کالمز

شاہراہ قراقرم پر ایک سفر

جاوید احمد ساجد
سلطان آبادیوی

کلرک نے ٹکٹ دیا اور کہاکہ دفتر جا کر آرام کروں، ابھی کافی وقت ہے۔ٹھیک ساڑھے تین بجے گاڑی روانہ ہوگی ۔ میں آہستہ آہستہ لنگڑاتا ہوا ثابت رحیم کوچینگچی CHINCHIمیں بٹھا کر سکستھ روڈپر واقع اپنے فلیٹ کے لئے رخصت کر دیا اور پیر ودھائی اڈے کے برآمدے سے ہوتا ہوا سلک روٹ ٹرانسپورٹ کمپنی کے دفتر پہنچ گیا ۔وہاں جا کر دیکھا تو میرا چچا زاد بھائی نذیر وہاں بیٹھاہوا ہے اس نے قدرے شرمندگی سے ملاقات کی ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر احوال پرسی کے بعد میں اپنے عادت کے مطابق زور آور ہونے کی ایک کو شش کرتے ہوئے گلہ گزاری کی بوچھاڑ کم اور ڈانٹ ڈپٹ زیادہ کی ۔اسکے ساتھ ہمسفر اکبر فوٹو گرافر حیرانگی سے میری طرف دیکھنے لگے میں نے اسے بھی بتایا اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ نذیر میرا چچا زادبھائی ہے میں دوسال سے راولپنڈی میں ہوں اور ایکسیڈنٹ کا شکارہوکر میری ایک ٹانگ کی ہڈی ٹوٹے ہوئے تقریبا دو ماہ ہورہے ہیں ان سب کو معلوم ہے مگر اس کے باوجود اس نے گوارہ نہیں کیا کہ مجھے فون کرتا یا میرے بارے میں کچھ معلومات حاصل کر کے میری بیمار پرسی یا عیادت ہی کرلیتا وغیرہ ۔ ا س کے ساتھی اکبر نے بھی میری ہامی بھری اور کہا کہ اس دنیا میں اور کیا رکھا ہے سوائے ایک دوسرے سے تھوڈی سی ہمدردی یا محبت بھی نہ ہو تو قیامت میں ہر ایک کا حساب کتاب اپنااپنا ہوگا۔گویا اس نے میرے دل کی بات کہی اور اور میں ٹھنڈا ہو گیا

بس کی روانگی:

دو بجکر تیس منٹ پر ہم بکنگ کلرک کے حکم کی تعمیل میں اڈے پہنچ گئے ۔ مگر وہاں تو کوئی بس تھی نہ سواری ۔ تین بجے سواری آنے لگے، اور کلرک سے بس کے بارے میں مسافرں کی تکرار شروع ہوئی۔ اللہ اللہ کر کے ساڑے تین  بجے بس آگئی اور سامان اوپر لادنے کے بعد تقریباً۳بجکر ۵۰ منٹ پر ہمارا سفر شروع ہوا۔ اڈے سے نکل کر بس خراٹے بھرتی ہوئی اڈے کے شور شرابے سے دور ہوئی پھر پشاور روڈ کی طرف موڈ کاٹ کر قدرے رفتار بڑھایا اور بس دائیں جانب موڈ کاٹ کر پشاور روڈ کی گہماگہمی میں گم ہوگئی ۔ ڈرائیور صحت مند اور جوان تھا ۔ ڈرائیو نگ بھی اچھی تھی ۔ پھر گندہارا تہذیبکی قدیم شہر ٹیکسلا پہنچ گئے اور ٹیکسلا کو پیچھے چھوڈتے ہوئے حسن ابدال ،ہری پور ، ہزارہ کی جانب دائیں مڑگئے ۔چند میل کے بعد بس ایک بیکری کے سامنے روک کر دونوں کنڈکٹراورٹکٹ کٹر اتر گئے اور چند منٹ بعد ڈسپوز اپیل کاغذ کے گلاس اور پیپسی کے ایک ایک لیٹر کے چند بوتلوں کے ساتھ سوپر بسکٹ کے تین تین روپوں والی بسکٹ کے ڈبے لے کر حاضر ہوئے اور بس روانہ ہوئی ۔ایک نے ایک ایک گلاس اور دوسرے نے بسکٹ کے ا یک ایک پیکٹ تمام مسافروں کے ہاتھ میں دیئے مسافر تھوڈی دیر کے لئے فریش ہوئے۔

