کالمز
پانی کا چشمہ نہ رہا تو۔۔۔
شیرزمان خان
گاہکوچ شہر کے مضافاتی علاقے گٹومس میں صاف شفاف پانی کا ایک قدرتی چشمہ ہے۔جون جولائی کی کڑکتی دھوپ میں اس چشمے کا پانی ٹھنڈا ٹھار اور زندگی سے بھرپور ہوتا ہے، جبکہ دسمبر کی ہڈیوں میں گودا جمادینے والی سردی میں اسی چشمے کے پانی سے گرم بھاپ اٹھتی ہے۔ بھلے ہی اس کی ہزار سائنسی توجیحات ہوں مگر یہ چشمہ سراسر معجزہ ہے۔گاہکوچ کی مسلسل پھیلتی آبادی کی اکثریت پینے کے لیے اس چشمے کے پانی پر انحصار کرتی ہے۔
کئی دنوں سے میرا یہ معمول بن گیا ہے کہ شب کی خاموشی میں اس چشمے کو سوچتا ہوں۔ ایک خوفنا ک اندیشہ مجھے جگائے رکھتا ہے۔
کسی روز یکلخت یہ چشمہ بالکل خشک ہوجائے تو؟
صبح سویرے اگتے سورج کی روپہلی کرنیں اس کے شفاف پانی کو سبز پگڈنڈیوں کے ساتھ بہتا ہوا نہ پائیں تو؟
اور گلگت بلتستان کے طول و عرض میں ہزار وں ایسے چشمے یکایک ساکن ہوجائیں تو؟
اس اندیشے نے مجھے سراسیمہ کررکھا ہے۔
بدقسمتی سے یہ اندیشہ میرے رت جگے کی صنعت نہیں ہے۔ مادی ترقی کے جنون میں انسان نے موسمیاتی تغیر کا وہ سامان کیا ہے جس کے خوفنا ک اثرات نہایت تیزی سے اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔اب سے دو دہائیاں قبل اس علاقے میں اس قدر برف پڑتی تھی کہ مرد حضرات بیلچے پکڑ کر گھروں کی چھتوں سےبرف ہٹاتے ۔ پوری سردیاں علاقے بھر میں برف کی سفید چادر تنی رہتی۔ برف کے ڈھیر بہار کی آمد کے ساتھ ہی پگھلتے۔ اب موسمیاتی تغیر سے برف باری معمول سے نہایت کم ہوگئی ہے۔ گھروں کی چھتوں پر گرنے والی برف کا کیا مذکور ، اب بلند و بالا گلیشئر بھی نہایت تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ گوگل ارتھ نامی سافٹ ویئر نے ہماری تشویش میں اضافہ کردیا ہے کہ گزشتہ دہائی میں گلگت بلتستان کے گلیشیئر زکے حجم میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے۔
جب پہاڑوں پر برف ہی نہ رہے گی تو چشمے میٹھا پانی کہاں سے اُگلیں گے؟
اس بابت شعور کی کمی کہیے یا مادی ترقی کی بے پناہ خواہش کہ ہم اس عظیم بحران کی ہولناکی سے ہنوز بے خبر ہیں ۔ ہم وہی شاخ کاٹ رہے ہیں جس پر ہم کھڑے ہیں۔کرائے کے مکانات اور بازار کھڑے کرنے کے لیے دھڑا دھڑ جنگلات اور ہرے بھرے کھیتوں کا صفایا کیا جارہا ہے۔ ٹریفک کے اژدہام سے فضائی آلودگی کا زہر پھیل رہا ہے مگر بدنصیبی دیکھیے ، شنید ہے کہ گلگت شہر کے بیشتر گھروں میں دو ، دو تین ، تین گاڑیا ں کھڑی ہیں۔ پھر ہمیں چیختے ہیں کہ سال بہ سال گرمی میں اضافہ ہورہا ہے۔
ہمارا ماحول اس قدر آلودگی اور ماحول دشمنی کی تاب نہیں لا سکتا۔ اب تو پاک چین معاشی راہداری بھی تیزی سے تکمیل کے مراحل میں ہے، جہاں سے سوائے آلودگی کے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آنا۔ یہ گلیشیئر نہیں رہیں گے ، یہ چشمے نہیں رہیں گے ۔۔ یہ قدرتی مناظر جو گلگت بلتستان کا خاصہ ہیں ۔۔ نہیں رہیں گے۔
ہم موسمیاتی تغیر کے اثرات کو روک نہیں سکتے تو محض تھوڑی سے کوشش سے انھیں کم سے کم کرسکتے ہیں۔ اس کا سب سے مجرب نسخہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ اپنی بنجر زمینوں کو آباد کریں۔ درخت کاٹنے سے اجتناب کریں ۔ آلودگی میں کمی لائیں۔
اس سب کے لیے یہ عہد لازمی ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک خوبصورت، سرسبز و شاداب گلگت بلتستان چھوڑ کرجانا ہے ، جیسا ہمیں ہمارے بزرگوں سے ملا تھا۔۔۔ تاکہ وہ اس کے حسین نظاروں میں کھل کر سانس لے سکیں۔