کالمز

گلگت سکردو روڈ یا پھر مسئلہ کشمیر؟

رجب علی

کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ اس کی شاہراہوں کی کشادہ اور جدت سے لگایا جاسکتا ہے پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی حکومت نے زمین اور آسمان کے درمیان کا راستہ میٹرو اور اورینج نامی پروجیکٹ تعمیر کرچکے ہیں اور ساتھ ہی دیگر میگاپراجیکٹ زیر تعمیر ہے جو عوام کے سہولت کے ساتھ ملک ترقی میں سنگ میل ثابت ہورہا ہے موجودہ حکمران جماعت کے وزیر اعظم کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ملک میں سٹرکوں کا جال بچھانے میں شہرت رکھتا ہے اور ساتھ ہی نئے سڑکوں کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی بھی رکھتے ہیں ملک میں شاہراہوں کے جتنے بڑے پروجیکٹ رکھے گئے ہیں اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو جاتا ہے لیکن گلگت بلتستان میں جب بھی میگا پراجیکٹ کی بات چلتی ہے تو کوئی نہ کوئی مصلحت کا شکار ضرو ر ہوتی ہے چاہئے وہ پاک چین اکنامک کوریڈور ہو یا گلگت سکردو روڈ ،حالیہ دنوں بلتستان کے عوام کی طرف سے سب سے زیادہ مطالبہ اور تحفظات گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کے حوالے سے گردش کررہی ہیں بلتستان کے دس لاکھ نفوس کی آبادی کے لئے شہہ رگ کی حامل یہ شاہراہ یہاں کے عوام زندگی اور موت کا مسئلہ قرار دے رہی ہے اور ہر سمت سے صدائے احتجاج بلند ہوتا دکھائی دے رہا ہے اس شاہراہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی بلند ترین اور موت کو دعوت دینے والی خطرناک ترین محاذ جنگ جو پاک بھارت باونڈری پر واقع ہے اسی شاہراہ سے گزر کر جاتے ہیں دنیا کی درجن سے زائد معروف پہاڑی چوٹیاں ،اہم سیاحتی مقامات شنگریلالیک ، سد پارہ لیک ،دنیا کی چھت دیوسائی کا بھی واحد زمینی راستہ یہی شاہراہ ہے لیکن حکومتوں کی ناقص پالیسوں کی وجہ سے یہ شاہراہ ہر طرف موت کا کنواں بن گیا ہے سینکڑوں قیمتی سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے موت کے منہ چلے گئے ہیں سابق پیپلز پارٹی کی حکومت نے مخض پانچ سال تک تعمیر کا نعرہ لگا کر اپنی مدت پوری کرلی جو بعد میں مسلم لیگ ن کے لئے الیکشن کارڈ کا زریعہ گئی وفاقی پارٹیاں چاہیے پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ن ہر حکومت نے اس شاہراہ کو انتخابی عمل میں جتنے کا سہارا بنا لیا ہے اس شاہراہ کی تعمیر کے لیے کبھی ایشیائی ترقیاتی بنک ،کبھی چینی ایگزام بنک اور وفاقی فنڈ کے بہانے بناتے رہے اس بدقسمت شاہراہ کی تعمیر نو کا اعلان سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 2009کے انتخابات کے موقع پر اپنے دورہ بلتستان کے موقع پر کیا تھا اس کے ساتھ ہی دیگر اعلانات بھی کئے تھے تاہم بعض اعلانات پر عمل در آمد ہوئے بعض سیاست کی نذر ہوگئے اس کے بعد مسلم لیگ نواز نے بھی پیپلز پارٹی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت سارے اعلانات کئے ان میں اہم ترین قومی منصوبہ گلگت سکردو روڈ کی نہ صرف تعمیر نو کا علان کیا بلکہ اس روڈ کی باقاعدہ تعمیر کے لئے سنگ بنیاد بھی رکھا گیا تھا اسی اعلانات پر یقین رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام نے ن لیگ کو بھاری مینڈیٹ دیا سونے پہ سہاگہ وزیر اعظم نے سیلاب متاثرین سے بلتستان کے ضلع گانچھے میں خطاب کرتے ہوئے اس شاہراہ کو خپلو تک وسعت دینے کی نوید سنا دی تھی لیکن حکومت سازی کے نو ماہ بعد اس منصوبے کی فائل منظوری کے لئے وزیر اعظم ہاوس پہنچی تو اس کا ٹینڈر ہی منسوخی کا پروانہ جاری کردیا گیا گلگت سکردو کی توسیعی منصوبے کا ٹینڈر منسوخ کرنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ گلگت سکردو روڈ جسے جگلوٹ سکردو روڈ سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ اسلام آباد سے جگلوٹ تک سڑک کی تعمیر مکمل ہے اس سے آگے روڈ کئی برسوں سے مختلف حکمرانوں پر نوحہ کناں ہیں جس کی توسیع و تعمیر کا منصوبے پر طلب کئے جانے والے ٹینڈر کی منسوخی کے باقاعدہ احکامات جاری کردئیے ہیں اور ساتھ ہی نئے ٹینڈر طلب کرنے کا کہا گیا ہے مگر تقریبا گیارہ برسوں سے زیر بحث اس روڈ کے دوربارہ ٹینڈر کے احکامات ملنے کے بعد بلتستان ریجن کے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر گیا ہے اور شاید ہی یہ روڈ بنے کیونکہ اس وقت وفاق اور صوبے دونوں میں ایک ہی