حسن ابدال کے بعد بس اب ہری پور ،ہزارہ کے حدود میں داخل ہوئی۔دائیں بائیں موڈ کاٹتے ہوئے آخرکار ہری پور شہر آگیا تو سابق صدر پاکستان اور پاکستان کی تاریخ کا پہلا اور آخری فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی یاد تازہ ہوگئی ۔ جنہوں نے اس علاقے میں ٹی۔آئی۔پی ۔یعنی ٹیلیفون انڈسٹری آف پاکستان اور پھر حویلیاں میں پاکستان آرڈننس فیکٹریاں اور ڈپو قائم کرکے ان لوگوں پر احسان کیا ۔ یہ لوگ روزگار کے لئے دوسرے شہروں میں جانے کے بجائے یہاں ہی روزگار تلاش کرنے لگے۔

حویلیاں کے بعد مشہور شہر ایبٹ آباد آیا اور ایوب میڈیکل کالج سے ہم قلندر آباد کو پیچھے چھوڑ کر ما نسہرہ کے علاقے میں داخل ہوئے پھر شہر سے نکل کر ایک ویران سے ہوٹل میں بس رُکی ۔ وہاں لوگوں نے واش روم جانے کی جلدی کی اور اپنی ضروریات کے مطابق فراغت حاصل کرکے پلاسٹک کی کرسیوں اور ٹیبل کے گرد بیٹھ گئے ۔ویٹرز نے زبر دستی ایک ایک کپ چائے پیش کی ۔ جس میں گرم پانی کے علاوہ کئی کئی چمچ چینی کی موجودگی نے ایسا احساس دلایا کہ یہ گرم گرم چائے نہیں بلکہ شربت ہے۔ ہم نے ایک گھونٹ پی کر پیالی نیچے رکھ دی۔ تاہم انور صاحب نے حقیقت میں اپنے پرس کا ایک حصہ خالی کرکے بوجھ کم کیا تو بس میں آکر بیٹھ گئے۔ ڈرائیور پہلے وا لے سے بھی زیادہ تنومند تھا۔ اب یہ عملہ دو ڈرائیور ،ایک ٹکٹ دینے والے اور ایک کلینر سمیت چار پرمشتمل تھا ۔ ایک بچہ اور ایک بچی بس میں اپنے ننھی منی باتوں باتوں سے مسکراہٹیں بکھیر رہے تھے۔ وہ کبھی ڈرائیور کے ساتھ انجن پر بنی ہوئی برتھ پر بیٹھتے ،کبھی آگے پیچھے دوڈتے او راپنی توتلی باتوں سے ہمیں بور نہیں ہونے دیتے ۔ مانسہرہ شہرسے نکل کر شنکیاری کی چائے کے باغات کو اند ھیرے میں پیچھے چھوڑا پھر پتہ نہیں کیاکیاگزر گیا پھر بٹگرام آگیا۔ بٹ گرام سے آگے نکل کر شاید میری آنکھ لگ گئی تھی ۔ہوش آیا تو ہم لوگ تھاکوٹ سے گزر رہے تھے پھر بشام آگیا اور اور بشام سے پہلے ہی بارش لگی ہوئی تھی بشام پہنچ کر بس کے رکنے کے ساتھ کنڈکٹر نے وقفے کا علان کیا اور وقت مقررہ پر واپسی پر زور دیتے ہو دھمکی دیا کہ لیٹ ہونے والے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔بس سے اُتر گئے تو ٹھندک محسوس ہو رہی تھی۔

بشام کا پاکستان ہو ٹل:

بس سے اُتر کر ہم ایک بار پھر واش روم کی تلاش میں  ایک کمرے میں گھس گئے کمرے کا باتھ روم بلب سے روشن تھا دروازے پر ہاتھ رکھا تو فوراً سے کھل گیا۔ دیکھا کہ اندر ایک عجیب سا انسان لوٹا ہاتھ میں تھامے دانت نکال رہا تھا اور فراغت حاصل کر رہا تھا اور ساتھ ہی اس کے فراغت کے چند قطرے شاید ہم پر بھی بارش کی قطروں کی مانندٹپک پڑے اور ہم نے جلدی سے دروازہ کھلا ہی چھوڑکر بھاگ نکلنے میں عافیت سمجھا اورایک دوسرے کمرے میں گھس گئے اب کے پہلے ہی سے کسی کی کھی کھی کی آواز نے ہمیں ہو شیار کیا تو ہم نے مشکل سے ہی تیسرے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھنا گوارہ کیا شکر ہے کہ اس میں کوئی نہیں تھا اندر جاکر راز افشاں ہوا کہ ان واش رومز کے دروازے بند رکھنے کا کوئی بندوبست ہی نہیں تھا ، ہم بھی دروازے کے ایک کونے کوحفظ ماتقدم کے طور پر پکڑ کر اپنی ضرورت پوری کرنے لگے اور ساتھ ساتھ  مصنوعی کھانسی کی آوازیں نکلانے لگیں، تاکہ کوئی زورآور ایک ہی جھٹکے سے دروازہ ہم پر نہ مارے۔ ہم اپنے فریکچر زدہ ٹانگ کے ساتھ اس بات کا متحمل ہو سکتے تھے اور مشکل سے باہر نکلا اوریہ علان کرتے ہو ے کہ ان واشرومز میں دروازے بند کرنے کا کوئی بندوبست نہیں اور نہ ہی ان کی چٹخنی ہے اور ایک واش بیسن کے قریب اس ارادے سے گیا کہ شاید ہاتھ دھو سکوں مگر پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ شاید میرے ہاتھ پور ے طرح سے گیلے بھی ہوے ہونگے یا نہیں میں ہوٹل کے ہال میں داخل ہوا ۔ اُف اللہ کتنا شور تھا ،گاہک یعنی مہمان کم تھے اور چیخنے چلانے والے ویٹر زیادہ ۔ ہر چارپائی اور گندے سے ٹیبل کے آرپار دودو ویٹر نہایت ہی خوفناک انداز میں مسافروں پر برس رہے تھے کہ وہ کیا کھانا چاہتے ہیں اور جو ٹیبل خالی تھے ان پر بے چارے سردی کے مارے مکھیوں کا یلغار تھا ۔میں نے بھی آنکھ بچاکر ایک چارپائی پر برجمان ہونے کی کوشش کی اور میں نے بیٹھنے سے پہلے ہی ڈر کے مارے ایک خوفناک ویٹر کو ایک پلیٹ چاول کا آرڈر دیا بلکہ گزارش کیا کہ کہیں دیر ہونے پر وہ برہم نہ ہو جائے۔اُس صاحب نے ایک خوفناک مگر مترنم آوازسے زور دار طریقے سے ایک پلیٹ چاول کی آواز لگائی تو دروازے پہ کھڑے ایک دوسرے نے ان الفاظ کو تقریباً اسی طرح چیختے ہوے ادا کیا۔ اسی دوران میرے سر پر مسلط ویٹرمیرے سامنے بیٹھے ہوے مشروف پر برس پڑا ہنگامہ اتنا زور دار تھا کہ ہمارے بس ڈرایؤر کو ہم پر ترس آگیا اور اُس نے مداخلت کرتے ہوے اُس چیخنے والے ویٹر کو ہٹادیا ۔میرے چچا ذاد نذیراور اکبر بھی آگئے اور انھوں نے بھی لگے ہاتھوں چاول کا آڈر دیا اور پھر میرے ادھا پلیٹ کھانے سے پہلے ہی انھوں نے گریبی کا آڈر بھی دیا۔ اُن کو دیکھ کر مجھے بھی لالچ آگیا اور جلدی جلدی چاول کھا کر پلیٹ ویٹر کے سامنے رکھااس نے وہاں سے ہی چاول کی گریبی کا ایک زور دار اعلان کر دیا اور دوسرے منٹ میں سامنے لا کر رکھ دیا ۔

