کالمز

گریٹ گیم اور وادی درکوت میں جارج ہاؤڑ کا قتل

تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ

گریٹ گیم ایک سیاسی اور سفارتی محاذ آرائی تھی جو برطانوی راج اور روسی سلطنت کے درمیان افغانستان اور سینٹرل ایشیاء و ہمسایہ علاقوں سمیت ساوتھ ایشیاء میں بالادستی کے لئے انیسویں صدی کے بیشتر وقت جاری رہی-

گریٹ گیم 1870 میں شروع ہوئی اور اس کے آغاز سے ہی برٹش راج کو روسی سلطنت سے خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے اس خطے پر مفصل تحقیق کے لئے مختلف افراد کو مشن پر روانہ کیا-

 گریٹ گیم کے دوران گلگت میں تعینات برٹش ایجنٹ جان بڈلف Tribes of the Hindoo Koosh  نامی اپنی مشہور کتاب میں لکھتے ہیں کہ "یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلوں کے مشرقی اطراف کے دونوں حصوں میں واقع بہت سارے ممالک کا دورہ کیا. چونکہ اس سے قبل ان ممالک کے بارے میں معلومات دستیاب نہ ہونے کے برابر تھی, جبکہ ان میں سے  بعض ممالک کا اس سے قبل کسی بھی یورپی باشندے نے دورہ نہیں کیا تھا-

البتہ اس سے قبل سال 1870میں” درکوت پاس ” پار کر کے پامیر ریجن میں داخل  ہونے کے مشن پر یاسین آنے والے ایک انگریز شخص مسٹر  Mr. Hayward  کا سفاکانہ قتل کیاگیا تھا. چنانچہ اس تاریخی قتل کی وجہ سے وادی درکوت قابل ذکر ہے”

بقول جان بڈلف جب آپ وادئ ” درکوت پاس ” تک پہنچتے ہیں تو سنٹرل ایشیاء کے مشہور دریا "Oxus River”  کا مشرقی کنارہ صرف دو دن کے سفر کی دوری پر واقع ہے- جبکہ ہندو کش کے دامن میں آباد ورشگوم کے لوگ اور کوہ قراقرم کے دامن میں آباد ہنزہ نگر کے لوگ بروشو قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں. ورشگوم کے لوگ وہی زبان بولتے ہیں جو ہنزہ نگر میں بولی جاتی ہے. البتہ لہجے میں تھوڑا سا فرق ہے-"

جارج  ہاوڈ  کے قتل کے وقت یاسین کا حکمران راجہ میر ولی  تھا جو گلگت بلتستان کے نامور حکمران گوہر آمان کا بیٹا تھا –

مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر نے مسٹر ہاوڈ کے قتل کا الزام راجہ میر ولی پر عائد کیا  اور انگریز سرکار  نے راجہ میر ولی کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا-

نتیجتاً اس کا بھائی غلام محی الدین یاسین کا حکمران بنا جو عام طور پر پہلوان بہادر کے نام سے مشہور ہے-

بقول Peter Hopkirn  جارج ہاؤڑ کے قتل کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا, مگر اس قتل کے متعلق دو طرح کی رائیں پائی جاتی ہیں-

 کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ورشگوم کے لوگوں نے راجا میر ولی کے کہنے پر جارج ہاؤڑ کا قتل کردیا , کیونکہ راجا گوہر آمان اس خطے میں بیرونی تسلط کے سخت خلاف تھا اور اس نے مہاراجہ کی افواج  کو  سخت شکست دیکر اس خطے سے نکال باہر کیا تھا-

 لہذا راجہ میر ولی نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر جارج ہاؤڑ کا قتل کرایا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ گوہر آمان کی وفات کے بعد ڈوگرہ افواج نے گلگت پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور اس کو خطرہ لاحق ہوا تھا کہ مہا راجا انگریزوں کے ساتھ ملکر اس کے علاقے یاسین کو فتح کرنے کے درپے ہے-

جب کہ دوسرے مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ جارج ہاؤڑ کے قتل میں مہا راجہ کشمیر کا ہاتھ تھا تاکہ وہ راجہ میر ولی سے اس کے باپ راجہ گوہر آمان کے ظلم و ستم کا بدلہ لے سکے کیونکہ  دردستان میں بھوپ سنگھ پڑی کے مقام پر راجہ گوہر امان نے سکھوں کا قتل عام کیا تھا-

