عبد الستار ایدھی – خدمات کا ایک جائزہ
تحریر۔سید شاہد عباس
مغربی ہندوستان کے موجودہ گجرات کے علاقے کتھیاوار (کتھیاوار تقسیم ہند سے پہلے گجرات کا ایک ضلع تھا، اسے کاٹھیا وار بھی کہا جاتا ہے) کے ایک گاؤں بانٹوا (بنٹوا)میں اللہ نے مستقبل میں انسانیت کے لیے آسرا بننے والی شخصیت کو پیدا کیا۔ مشکلات اس پیدا ہونے والے بچے کا شروع سے مقدر بن گئیں۔ کسے پتا تھا کہ ان مشکلات کا مقصد ایک ایسے انسان کی تربیت کرنا ہے جو لاکھوں لوگوں کی مشکلات میں ان کے لیے مسیحا بنے گا۔
11سال میں اس کی ماں بستر کی مکیں ہو گئی۔ پہلے مفلوج پھر ذہنی طور پر بیمار ہو گئی اسی وجہ سے اسے تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا کیوں کہ اس کا کل وقتی کام والدہ کی خدمت کرنا بن گیا۔ تقسیم ہند کے وقت اس کی عمر 19 برس تھی۔ اسے بھی ہجرت کو صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کراچی جیسے بڑے شہر کی آغوش میں پناہ لینا پڑی۔ اور یہیں سے اس کی عملی زندگی کا آغاز بھی ہوا۔
والدہ کی بیماری اور ہجرت کی مشکلات نے اس کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالا جس کی وجہ سے اس کے دل ودماغ میں فلاح انسانیت اور خدمت کا جذبہ باقی تمام مادی جذبوں پر حاوی ہو گیا۔ اس کی عملی زندگی کی ابتدا آسان نہ تھی۔ کبھی اس نے کراچی کی لنڈا مارکیٹ میں لوگوں کو پرانے کپڑے خریدنے کی طرف مائل کرنے کے لیے صدائیں بلند کیں۔ تو کبھی یہی صدا تازہ ترین خبروں تک رسائی کے لیے اخبار بیچنے کے لیے بلند ہوئی۔
آج کل کے ” اشرافیہ ” کے لیے یہ بات ایک طمانچے کی صورت ہے کہ اس غربت میں بھی اس نے پہلی فری ڈسپنسری قائم کر دی ۔ اس سلسلے میں اسے کچھ لوگوں سے بھی مدد ملی۔
یہاں سے ایک ایسا سفر شروع ہوا جس کا اختتام شاید اب اس کی سانسوں سے مشروط نہیں رہا۔ کیوں کہ اس عظیم ہستی نے ایک ایسا نظام وضع کر دیا ہے جو شاید تا قیامت جاری رہے گا۔ ا 65ء میں ایک غریب نرس سے جو اسی کے ٹرسٹ میں کام کرتی تھی سے شادی کر لی ۔
اور اب ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔80 اور 90 کی دہائیوں میں لوگوں کے مسیحا کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے اپنے ہاں کام کرنے کی آفرز آئیں لیکن ادرویش صفت ، منکسر المزاج شخص نے تمام آفرز ٹھکرا دیں کیوں کہ وہ صرف اپنے وطن کے لیے یہ سب کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اس کے ادارے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ حکومت وقت سے کوئی امداد نہیں لیتا بلکہ عام لوگوں کے عطیات پر انحصار کرتا ہے اور اس شخص کی بدولت ہی پاکستانی اس وقت دنیا میں شاید سب سے زیادہ عطیات دینے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
اس وقت اس شخص کا ادارہ پاکستا ن کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس دنیا کے سب سے بڑا پرائیویٹ ایمبولینس سروس کا نظام موجود ہے۔ 1928میں جنم والے اس شخص کا ادارہ آج 50ہزار سے زائد یتیموں کو کامیاب زندگی کے دھارے میں لا چکا ہے۔ یہ ادارہ لاوارث کو لاوارث نہیں رہنے دیتا اور انہیں ایک شناخت دیتا ہے۔ جس ہستی کو لوگ آج دکھوں کے ساتھی کے طور پر جانتے ہیں ان کے میڈیکل ادروں میں اس وقت کم و بیش 40 ہزار سے زائد نرسیں خدمات سر انجام دے دہی ہیں۔