ہوٹل کے شور سے نکل کر بشام کی سڑک پر چند آوارہ کتوں کی حرکات و سکنات کو دیکھتے اور انکی چیخ و پکار کو سنتے چہل قدمی کرتے ہوے ایک کریانے کی دکان میں گیا وہاں سے ایک ٹافی کا تھیلہ خریدا اورجلدی جلدی جیب میں ٹھونسا کہ کہیں کوئی سواری اُچک کر نہ لے جائے۔ ۵ روپے کی مٹھائی الگ سے خریدا اور ایک ایک نذیر اور اکبر کو بھی دیا اور بس میں سوار ہوا جب ایک ایک کرکے تقریباََ تمام سواری بیٹھ گئے تو کلینر نے اپنے اپنے ساتھیوں کو دیکھنے اور آل اوکے کا رپورٹ حاصل کر کے ڈرائیور کو چلو چلو کا ڈبل حکم دیا لیکن چند میل کے بعد ہی ایک پولیس چوکی جہاں پر ’’ کوہستان پولیس ‘‘ کا ایک بورڈ آویزان تھا ہمیں دوبارہ رکنا پڑا اور تقریباََ ۳۰ منٹ بعد کانوائے کی شکل میں ایک لمبا قافلہ پولیس کی سرکردگی میں روانہ ہوا۔ قافلے میں مشہ بروم، سلک روٹ، نیٹکو ، یونائیٹڈاشیا، اور سارگن ویگن کے بسوں اور ویگنوں کے علاوہ ڈاٹسن اور مرغیوں کی متعدد گاڑیاں شامل تھیں ۔ بارش ہو رہی تھی ، قافلہ راستے میں معلوم نہیں کتنی بار رکی یا روکی گئی اورسنتری بادشاہ تبدیل ہوتے گئے، کئی پولیس والے اور کئی کئی ایف سی والے تبدیل ہوے اور آدھی رات کے بعد بلکہ رات کے تیسرے پہر ہم داسو پہنچ گئے۔سب مسافر اس انتظار میں تھے کہ کہیں وقفہ ملے مگر پولیس کی گاڑی سے ایک انسپکٹر جھانک کر حکم دیا کہ کوئی گاڑی نہیں رکے گی چلو جلدی جلدی رکنے کی اجاذت نہیں مجبوراََ بس ڈرایؤروں نے گاڑیاں آگے بڑھایا ابھی بیس میل بھی نہیں چلے ہونگے کہ پو لیس کی موبائل ٹیم کی گاڑی واپس آگئی اور کانوائے کو رو ک کر حکم دیا کہ آگے سڑک خراب ہے سلائیڈنگ ہو رہی ہے اور اُوپر سے پتھر ارہے ہیں یہی پہ رکنا پڑیگااور خود اپنے نزدیک ترین پولیس چوکی کی طرف سوئے داسو چل پڑا ، ہمارے ڈرایؤر نے بھی اُس کی تقلید کی اور بس کو موڈ کر اس پولیس چوکی کے سامنے روکا۔ سب مسافروں کی خواہش تھی کہ کچھ آرام کیجائے ،مگر تھو ڑی دیر بعد جب سردی نے سب کو جھکڑ لیا تو پھر بس کا دروازہ باربار کھلنا اور بند ہونا شروع ہوا ۔ یہ تو اُ س لکڑی کے ٹھیکیدار کا اللہ بھلا کرے کہ ہمارے بس کے ساتھ ہی بڑے بڑے لکڑی کے سٹال تھے جن کی آ ڑ میں مسافر اپنے آ پ کو خالی کرتے پھر رہے تھے مگر سردی تھی کہ بڑھتی جارہی تھی جس کی وجہ سے باربار ضرورت محسوس ہوتی اور ایک ایک مسافر اترتا اور چڑھتا رہا اور مجھے بھی کئی بار لکڑی کے سٹال کی آڑ لینی پڑی اور خدا خدا کرکے صبح کی آذان کے ساتھ ہی پولیس انسپکٹر نے ہمارے بس ڈرائیور کو آگے بڑھنے کا حکم دیا اور خود آگے کی طرف بڑھ گیا جب ہم بلاک کی جگہ پہنچ گئے تو معلوم ہوا کہ چند ایک پتھر کے علاوہ کچھ نہیں تھا سارے کا سارہ قافلہ گزر چکا تھا ، پھر سومر نالہ آگیااور بس ڈرائیور نے بریک لگاتے ہی ناشتہ کا مژدہ سنایا مگر اس جگہ کسی واش روم کا تصور ہی شاید نہ تھا۔

