تحریر: شمس الحق قمر ؔ
ہمارے سیاسی نمائندوں نے آن لائین منصوبوں پر بڑی سرعت کے ساتھ کام شروع کیا ہوا ہے ۔ چترال پائین میں نمائندہ برائے قومی اسمبلی آن منصوبوں میں اپنا لوہا منوا رہا ہے جبکہ چترال بالا میں صوبائی نمائندہ آن لائین کام میں منہمک ہیں ۔ چترال کے تمام برقی جریدے ان دونوں راہنماؤں کے برقی منصوبوں سے اٹا اٹ بھرے پڑے ہیں ۔ چونکہ آن لائین کاموں کا تعلق برقی لہروں سے ہوتا ہے اس لئے یہ انسانی آنکھ سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ہمارے سیاسی نمائندے جدید خطوط پر اپنا کام استوار کئے ہوئے ہیں ۔ ہمارے لوگ کتنے جاہل ہیں کہ سیاسی نمائندوں سے ہر اُس کام کی توقع رکھتے ہیں جو نظر آجائے، محسوس کیا جا سکے ، عوام کو فائدہ پہنچ سکے ۔اس غبّی عوام کو کم از کم یہ سمجھ آنی چاہیے کہ آن لائین کام آن لائین ہی ہوتے ہیں جن کا نظر آنا خلاف فطرت امر ہے ۔
دوستو ! حد ہوتی ہے ہر کام کی ۔ عوام جانتے ہیں کہ کون کیا ہے ۔سیاست کے نام پر ڈوھنگ رچاتے عوام کو لالی پوپ کھلانے کا مطلبسمجھنے کیلئے بہت مشکل نہیں ہے آج کل کے بچے بہت چالاک ہیں آپ کی حرکات و سکنات کو بھانپ سکتے ہیں ۔ پرَیہاں مجبوری یہ ہے کہ ہم سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ، چترال ایک کنبے کی مانند ہے ہم سب کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے رشتہ داربلکہ بہت ہی قریبی رشتہ دار ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے عیوب صیغہ راز میں رکھتے ہیں ۔ لوگ اس لئے چپ ہیں کہ ہماری عزت مشترک ہے ، ہماری زبان ایک ہے ۔ ورنہ منہ میں ہر آدمی زبان رکھتا ہے ۔ آیئے زرا دیکھتے ہیں کہ ہمارے سیاسی نمائندوں نے عملی طور کیا کیا کار نامے انجام دیے ہیں:
*: پائین چترال میں چترال جیل کے ساتھ روڈ کی خستہ حالت آپ سب نے دیکھی ہوگی۔ گزشتہ ایک عشرے سے کٹاؤ کی زد میں آکر چترال مستوج روڈ زبوں حالی کا شکار ہے ۔ ہمارے سیاسیراہنما ہر مہینے اسی روڈ سے کم اس کم دس دفعہ گزرتے ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ نہ اُنہیں شرم آتی ہے نہ ہمیں احساس ہے
*: کوراغ میں پچھلے سال کے سیلاب کی وجہ سے جو روڈ دریا کی نذر ہوئی تھی ابھی تک اُسی شکستہ حالت میں ہے ۔ اوپر سے مسلسل سیلائڈنگ ہو رہی ہے۔ لوگ آیت الکرسی کی ورد کرتے ہوئے اس راستے سے گزر تے ہیں۔آخر اس پر کتنی بڑی رقم کی لاگت آسکتی ہے کہ اِسے یو ں لاوارث چھوڑ دیا جائے ؟
*: سڑک اور بجلی بنیادی انسانی ضروریات میں سے ہیں ۔ ریشن پاور ہاوس پچھلے ایک سال سے آسیب زدہ کھندر کا منظر پیش کر رہاہے ۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔
*: بمباغ دریأ کے بہاؤ کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ رہا ہے ہمارے لیڈروں کے خیالی منصوبے اسکرین پر دھڑا دھڑ چھپ رہے ہیں ۔
*: موردیر اور کوشٹ کو چترال کے باقی تمام دیہات سے ملانے والا پل پچھلے سال دریا کی نذر ہوا تھا یہی نہیں بلکہ اس سال اسی پل میں حکومت کی نا اہلی اور ناقص تعمیراتی میٹیریل کی وجہ سے ہماری انتہائی قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا ۔ان قیمتی جانوں کی زمہ داری کن لوگوں کے اوپر عاد ہوتی ہے ؟
