کالمز

لوگ تعلیم یافتہ۔۔ مگر انسان نہ بن سکے

اس مرتبہ عید الفطر کی تعطیلات خاصی طویل تھیں مگر عبدالستار ایدھی صاحب کی رحلت کے سبب یہ چھٹیاں پھیکی سی لگیں۔ ایدھی صاحب کی جدائی پرحسب روایت گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے بھی سہہ روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا ،مگر خود حکومتی عہدیداران نے اس سوگواری کے پرخچے اڑاکر تانگیر میں قانون ساز اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے سلسلے میں عظیم الشان جلسے کا انعقاد کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس تین روزہ سوگواری کو صرف اعلان کی حد تک محدودکرنے کے حکومتی سرپرستی میں صوبائی سطح پر ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا جاتا۔ تاکہ دنیا کو ایک پیغام تو مل گیا ہوتا کہ گلگت بلتستان کے سنگلاخ پہاڑوں کے بھیج میں بھی ایدھی صاحب کے پرستار موجود ہیں۔اگرچہ گلگت بلتستان میں ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ باضابطہ سروسز دستیاب تو نہیں، لیکن جہاں ہم ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کے مصداق وفاقی سطح کی سیاسی پارٹیوں اور ان کے سربراہان کے غم خوشی کو منانے میں دیر نہیں کردیتے، وہی پر ایدھی صاحب کا بھی نام لیا جائے توکونسی بری بات تھی۔کیونکہ جتنا کچھ ایدھی نے فرد واحد کی حیثیت سے پاکستان قوم کو دیا اتنا شائد کسی حکمران نے دیا ہو۔ برسراقتدارجماعت کو تانگیر کے ضمنی الیکشن اور دیگر مصروفیات سے اس کام کے لئے فرست نہ ملی تو کم از کم اپوزیشن،خاص طور پروہ لوگ جو ملکی سطح پر رونما ہونے والے ہر ناخوشگوار واقعہ کے اگلے ہی روز شمعیں لیئے چوک چوراہوں پر نمودار ہوتے تھے،ان سے ایدھی صاحب کیونکر بھلا گیا؟۔ ان کی جانب سے بھی انہی دنوں میں صوبائی دارالخلافہ میں ایک عظیم الشان تقریب منعقد کی گئی، مگر کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اس موقع پر ایدھی صاحب کی روح کے ایصال ثواب کے لئے دعائیہ کلمات ادا کئے جائیں۔ خیر یہ صرف گلگت بلتستان والوں کا نہیں بلکہ پوری پاکستان قوم کا ایک المیہ ہے ،جوملک میں رونما ہونے والی ہر آفت کے ابتدائی چند دنوں میں تو ماتم کرتی ہے ،پھر زندگی بھر کے لئے اس واقعہ کو بھول جاتی ہے ۔ایدھی صاحب کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا جو اس سے پہلے ہوتا آیا ہے۔ چند روز تک میڈیا پر ان کے حوالے سے بریکنگ نیوز چلیں گی ،سیاستدان ان کی رحلت پر مگرمچھ کے آنسو بہائیں گے،عوام کو بھی آفسردگی ہوگی،سوشل میڈیا ایدھی کی تعریفوں سے بھر جائیگا، مذہب کے ٹھیکہ دار وں کی طرف سے فتوے بھی جاری ہونگے، لیکن پھر کوئی نئی بریکنگ نیوز ملنے پر یہ سارا معاملہ ختم اور نئے مباحثے شروع ہونگے۔ ایسی غیرمستقل مزاجی کے حامل قوم کو ایدھی صاحب جیسے انمول موتیوں کے تقش قدم پر چلنا کدھر نصیب ہوگا،جو زرداری،نوازشریف،عمران خان،مولانا فضل الرحمن،سراج الحق وغیرہ کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کررہی ہو۔ ایسی قوم کے لئے ایدھی صاحب نے کیا خوب کہا تھا کہ’’لوگ پڑھ لکھ کر تعلیم یافتہ تو بن گئے،لیکن ابھی تک انسان نہیں بن سکے‘‘۔ یقیناً پاکستان میں شرح خواندگی کافی حدتک بڑگئی ہے اور نوجوان نسل اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بہت آگے نکل بھی چکی ہے،مگر انسانیت کی قدرومنزلت کا فقدان بدستور جاریہے۔ لوگ پڑھ لکھ معاشرے میں دکھی انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھانے کی بجائے انفرادی مقاصد کے حصول میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔سستی شہرت اور جائز ناجائز طریقوں سے دولت کمانے کی چکرمیں لوگ اس قدر بدحوس ہوئے ہیں کہ ان سامنے غیریب،نادار، یتیم اورمظلوم وغیرہ کے تذکرے کی اہمیت رسوائی اور وقت تلفی کے سواکچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشرہ خودغرضی،انتہاپسندی ،لالچ ،حرص اور تنہاپسندی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔انہی لوگوں کے سامنے کسی حادثے میں زخمی شخص ،کسی لاوارث بچے اور بے شناخت لاشوں کی بھی کوئی قدرواہمیت نہیں۔ بس وہی ایدھی صاحب ہی تھے جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اس طرح کے بے سہارہ افراد کا وارث بن جاتا ۔وہ ان لوگوں کی ایسی دیکھ بال کرلیتے جو کوئی اپنی حقیقی اولاد کی کرتا ہو۔ اسی خصوصیت کی بدولت ایدھی صاحب نہ صرف پاکستانیوں بلکہ پوری دنیا کے انسانیت پسندوں کی دلوں میں اپنے لئے جگہ بناچکے تھے ،جن کی خدمات اور یادیں صدیوں بعد بھی تاریخ میں زندہ رہیں گی۔ آج اگر ہم میں سے کسی کوئی ایدھی صاحب سے متاثر ہے یاکسی کو ان کی جدائی کا دکھ ہے تو وہ اپنی زندگیوں میں ایدھی صاحب جیسی خصوصیت پیداکرنے کی کوشش کریں اور ہر وقت ان کی ابدی زندگی کے لئے دعائیں مانگیں۔ورنہ ایدھی کی رحلت پرمحض افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button