کالمز

شعبہء صحت میں اصلاحات۔۔۔حکومت کا مستحسن اقدام

تعلیم اور صحت معاشرے کے دو ایسے شعبے ہیں جن کی اہمیت سے انکارممکن نہیں۔معاشرے کے ہر فرد کا ،چاہے امیر ہو یا غریب،بلاواسطہ ان دو شعبوں سے واسطہ پڑتا ہے۔مگر بدقسمتی سے یہی دو شعبے حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار رہے ہیں۔وقتی اور قلیل مدتی پروگراموں(ایڈہاکزم) کے ذریعے ان اداروں کو چلانے کی کوشش کی گئی اور رہی سہی کسر ان دو اداروں میں سابقہ حکومتوں کی سرپرستی میں ہونے والی اندھادھند کرپشن نے پوری کی۔سیاسی اور مالیاتی بنیادوں پر ہونے والی بھرتیوں کے ذریعے نااہل لوگوں کو اداروں پر مسلط کیا گیا۔جس کی بدولت اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہوئی۔اور عوام کا اعتماد مجروح ہوا۔نتیجے کے طور پر عوام ان دو اداروں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان کے متبادل نجی اداروں کا رخ کرنے لگے۔جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ آج پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں عوام کا رش لگا رہتا ہے۔اور ان اداروں میں تگڑی سفارش کے بغیر طلبہ اور مریضوں کو داخل کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تعلیم اور صحت منافع بخش کاروباربن چکے ہیں اوراس کاروبار میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔کیونکہ اس کاروبار میں گھاٹے کا امکان کم ہے۔
بھلا ہو موجودہ حکومت کا،کہ آخر عوامی نوعیت کے ان شعبوں کی اہمیت کا ادراک کیا گیا۔اور صحت و تعلیم کے شعبوں میں اصلاحات کے لیے سنجیدہ کوششوں کا آغازکیا گیا۔چیف منسٹر گلگت بلتستان جناب حفیظ الرحمان اور ان کی ٹیم کی شبانہ روز کاوشوں کی بدولت جہاں دیگر اداروں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے وہاں صحت و تعلیم کے شعبوں میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ پالیسیاں صرف کاغذوں اورفائلوں تک محدود نہیں۔ہنگامی بنیادوں پر ان تجاویز اور اصلاحی ایجنڈے پرکام ہو رہا ہے۔خصوصا صحت کے شعبے میں حکومت خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔محکمہٗ صحت کے سینٗر ڈاکٹرز اور ماہرین کی زیر نگرانی صحت کے شعبے اور اس سے وابستہ افراد کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اور فوری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔حکو مت کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو سرجن عمران اور سرجن اقبال عزیز جیسے ماہر اور دور اندیش شخصیات کی راہنمائی حاصل ہے۔جن کی صلاحیتوں اورخدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔
ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی اور شعبہء صحت سے وابستہ ماہر افراد کی دستیابی بلاشبہ ایک مشکل کام ہے۔مگر حکومت سے وابستہ ارباب اختیار کی نیت ٹھیک ہو تو کوئی کام مشکل نہیں۔اور بلامبالغہ حکومت کی بہترین اور عوام دوست پالیسیوں کی وجہ سے اس سمت میں بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔سٹی ہاسپٹل کشروٹ گلگت کی اپ گریڈیشن ،شہید سیف الرحمان ویمن اینڈ چلڈرن ہاسپٹل کی تعمیر اور ڈی ایچ کیو ہاسپٹل گلگت کی تعمیر نو ایسے اقدامات ہیں جن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ان ہاسپتالوں کی تعمیر نواور سہولیات کی دستیابی سے گلگت بلتستان میں صحت کی سہولیات میں بہتری آئی ہے اور عوام کو ان کی دہلیز پر صحت کی بہترین سروسز میسرہورہی ہیں۔موجودہ بجٹ میں بھی صحت کے شعبے میں بہتری اور ترقی کے لیے خاطر خواہ رقم مختص کی گئی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ مختص کردہ رقم صاف اور شفاف طریقے سے ان منصوبوں پر خرچ ہوگی۔
محکمہ صحت کی زبوں حالی کی ایک بڑی وجہ ماہر افرادکی عدم دستیابی رہی ہے۔ڈاکٹرز کی کمی کی وجہ سے صحت کے ادارے مفلوج ہوکر رہ گئے تھے۔ہسپتال اور ڈسپنسریاں بن رہی تھیں مگر ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادارے عوام کو خاطر خواہ سہولیات دینے سے قاصر تھے۔ہر سال گلگت بلتستان کے کوٹے پر سینکڑوں طلبہ ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرتے ہیں مگرکوئی یہاں جی بی آنے کے لیے تیارنہیں۔اس کی وجہ؟؟ حکومتوں کی غلط پالیسیاں اور اہمیت کے حامل شعبوں کو نظراندازکرنے کی روش۔ہر انسان کو بہتر سے بہترین کی تلاش ہوتی ہے اوریہ ہر آدمی کا حق ہے۔یہ عام فہم سی بات ہے کہ اگرکسی شخص کو اسلام آبادجیسے شہر میں بہترین مراعات میسر ہوں تو وہ بھلا گلگت بلتستان کا رخ کیوں کرے؟
حکومت نے اس گمبھیر مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے دن رات رات تگ ودوکی۔اور ماہرین کی ایک ٹیم کی نگرانی میں ڈاکٹروں کے لیے خصوصی مراعات کا پیکج تیارکیا جا رہاہے۔جناب وزیراعلی کی ذاتی دلچسپی کی بدولت یہ پیکج تکمیل کے مراحل میں ہے۔شنید ہے کہ اسی ماہ کے اواخر تک اس پر عمل درآمد ہوجائے گا۔اس پیکج کی منظوری کے بعد قوی امکان ہے کہ ماہر ڈاکٹرز کو گلگت بلتستان میں خدمات سرانجام دینے کے لیے راغب کیا جاسکے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button