کالمز

سیاست کار یا سیاست دان

کم از کم میری کم فہمی کہتی ہے کہ ہمارے ہاں سب سیاست کار ہیں سیاست دان کوئی نہیں ۔۔سیاست کے طالب علموں کو پتہ ہے کہ ’’سیاست کار‘‘ اور’’ سیاست دان ‘‘میں فرق کیا ہے ۔۔سیاست کاری بہت چھوٹے پیمانے کی بے تکی کوشش ہے جس میں سننے والے کو صرف لفظ سنائے جاتے ہیں صرف اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’ہم نے یہ کیا ‘‘’’ہم ‘‘اور’’ میں‘‘ پر بہت زور دیا جاتا ہے ۔۔سامنے دیکھا جاتا ہے دور کی سوچا نہیں جاتا ۔۔تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا جا تا ۔۔تجربات کام میں نہیں لائے جاتے ۔۔دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے یہ سوچا نہیں جاتا کہ جس کو ہم دھوکہ دے رہے ہیں اس کے پاس بھی عقل ہے وہ بھی برے بھلے میں تمیز کر سکتا ہے ۔۔اپنی جھوٹی تعریفیں کی جاتی ہیں ۔رشتے ناتے جوڑے جاتے ہیں ۔۔آ نے والا وقت بھلا دیا جاتا ہے۔ ذہن کے سکرین پہ قوم کے مفادات نہیں ہوتے ۔سوچوں کا دھارا کہیں اور بہ رہا ہوتا ہے۔ قوم کی عزت کا سوال سامنے نہیں ہوتا ۔۔زات میں انانیت آجاتی ہے۔ غرور آجاتا ہے ۔فاصلے بڑھتے ہیں ۔۔چاپلوسی ہو تی ہے۔ من مانیاں ہوتی ہیں ۔۔زندہ انسان کو بت بنا کر اس کی پوجا کی جاتی ہے ۔۔یہ سب سیاست کاری ہے ۔۔ سیاست کار یہ سب کچھ کرتا ہے اور اس کو اپنی صلاحیت اور ہوشیاری تصور کرتا ہے ۔لیکن سیاست دانی اس سے الگ ایک صلاحیت کا نام ہے ۔۔۔سیاست خدمت کا نا م ہے۔۔سیاست دان سب سے بڑا خادم ہوتا ہے ۔۔غمی خوشی میں سب سے پہلے وہ پہنچتا ہے ۔۔اگر بھوک ستائے تو سب سے زیادہ اس کو ستاتا ہے ۔اگر پیاس تڑپائے تو سب سے پہلے اس کو تڑپاتا ہے ۔اگر جیبیں خالی ہوں تو اس کی جیب میں پائی نہیں ہوتی ۔اگر گولیاںآکر سینے میں لگیں تو سب سے پہلے اس کے سینے لگتی ہیں ۔۔ اگر کسی کا ہاتھ پکڑنا ہو تو سب سے پہلے اس کا ہاتھ آگے بڑھتا ہے ۔۔اگر عدالت کا کہیٹرا ہو ۔ تو پہلے وہ اس میں کھڑا ہوتا ہے ۔۔اگر اس خاک کو خون کی ضرورت ہو تو اس کے خون کا قطرہ پہلے گرتا ہے ۔۔تب اگر مسکرنے کا موقع آئے تو اس کو حق پہنچتا ہے کہ وہ قہقہا لگائے ۔۔یہی سیاستدان ہے کوئی میرے ساتھ اتفاق کریں یانہ کریں۔ اسی کو دریا کنارے بھوکے کتے کی فکر ہوتی ہے ۔۔وہی مشک کی خوشبو تقسیم کرنے کی فکر کرتا ہے ۔۔وہی اضافی آٹا بیت المال کو واپس کرتا ہے کہ یہ زیادہ ہے ۔۔تب اس کو شہر کی چابیاں پیش کی جاتی ہیں ۔۔تب اس کے سامنے سپر پاور کے بادشاہ کا تاج لاکے رکھا جاتا اور وہ اس پہ پاؤں رکھتا ہے ۔۔وہی سیاست دان ہے ۔۔وہ دنیا کو سیاست کا وہ معیار دے کے گئے ہیں ۔۔ہمارے ہاں جب سیاست کاروں کو سیاست دان کہا جاتا ہے تو میری کم عقل تڑپ اٹھتی ہے اور چیخ کر کہتی ہے ۔۔کہ توبہ یہ تو سیاست کار ہیں سیاست دان ہونا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔۔آٖفسر شاہی ہر دور میں اپنا اثر دیکھاتی رہی ہے۔ کتنے مغرور بادشاہ دنیا سے گئے ۔کتنی مغرور لیڈر شب مٹ گئیں ۔۔اپنے آپ کو بڑا سمجھنا انسان کی کمزوری ہے ۔۔خلیفہ دوم فاروق اعظمؓ خطبہ دے رہے تھے یک دم جذباتی ہو گئے اور فرمایا ۔۔۔اے عمر تو وہی تھا نا کہ تیری ماں باسی گوشت پکا کے تجھے کھلاتی تھی ۔۔تو اونٹوں کی رکھوالی نہیں کر سکتے تیرے چچا تجھے غصہ ہوتے ۔۔۔صحابہؓ نے خطبے کے دوران ایسی باتیں کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا ۔۔یکایک میرے ذہن میں خیال آیا کہ اے عمر تو خلیفہ ہے ۔۔بس میں اپنے اوقات یاد کر رہا تھا ۔۔۔ہمارے ہاں سیاست کار اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں تب ان کی آنکھیں خود بخود مند جاتی ہیں ان کو ان کے علاوہ کوئی اور دیکھائی نہیں دیتا ۔۔آج جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والے سیاست کاری اور سیاستدانی میں فرق نہیں کر سکتے ہیں یہ المیہ ہے ۔۔ان کو پہلے سیاست پڑھنا چاہئے پھر ان صلاحیتوں سے لیس ہونی چاہئے جو ایک سیاست دان کے پاس ہونی چاہئیں ۔۔کم از کم برصغیر میں ہمارے اسلاف جو مخلص سیاست چھوڑ گئے ہیں اس کو تو اپنانا چاہئے کیونکہ اس ملک خداداد کو تا قیامت سلامت رہنا ہے ۔۔۔۔انشااللہ

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button