اور یہ ادارہ گارے و مٹی کے بجائے جذبات پہ قائم ہے شاید اسی لیے اس ادارے سے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے والے لوگ کبھی اس ادارے سے ناتا نہیں توڑتے اور کسی نہ کسی صورت اس کے ساتھ منسلک رہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس ادارے کا حجم دن بدن وسیع ہو رہا ہے۔ دنیا کے اتنے بڑے ادارے کا سربراہ آج بھی دو جوڑے کپڑوں اور دو کمروں کے مکان سے زیادہ جائیداد و سرمایہ نہیں رکھتا۔
اور یہ دو کمرے بھی اس نے ایک ڈسپنسری کے اوپر قائم کر رکھے ہیں۔
وطن عزیز کا شائد ہی کوئی ایسا شخص ہو جسے اب نام بتانے کی ضرورت ہو کہ یہ شخصیت کون ہے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی صاحب شاید اس وقت زندگی کے ایسے موڑ پر ہیں جہاں وہ ایک ایسے درخت کی مانند ہیں جو اپنی شاخوں کا بوجھ اٹھائے بیٹھا ہے ۔ ایدھی صاحب اس وقت شدید علیل بھی ہیں۔
لیکن انہوں نے اپنی پوری زندگی صرف کر کے ایدھی کو ایک نام کے بجائے ایک نظام میں بدل ڈالا ہے۔ اپنی پوری زندگی انہوں نے لوگوں کا اعتماد کمایا۔ کیوں کہ لوگ اپنے عطیات کے لیے ان پر آنکھیں بند کر کے بھروسہ کرتے ہیں۔ ایدھی صاحب کو مختلف ادوار میں یورپی ممالک سے وہاں آ کر کام کرنے کی آفرز آئیں لیکن ان کے لیے پاکستان ہمیشہ اہم رہا۔ اکثر سنا کہ ضیاء دور میں انہوں نے ضیاء صاحب کی طرف سے پانچ لاکھ کا چیک واپس کر دیا۔
اٹلی کو حکومت نے ان کو امداد بجھوائی جسے انہوں نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ حکومتیں جب مدد دیتی ہیں تو شرائط بھی رکھتی ہیں۔
ایدھی صاحب کو عالمی سطح پر 18 سے زائد اعزازات سے نوازا گیا۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف تھا۔ اس کے علاوہ انہیں ملکی سطح پر بھی کم و بیش 8 اعزازت دیے گئے۔ جن میں نشان امتیاز بھی شامل ہے جو انہیں1989 میں دیا گیا۔ انہیں سابق وزیر اعظم نے نوبل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا۔
لیکن ایدھی صاحب کی خدمات ایسی ہیں کہ انہیں کسی انعام کی شاید ضرورت نہیں ہے۔ ان کا انعام ان کے اداروں سے نکلنے والے وہ لوگ ہی ہیں جنہوں زمانے نے ٹھکرا دیا لیکن ایدھی صاحب ایک گھنے درخت کی چھاؤں کی طرح ان کے لیے سایہ بن گئے۔ لاوارث ہونا شاید سب سے بڑی اذیت ہے لیکن ایدھی صاحب نے تمام لاوارث اور ٹھکرائے ہوؤں کو ایک ایسی شناخت دی جس پہ لوگ فخر کرنے لگے ہیں۔
قیام پاکستان سے آج تک تاریخ پر نگاہ دوڑائیں ۔ کیا ہمیں کوئی ایک بھی ایدھی صاحب کا ثانی نظر آتا ہے؟ کیا کوئی بھی سیاستدان، جرنیل، جاگیردار، سرمایہ دار، زمیندار ایدھی صاحب کی خدمات کی دھول تک بھی پہنچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ ایدھی صاحب نے خدمات کا صلہ نہیں مانگا۔ لیکن پھر بھی ہم نے ان کو صلہ دیا۔
کیا صلہ دیا؟80ء کی دہائی میں انہیں اسرائیلی حراست میں رہنا پڑا کیوں کہ وہ لبنان میں جا کر خدمت کرنا چاہتے تھے۔