جماعت کی حکمرانی ہے ایسے میں وزیر اعظم کی دست مبارک سے افتتاحی تختی لگائے جانے کے باوجود ٹینڈر منسوخ ہونا اس بات کی دلالت کرتی ہے کہ یہ روڈ مسلم لیگ ن کی حکومت میں نہیں بن سکتی کیونکہ ایک ڈیڑ ھ برس بعد وفاق میں ن لیگ کی حکومت کا بسترا گول ہوجانے کے بعد صوبے میں ایک بار پھر ترقیاتی کاموں کا جمود پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے جس طرح پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے سر سے وفاق کا سایہ چھن جانے کے بعد نہ صرف اس روڈ کی توسیع وتعمیر ی منصوبے پر عمل نہیں ہوسکا بلکہ اضلاع کے اعلانات پر بھی عمل در آمد نہیں ہونے دیا گیا اسی طرح ن لیگ کی وفاقی حکومت نے وزیر اعظم کے ہاتھوں اس روڈ کی تعمیری منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کے باوجود صوبائی حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے اس کی لاگت پر اعتراض لگاکر منسوخ کرنا اس بات کا بات کا واضح ثبوت ہے کہ وزیر اعظم نے انتخابات جیتنے کے لئے سنگ بنیاد رکھا تھا زرائع کا کہنا ہے کہ اس شاہراہ کی توسیع کے حوالے سے 2010سے کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد نیشنل ہائی وے اٹھارٹی نے چین کی ایک تعمیراتی کمپنی سے اس شاہراہ کی تعمیر کے حوالے سے معاہدہ کیا تھا جس کے بعد وفاقی وزارت مواصلات نے وزیر اعظم کے احکامات کی روشنی میں اس منصوبے کو حتمی شکل دیتے ہوئے پلاننگ ڈویژن نے فائل کمیٹی فار ڈیولپمنٹ پروگرام (سی ڈی ڈبلیو پی) کے اجلاس میں منظوری کے لئے ارسال کردی تھی جس کے بعد ایکنک ڈویژن سے منظوری کے لئے ارسال کیا جانا تھا مگر وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے اس منصوبے کو منسوخ کرنے کے واضح احکامات وزارت مواصلات کو مل گئے ہیں بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ خود وزیراعظم میاں محمد شریف اس شاہراہ کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے مگر دو وفاقی وزراء نے اس منصوبے کو ختم کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا ذرائع کا الزام ہے کہ وزراء اور بیوروکریسی نے وزیر اعظم کو اس سڑک کی تعمیر کے حوالے سے غلط بریف کیا اور غلط معلومات دیتے ہوئے اس روڈ کی تعمیری منصوبے کو منسوخ کرانے پر قائل کیا ذرائع کا کہنا ہے کہ اس روڈ کی تعمیر میں اصل رکاوٹ بلتستان مخالف بیوروکریسی ہے جن کی وجہ سے بلتستان کے عوام کا ایک جائز اور دیرنہ مطالبہ سیاست اور تنگ نظر بیوروکریسی کی نذر ہوکر رہ گیا روڈ کا ٹینڈر منسوخ ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکمراں جماعت پر لعن طعن کرنے لگے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکی دیدی ہے جس پر صوبائی حکومت نے گلگت سکردو روڈ کے مسئلے کو مشترکہ قومی مفادات کونسل میں اٹھانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن مشترکہ مفادات کونسل میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کریں گے اجلاس دو روز بعد اسلام آباد میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیرصدارت منعقد ہو گا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شریک ہونگے پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کو بھی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ بیوروکریسی نے اس روڈ کی تعمیر میں مداخلت کی جس کی وجہ سے اس اہم شاہراہ کی تعمیر کا معاملہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا ہے ذرائع کا کہنا ہے نیشنل ہائی وے اٹھارٹی نے گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کے حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کرلی تھی اور چین کی ایک بہت بڑی تعمیراتی کمپنی نے اس شاہراہ کی تعمیر کا ٹینڈر بھی حاصل کرلیا تھا ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اہم شاہراہ کی تعمیر کا 64فیصد فنڈ ہمسایہ ملک چین نے برداشت کرنی ہے اور چین نے بھی اس روڈ کی تعمیر میں دلچسپی لیتے ہوئے بہت جلد اس منصو بے پر کام شروع کرنے کی حامی بھرلی تھی تاہم بیوروکریسی پھر آڑے آئی جس کے باعث اس شاہراہ کی تعمیر کا کام ایک بار پھر التوا کا شکار ہوگیا ہے ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی بیوروکریسی نے مداخلت کرکے اس اہم منصوبے میں رکاوٹ ڈال کر اس منصوبے کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کے