لہذا مہاراجہ نے ہاؤڑ کے قتل کا الزام راجہ میر ولی پر لگایا اور اس کو برٹش انڈیا کے غیض و غضب کا نشانہ بنا کر تخت و تاج سے محروم کردیا-

مگر اس قتل میں مہاراجہ کشمیر کےملوث ہونے کے بارے میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں-

 راجہ گوہر آمان کے پڑ پوتا راجہ ضیاالرحمن ایڈووکیٹ نے جارج ہاؤڑ کے قتل کے حوالے سے راجہ میر ولی پر لگائے گئے الزامات کی بابت بات کرتے ہوئے کہا  کہ” حقیقت یہ ہے کہ جارج ہاؤڑ کے قتل میں مہاراجہ کشمیر کا بنیادی کردار تھا جس کی ایما پر مہتر چترال نے اپنے بھانجے راجہ ورشگوم و مستوج میر ولی کے ذریعے جارج ہاؤڑ کا قتل کروایا-

 مہتر چترال نے راجہ میر ولی کو پیغام پہنچایا کہ یہ انگریز جارج ہاؤڑ تمہاری سلطنت  کے لئے خطرہ ہے. یہ آپ کی سلطنت پر مہاراجہ اور انگریز سرکار کے ساتھ مل کر قبضہ کرنا چاہتا ہے لہذا اس سے ہر قیمت پر درکوت پاس پار کرنے نہیں دینا ہے-

جبکہ اس قتل میں مہاراجہ کشمیر کا کردار اس لئے نظر انداز  نہیں کیا جا سکتا ہے چونکہ جارج ہاؤڑ سانحہ مڈوری کے قتل عام کے بابت تحقیقات کر کے حقائق سامنے لا رہا تھا جس سے اس خطے  پر مہاراجہ جموں و کشمیر کے جنگی جرائم کا پول کھلنے کا اندیشہ تھا-"

THE GREAT GAME "

On Secret Service in High Asia

 نامی اہم کتاب  میں  Peter Hopkirn  جارج ہاؤڑ کے بارے میں  لکھتے ہیں کہ کہ "وہ ایک جوان سابق برطانوی فوجی افسر تھا- اس سے اس مشن پر رائل جیوگرافیک سوسائٹی لندن نے فاننس کیا تھا اور اس مہم جوئی میں وہ اکیلا ہی نکلا تھا اور گریٹ گیم کا شکار ہو گیا-

جارج ہاؤڑ  کا مقصد ان علاقوں کی کھوج لگانا, تحقیق کرنا اور ان دروں کے نقشے بنانا تھا چنانچہ وہ یاسین سے بذریعہ درکوت پاس پامیر ریجن میں داخل ہونا چاہتا تھا-

لیکن سفر میں درپیش خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے آخری لمحے برٹش انڈین وائسرائےلارڑ مایو lord Mayo  نے اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ اس سفر کو ترک کرے مگر اس نے اپنے رسک پر یہ سفر کرنے کی ٹھان لی اور 1870 کے موسم گرما میں سری نگر سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور 13 جولائی 1870 کو وہ بحفاظت یاسین پہنچ گیا اور سترہ جولائی کو وہ درکوت پہنچ گیا مگر اٹھارہ جولائی کو پانچ ملازمین کے ساتھ اس کا بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا”-

دنیا کی ویران  ترین جگہ میں اس کی المناک موت کی خبر تین ماہ بعد انڈیا سے بذریعہ ٹیلی گراف لندن پہنچ گئی مگر برطانوی اخبارات میں اس کی المناک موت کے متعلق کوئی خبر تک شائع نہیں کی گئی البتہ بعد ازیں مشہور شاعر   Poet Sir Henry Newbolt نے

جارج ہاؤڑ کی موت پر ایک  نظم لکھ کر اس کی المناک موت کی منظر کشی ان الفاظ میں کی.

He Fell Among Thrives ‘-

And now it was dawn.

He rose strong to his feet,

And strode to his ruined camp below the wood:

He drank the breath of the morning cool and sweet,

His murderers round him stood.

Light on the Laspur hills was broadening fast,

The blood -red snow -peaks chilled to a dazzling white ,

He turned, and saw the golden circle at last,

Cut by the Eastern height .