میں آہستہ آہستہ لنگڑاتا ہوا نالے کے ساتھ ساتھ چڑھائی چڑھتے ہوے کافی دور نکل گیا اور انسانی مجبوریوں سے فراغت حاصل کرنے کی غرض سے سستایا اور کچھ دیر پتھروں سے کھیلنے کے بعد واپسی کی راہ لی اور مشکل سے بس کے نزدیک پہنچ کر ہاتھ منہ دھونے کی ناکام کوشش کیا نالے کا پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ ہاتھ پورے طریقے سے گیلا بھی نہ کر سکا اور ایک قطرہ منہ پہ مارا اور کانپتے ہوے چھپر ہوٹل میں گھسنے کی کوشش کی اور ایک لمبے قطار میں کھڑا ہوا اتنے میں نذیر بھائی بھی آ گیا اور وہ بھی لائین میں لگ گیا یہاں کوئی ویٹر سسٹم نا کام تھااور ہر مسافر اپنے لئے چائے اور پراٹھا حاصل کرنے کی غرض سے زور لگا رہا تھا اور ایک دینگا مشتی کا عالم تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہر مسافر دوسرے کو نالے میں گرانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے میں نے بھی نذیر کی آ ڑ میں ایک پلاسٹک کی چنگیر ہاتھ میں پکڑ لی۔ اس کی صفائی کا یہ حال تھا کہ شاید ایک چاکی صابن سے صاف ہوسکتا تھا مگر ہم نے پیالے کو ٹھنڈے پانی میں ایک دو مرتبہ ڈبو دیا اور تسلی کرلیا۔ مگر پلاسٹک کے برتن کو تو شاید پچھلی صدی میں بھی نہیں دھویا گیا تھا تو اُ س کو پانی کے نزدیک لے جاتے تو شاید ہوٹل کا مالک برا مناتاچونکہ گرم گرم پراٹھہ تیل سے لبریز اس میں ڈال کر پھر ٹھندے پانی سے گذار نے کے بعد معلوم نہیں یہ عمل گذشتہ صدی سے شاید جاری تھا تو پھر اس برتن کی صفائی کا آپ خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا حال ہو گا۔