*: موژگول پل جو موڑکہو اور چترال کے باقی دیہات کو ملاتا ہے ایک لمبے عرصے تک خستہ حالت میں رہا ۔
*: جنالکوچ مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ باسیوں نے خاندان میں سر چھپانے کیلئے چھونپڑے بنائے لیکن سرکار نے تجوزات کے کھاتے میں اُن بیچارے اور بے یارو مددگار لوگوں کا جینا حرام کیا ہے ہمارے راہنما بجائے اُن غریب لوگوں کی مدد کے برقی اخبارات کے پیٹمیں اپنے بے معنی بیانات ٹھونسے جا رہے ہیں
*: بونی پل سن ستر کی دہائی میں بنا تھا ۔ متبادل پل کی تعمیر تو شروع تھی لیکن محبت خان کی مسجد کی تعمیر کے سامنے یہ پل پا بہ حنا ہے ۔
*: بونی مستوج روڈ پر ایک زمانے میں کام شروع ہوا تھا ۔ اس روڈ کی حالت دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چاندپر کسی نے تھوڑی بہت کھدائی کی اور چھوڑ کے چلے گئے ۔
*: بریپ چترال کا ایک خوبصورت گاؤں تھا ۔ یہاں کے سیب پورے پاکستان میں مشہور تھے ضیأ الحق بھائی ہیلی کے ذریعے یہاں کے سیب لے جایا کرتے تھے ۔ وہ گاؤں بنجر پڑا ہے کسی سیاسی کارندے نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنے کی زحمت نہیں کی ۔ بے چارے لوگوں نے انتقامی کارروائی کے طور پر افیوں کی کاشت شروع کی ہے جو کہ سب سے خطر ناک بات ہے ۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے اور قوم کے لئے زہر کاشت کرتے ہیں تاکہ اس زہر کا کھا کر خود کشی کر سکیں۔
میںیہاں گنتا رہوں گا تو فہرست طویل ہوگی ۔ مختصراً یہ کہ ہم ان سیاسی لوگوں کے ہاتھوں مکمل طور پر لٹ گئے ہیں ۔ یہ لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح ہمیں گھسیٹے اور ہانکتے رہتے ہیں اور ہم رشتہ، قوم ، مسلک اور علاقے بنیاد بنا کر سر تسلیم خم کر کے اُن کے پیچھے پیچھے ایک نا معلوم اور تاریک مستقبل کی جانب رو بہ سفر ہیں ۔جن پتھروں کو ہم مل کر تراشتے رہے وہ بت خانے میں ہمارے صنم بنے بیٹھ گئے۔ اُن میں سے کچھ بتوں کو اگرچہ زرہ برابر احساس ہوتا ہے تاہم اکثریت اُ ن بتوں کی ہے جو ہمارے حقِ رائے دہی کو سگریٹ کے دھواں اور شراب کی گھونٹ میں اُڑاتے ہیں۔ ہماری باتیں بہت سوں کو بری لگیں گی لیکن یہ وہ باتیں ہیں جو دل سے نکلتی ہیں۔ یہاں تعلیم اور صحت کی باتیں بھینس کو بین بجانے کے مترادف ہے ۔ لوگ پاکستان کو ایسے کھائے جارہے ہیں جیسے اوباش اور بازاریلڑکوں کو سر راہ کوئی طوئف ملی ہہو ۔ یہاں قوم کی آبرو ، جان اور مال کا محافظ کوئی نہیں ہے ۔ یہ جو پاناما لیک یا ویکی لیک کی کہانیاں ہیں یہ مزاق نہیں ہیں ۔ ان کے پاس کوئی نہ کوئی شواہد اور دلائل موجود ہیں۔ ہم اس حد تک مجبور ہوگئے ہیں کہ اپنا ووٹ استعمال کرنے کو من نہیں کرتا ۔ میں ذاتی طور پر یہ کبھی نہیں چاہوں گا کہ میں اور میرا خاندان بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کا حصہ بنے
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button