O glorious Life, Who dwellest  in earth and sun,

I have lived, I praise and adore Thee.

A sword swept.

Over the pass the voices one by one

Feded ,and the hill slept.”

  جارج ہاؤڑ کی لاش برآمد کرنے کے لئے اس کے دوست برٹش جیالوجسٹ فیڈرک ڈریو نے کوششیں کیں جو مہاراجہ کشمیر کے دربار میں  ملازمت کررہا تھا وہ اپنی جان کی حفاظت کیلئے خود تو یاسین اور درکوت جانے سے قاصر تھا مگر اس نے ایک قابل اعتماد برٹش انڈین سپاہی کو جارج ہاؤڑ کی موت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور اس کی لاش کو تلاش کر کے واپس لانے کے لئے یاسین درکوت روانہ کیا, جس نے پتھروں کے ایک چھوٹے سے ڈھیر کے نیچے سے اس کی لاش برآمد کرنے کے بعد اسے فیڈرک ڈریو کے پاس گلگت پہنچا دیا. لاش کے ساتھ مہم جو کا کچھ سامان بھی اس فوجی نے وہاں سے برآمد کیا جس میں اس کی کتابیں, نقشے اور کاغذات شامل تھے. ان چیزوں کو اس کے قاتلوں نے بےقیمت سمجھ کر چھوڑ دیا تھا-

اکیس دسمبر کو جارج ہاؤڑ  کے دوست فیڈرک ڈریو نے رائل جیوگرافیکل سوسائٹی لندن کو رپورٹ کیا کہ اس نے اپنے گولڈ میڈلسٹ دوست کو گلگت فورٹ کے پاس ایک باغیچے میں دفنا دیا ہے جو بعد میں Gilgit, s Christain Cemeteryبن گئی –

 گریٹ گیم  نامی اہم  کتاب میں Peter Hopkirn لکھتا ہے کہ اس باغ  کے مخالف سمت واقع ایک موچی کی دکان سے چابی حاصل  کرکے اس وقت کوئی بھی شخص جارج ہیورڈ کی قبر دیکھ سکتا ہے-

 جارج ہاؤڑ کو دفناتے وقت اس کی قبر کے ساتھ ایک خوبانی کا درخت اُگ آیا, مگر کہا جاتا ہے کہ اس درخت نے کبھی پھل نہیں دیا.”

 اسطرح گریٹ گیم کا شکار  ہونے والے رائل جیوگرافیکل سوسائٹی کے گولڈ میڈلسٹ جارج ہاوڈ کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا اور اسے گلگت پرانے پولو گراونڈ کے پاس واقع ریسٹ ہاوس سے ملحقہ ایک چھوٹےسے باغیچے میں  دفنایا گیا جہاں آج بھی وہ ابدی نیند سو رہا ہے اور  اس کی مقبرے کے اوپر لگے کتبہ میں واضع الفاظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ

.His tombstone, paid for by the Maharaja of Kashmir, reads: "To the memory of G. W. Hayward, Gold Medallist of the Royal Geographical Society of London, who was cruelly murdered at Darkot, 18 July 1870, on his journey to explore the Pamir steppe. This monument is erected to a gallant officer and accomplished traveller at the instance of the Royal Geographical Society.”

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 18 جولائی 1870 کی ایک روشن صبح کوہ ہندو کش کے دامن میں واقع وادی ورشگوم میں انگریز مہم جو  جارج ہاوڈ کا بے دردی سے قتل ہونے کے افسوسناک واقعے کو  آج سے ٹھیک ایک ماہ بعد 18 جولائی 2020 کو پورے ایک سو پچاس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہوگا ,مگر وادی درکوت کے لوگوں کے حافظے میں جارج ہاؤڑ آج بھی زندہ ہے –

 اس سے بھی بڑھ کر حیرت  کی بات یہ ہے کہ گریٹ گیم کی بازگشت آج اکیسویں صدی میں بھی گلگت بلتستان کے بلند وبالا پہاڑوں اور سنٹرل ایشیاء کے اس پار اپنی پوری شدت  سے گونج رہی ہے. فرق صرف اتنا ہے کہ آج گریٹ گیم برٹش راج اور سلطنت روس کے درمیان نہیں   بلکہ چین اور امریکہ کے درمیان کھیلا جارہا ہے –

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button