بہر حال ۔۔۔۔ ہم تندور والے کے نزدیک پہنچ کرآرڈر دینے ہی والے تھے کہ اللہ بھلا کرے ڈرائیور کا جس نے زور دار ہارن د ے کرہماری توجہ اپنی طرف مبذول کراکے آ واز دیا کہ صاحب آ گے ہم نے ایک گھنٹہ رکنا ہے وہاں پر بھی ناشتہ کرسکتے ہیں ہم نے فوراََ حکم کی تعمیل کیا اور اُن گندے برتنوں کو تندور پر دے مارا بس میں جا سوار ہوے اور خدا کا شکر ادا کیا مگر بس میں جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہاں تو صرف ہم تین ہیں ۔پھر ایک ڈرائیور ،دو کنڈیکٹر کالج کے سٹوڈنٹ کے ساتھ باقی مسافروں کی تلاش کاکام شروع کیا گیا اور کلینر پھرچھپرکے ہو ٹل میں گئے ایک ایک کمرے میں گھس کر ایک ایک مسافر کو بازو سے پکڑ کر نکال نکال کر بس کی طرف لا رہے تھے۔ ایک عجیب نظارہ تھا کسی نے پراٹھہ ہاتھ میں اٹھایا تھا، کسی نے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالا تھا ، کوئی چلتے چلتے چائے کے گھونٹ لے رہا تھا ۔ولاحول کرتے ہوئے سب مسا فر بیٹھ گئے ۔ کئی عورتیں شکایت کر رہی تھیں کہ انھیں ناشتہ نہیں کر نے دیا گیا ۔ بہرحال ہم بھی روانہ ہوئے چونکہ قافلہ جا چکا تھا ۔ تھوڑی سی تیز رفتاری کے بعد ڈرایؤر نے قافلے کوجا لیا بلکہ تین چار گاڑیو ں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گیا گھنٹہ بھر کی مسافت کے بعد ہم ایک جگہ رک گئے اور دیکھتے ہی ایک پولیس سپاہی نے آکر حکم دیا کہ کوئی بندہ نیچے نہ آئے چندمنٹ انتطار کے بعد ایک ایف سی کا سپاہی اور ایک پولیس والے آگئے اور نیچے اترنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ایک ایک مسافر کی جامہ تلاشی لینا شروع کیا ۔ہمیں برا نہیں لگا چونکہ ہم سارے گلگتی تھے اور یہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ تھا اگر ہم گلگت میں اپنے عالموں تک کو محفوظ نہ رکھ سکے تو پھر ہمارے ساتھ دوسرے جو سلوک کرے وہ جائز تھا ۔ اسطرح ایف سی والے ہمار جسم کے مختلف حصوں پرزوں پر ہاتھ مارتے ہوے نیچے اتارا اور ہم ایک آزاد فضا میں ایک بار پھر پیٹ کی جہنم کو بجھانے کیلئے ایک ایک کھوکے میں جھانکنا شروع کیا مگر صرف ایکہی پکی ہوئی مچھلی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک اور کھو کے سے گرم گرم چائے کی خوشبو آرہی تھی جو کہ ہمارے بھوک کو تیز کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہی تھی مگر وہاں بھی صرف ایک ایک کپ چائے ہی مل سکی۔ ان چلاسیوں نے یہ بھی گوارہ نہیں کیا تھا کہ کوئی کھانے پینے کی اشیاء بھی رکھ لیں مشکل سے چائے مل گئی تو ہم نے یہ بھی غنیمت جانا ۔نذیر نے کہیں سے ایک بسکٹ کا ڈبہ لایا تو ہم تین بند وں نے بسکٹ اور ایک تلی ہوئی مچھلی سے ناشتہ کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ کھو کے سے با ہر نکلے تو پتہ چلا کہ اس سے قبل تو صرف جگہ جگہ ہمیں روک کر تمام گاڑیوں کے جمع ہونے کا انتظار تھا مگر یہاں تو تمام مسافر بسوں کے چھتوں پر چڑھ کر اپنا اپنا سامان بھی ایف سی والوں کو چیک کرانے کے بھی پابند تھے میری ٹوٹی ہوئی ٹانگ اجازت نہیں دے رہی تھی کہ چھت پہ چڑجاوں لہٰذامیں نے اپنے بکسے کی چابی نذیر کو دے کر بس پر چڑھایا ۔ دو گھنٹے کی تھکا دینے والی انتظار کے بعد تقریباََ ۳۳ گاڑیوں میں لدے مسافروں اور ان کے سامان کی جامع تلاشی لینے کے بعد ہمیں دو بارہ سفر جاری رکھنے کا حکم دیا گیا اور ہم اس امید سے کہ شائد چلاس میں ہمیں ناشتہ کرنے کی اجاذت مل سکے گی بس میں سوار ہوے مگر کاش ایسا ہوتا بلکہ چلاس سے پہلے ہی ہمارے رکھوالے یعنی گارڈ تبدیل ہوے اور پھر ہمیں باندھ کر گونر فارم پہنچایا گیا یہاں بھی ایف سی کی ایک گاڑی نے ہماری قیادت شروع کی اور دیکھتے ہی تتا پانی آگیا جہاں ہمارا قافلہ رک گیا اور معلوم ہوا کہ آگے سڑک پر چار جگہوں پر بلڈوزر کام کررہے تھے اور سیلاب کا ملبہ ہٹایا جارہا تھا ۔ نیچے اتر کر ایف ڈبلیو او کی ایک کنٹین پر جاکر پوچھاکہ شائد کچھ کھانے کو مل جائے مگر تین گھنٹے انتظار کے بعد ایک کپ چائے بھی نہ مل سکا اور نہ ہی کھانے کی کوئی چیز ۔

