیتے تو ہم سمجھتے کہ گلی کوچوں میں لوگ اس طرح کے بے بنیاد الزامات لگاتے رہتے ہیں جن کا پیر ہوتا ہے نہ سر لیکن موصوف نے جاندار دلائل سے ہمیں اپنے نظریے کی طرف راغب کیا ہے ۔ کہتا ہے کہ ہمارے سیاسی نمائندے انہی برائیوں کو گا ؤ تکیہ بنا کر ان پر ٹیک لگا کے آرام سے کھا رہے ہیں ۔ ہم اگر غلام محمد کی غلطیوں کی نشاندہی کریں گے تو ذوندرے برادی ہمیں اپنا دشمن سمجھے گی ، افتخار کی طرف انگلی اُٹھائیں گے تو شاہی خاندان کے زیر عتاب آئیں گے ، سردار حسین کو ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے تو سادات برادری ہم سے کُٹی کرے گی، سلیم کو سیدھا راستہ دکھائیں گے تو اسماعیلی بہن بھائی ہمیں متعصب گردانیں گے ، معفرت شاہ کی طرف آنکھ اُٹھائیں گے تو دینی معاملات میں دخلِ در معقولات کا مترادف ہوگا اور اگر بی بی فوزیہ کے حوالے سے بات کریں گے تو حقوق نسواں کی تضحیک ہوگی ۔ لہذا کسی بھی صورت حال میں چب رہنا ہی بہتر ہے ۔

یہ بیاں پڑھ کر دل کو راحت ہوئی کیوں کہ یہ وہ باتیں ہیں جو کہ ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ ہمارے لیڈرز اپنی کرسیوں کو بچانے کے چکروں میں ایک دوسرے پر چوری کے الزام لگانے میں مصروف ہیں ۔ دنیا کے مہذب اور ترقیافتہ و اخلاق یافتہ راہنماؤں میں دنیا کو درپیش مسائل کی باتیں ہوتی ہیں کہ ماحولیاتی مسائل سے کس طرح نبرد آزماأ ہو ا جاسکے ، اپنے ملک کے لوگوں کو صحت کی بہترین سہولیات کیسے پہنچائی جائیں، معیارِ تعلیم کو کیسے بہتر بنایا جائے کیوں کہ یہ عوام کی اولین ضروریات ہیں ااور اُن ممالک کی قومیں اپنے راہنماؤں سے شاہی خاندان سے تعلق، زوندرے برادی ، رزے برادری ، سادات نسل ، سنی یا اسماعیلی فرقے کا تقاضا نہیں کرتے اسی لیے اُن کے لیڈرز وہی کام کرتے ہیں جو بنیاددی طور پر عوام چاہتے ہیں ۔ اس سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ ہمارے زوال کی وجہ ہم خود ہیں ہم مجموعی ترقی کے کھبی بھی خواہاں نہیں ۔ ہمارے راہنماؤں کو خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو کس رسی سے باندھنا چاہیے اور کس لاٹھی سے ہانکنا چاہیے ۔ کائینات میں ہماری اس دنیا کی مثال ایک ایسے زرّے کی ہے جو کہ شاید برقیاتی خوردبین سے بھی نظر نہ آئے اسی کے اندر ایک گوشہ ہے جسے ہم پاکستان کہتے ہیں اور اس پاکستان کے اندر ہم رہتے ہیں اب ہماری اہمیت کیا ہوگی اور کیا نہیں ہوگی وہ آپ بہتر جانتے ہیں ۔ایک ایسی جگہ جس کی کائینات میں کوئی وقت نہیں ، پر رہتے ہوئے ہم الگ الگ قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اُن قبیلوں میں بھی کچھ اپنے آپ کو قابل تکریم سمجھتے ہیں۔ غالب نے شاید اسی سوچ کی بنیاد پر کہا تھا کہ ؂ بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ۔ قبیلوں کی اس جنگ میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ میں آپ سے زیادہ قابل عزت ہوں اور آپ مجھ سے کم یا یہ کہ میں اللہ سے زیادہ قریب ہوں اور آپ کم ۔ سوچنے والی بات ہے کہ نہیں ؟

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button