وزیر اعظم سے ملاقات میں اس معاملے کو زیر غور آنے کی وجہ سے یہ منصوبہ منسوخ ہونے سے بچ گیا تھا اور وزیر اعظم نے گلگت سکردو ردڈ کی فوری تعمیر کا حکم دیدیا تھا لیکن بیوروکریسی ایک بار اس منصوبے کو روکوانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے بعض زرائع کا کہنا ہے کہ چائنا کی جانب سے اس روڈ کو بنانے سے کمیشن مافیا کو نقصان ہورہا ہے جس کے باعث اس منصوبے میں مداخلت کرکے اسے رکوانا چاہتے ہے تاکہ یہ منصوبہ چین کے ہاتھ سے نکل کر پاکستانی ٹھیکیدار کے ہاتھ لگ جائیں اور خوب کمیشن حاصل کرسکیں سکردو روڈ کی تعمیر میں التوا کے باعث سیاحت کے شعبے کو شدید نقصان کا سامنا ہے سیاحت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اگر گلگت سکردو روڈ ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے تو شعبہ سیاحت کو چار چاند لگ سکتا ہے گلگت سکردو روڈ حکومت کی مجرمانہ غفلت ، لاپرواہی اور بے حسی کے باعث ناقابل استعمال ہو گیا ہے اور مسافروں کی جانیں خطرے سے دوچار ہو گئیں سکردو سے عالم برج تک مسافر روڈ کی خستہ حالی کے باعث اذیت ناک صورتحال سے دوچار رہتے ہیں پھر وہاں سے راولپنڈی تک کانوائے کے باعث ذہنی کوفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ سکردو سے عا لم برج تک کا سفر صرف ڈھائی گھنٹے کا ہے مگر روڈ کی خستہ حالی کے باعث یہ سفر مسافر ساڑھے 8گھنٹے میں طے کرتے ہیں کئی مرتبہ حکومت کی توجہ اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کروائی گئی ہر حکومت نے روڈ کی تعمیر کا وعدہ کیا اور عوام سے ووٹ لیے موجودہ حکومت نے تو کمال کر دیا الیکشن سے قبل وزیراعظم نواز شریف کو گلگت میں لا کر ان سے روڈ کا افتتاح بھی کروایا الیکشن کے بعد بھی جب وزیراعظم گلگت آئے تو انہوں نے اپنا اعلان دہراتے ہوئے یہاں تک کہا کہ حکومت گلگت سکردو روڈ پر 50 ارب روپے خرچ کرے گی ، وزیراعظم نے جلسہ گاہ میں موجود لوگوں سے یہ بھی سوال کیا کہ کیا آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ 50ارب روپے میں کتنے کروڑ روپے ہوتے ہیں؟ سب کچھ ہونے کے دوسرے دن اخبارات میں خبریں نمایاں طور پر چھپ گئیں کہ گلگت، سکردو روڈ کی فائل وزیراعظم سیکرٹریٹ سے اعتراض لگا کر واپس کر دی گئی ، فائل واپس ہونے کے بارے میں ابھی وزیراعظم نے کوئی وضاحت ہی نہیں کی کہ صوبائی وزراء نے کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کا دفاع کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ فائل پر معمولی اعتراض لگا ہے اس لئے فائل واپس ہو گئی ہے ، اعتراض جلد دور ہو جائے گا اور روڈ پر کام شروع ہو جائے گا لیکن فائل وزیر اعظم ہاوس پہنچا تو تمام خدشات درست ثابت ہوگئے کہ وہاں سے ٹینڈر کی منسوخی کا پروانہ جاری ہوگیا دوسری جانب اپوزیشن کے گیارہ ارکان نے گلگت سکردو روڈ کی عدم تعمیر پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے اور عوام کے ساتھ سڑکوں پر آنے کا اعلان کررکھا ہے جبکہ بلتستان سے تعلق پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی و سینئر سیاستدان عمران ندیم اور آذاد رکن اسمبلی کاچو امتیاز حیدر خان نے سخت احتجاج کے لئے کمر کس لی ہے گلگت سکردو روڈ بارے بلتستان میں تمام سٹیک ہولڈر بشمول خود حکمران جماعت کے لوگ بھی پریشان ہے تمام مکاتب فکر کے علما بھی حکومتی رویئے سے سخت نالاں ہے اور کسی ممکنہ حتجاجی تحریک کا حصہ بننے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے دوسری جانب اس اہم شاہراہ ی تعمیر میں بغض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی انٹیلی جنس ایجنسیاں کلیرنس جاری نہ کرنے کی وجوہات بھی ظاہر کررہے ہیں جبکہ کچھ زرائع آئینی مسئلے کے ساتھ جوڑا جارہا ہے بلتستان ریجن کے مقتدر حلقوں اور عوام کی اکثریت گلگت سکردو روڈ کی تعمیر میں تاخیر پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے براہ راست نوٹس لینے کا پرزور مطالبہ کررہے ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ سے بھی سوموٹو ایکشن لینے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں اب دیکھنا ہوگا کیا گلگت سکردو روڈ مسلم لیگ ن کے دور میں بن سکے گا یا ایک بار پھر پانچ سال کے لئے ملتوی کا شکار ہوں گے وقت کا منتظر رہے گا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button