آخر کار تین بجے سڑک کو گاڑیوں کیلئے کھول دیا گیا مگر بہت جلد ہی قافلہ رک گیا ہم بھی اتر کر لنگڑاتے ہو ے آگے گئے تو معلوم ہوا کہ سامان سے بھرا ایک ٹرک ٹائی راڈکے ٹوٹ جانے کی وجہ سے سڑک کے بیچ میں پھنس گیا تھا ہمارے بس میں زیادہ تر ہنزہ والے تھے۔ بوڑھے جوان سب کے سب اتر گئے پھرٹرک اور چٹان کے درمیان میں مٹی کو ہٹانے میں لگ گئے جو چیز ہاتھ آیا اس سے زمین کھود کر مٹی کو پھینکنا شروع کیا کسی نے پتھر سے کسی نے لوہے کے ٹکڑے سے زمین کو کاٹ کر مٹی ہٹایا اور اتنی جگہ بنالی کہ ہمارا بس اس میں سے آسانی سے گزر سکے اللہ اللہ کر کے گاڑیاں پاس ہوئیں مگر اس کام کے دوران ایک پٹھان صاحب منہ میں نسوار کی ایک پوری پوڑی رکھ کر ان لوگوں پر نکتہ چینی کر رہا تھا کہ یہ بیوقوف ہیں اس طرح سڑک تھوڑی بنتا ہے۔ میری اور اس نسواری پٹھان کے درمیان کافی منہ ماری ہوئی اور جب ہماری بس گذر گئی تو میں نے بھی اس کو دکھایا کہ آنکھیں کھول کر دیکھنا کہ ہماری بس نکل رہی ہے اور ان بیوقوفوں نے تم جیسے عقلمندوں کیلئے سڑک کھو ل دیاہے تاکہ منزل کے قریب ہو جاو ۔

بہر حال قافلہ آگے بڑھا اور ہم اس امید میں کہ شائدجگلوٹ میں ہمیں ناشتہ کرنے کا موقع ملے مگر یہاں بھی صرف ایک بو ڑھی کو اتار کر بس آگے بڑھی۔ البتہ یہ ہو ا کہ یہاں سے ہمارے رکھوالے ہم سے جدا ہو گئے اور ایک گھنٹے کا سفر ہم آزادی سے طے کرتے ہوے جب چائنہ پل کے نزدیک پہنچ گئے مگر یہاں بھی ایک بار پھر ہمارے تلاشی لینے کے بعد گلگت کی حدود میں داخل ہو نے کی اجازت مل گئی۔ اسطرح ہم ۲۷ گھنٹے کی تھکا دینے والی سفر کے بعد شام چھ بجے گلگت کے جوٹیال بس اڈے پہنچ گئے اور یوں میں ممتاز یعنی اپنے بیوی کی ایک بھانجے کی مدد سے خومر میں اپنے بال بچوں کے پاس پہنچ گیا جہاں کرایے کا مکان میری غیر موجودگی میں بچوں نے حاصل کر لیاتھا۔

اس طرح ناشتہ ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا ستا ئیس گھنٹے بعد گھر پہنچ کر سکون کے ساتھ کھانے کو نصیب ہوا ، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس طرح یہ سفر میرا تو مکمل ہوا مگر دنیا کی اس عجیب و غریب سڑک کا سفر جاری و ساری ہے او ر سڑ ک کی خستہ حالت دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر ترس اتا ہے کہ پاک چین دوستی کی یہ نشانی کس بے دری سے زبون حالی کا شکار ہے اللہ کریے کی چائنا والے اس کی حالت پر رحم کر کے جلد بحا لی کا کام شروع کریں اور ایک بار پھر ہمیں ایک بہترین سڑک ان دوستوں کی طفیل شاید نصیب ہو ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button