محکم الدین ایونی
عالمی حدت سے گلیشیرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں بننے والے جھیلوں کے پھٹنے کے عمل سے تعارف چترال میں پہلی بار 2007 میں سنوغر گاؤں کی تباہی سے ہوا یہ پہلا سانحہ تھا ۔ جس میں دیو مالائی اور رومانوی داستانوں کے حامل جنت نما گاؤں سنوغر اُن کی مکینوں اور باشندوں کے سامنے 24گھنٹوں کے اندر ٹکسیلا اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات کامنظر پیش کر گیا ۔ ایک سو کے قریب مکانات گلیشیر کے سیلابی ملبے اور کیچڑ کے نیچے دب کر تاریخ کا حصہ بن گئے ۔ایسا حسین و جمیل قصبہ چشم زدن میں تہ و بالا ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ اس لئے سنوغر گاؤں کے باسیوں کا ا پنے صدیوں سے آباد گھروں کو تباہ ہوتے دیکھنا اور علاقے کو خیر آباد کہہ کر پرواک اور دوسرے مقامات کی طرف ہجرت کرنے کے غم کااندازہ کوئی غیر متاثرہ شخص نہیں لگا سکتا ۔ اگرچہ سنوغر کی تباہی سے پہلے ہی موسمیاتی سائنسدانوں نے عالمی حدت سے چترال اور ناردرن ایریاز میں تباہی کے امکانات کا اظہار کیا تھا ۔ لیکن ایسی باتیں کسی کے پلے نہیں پڑتی تھیں ، آج بھی روایت پسند لوگوں کا ایک بڑا طبقہ موسمیاتی پیشنگوئیوں کے نتائج دیکھنے کے باوجود بھی اُن پر اعتبار نہیں کرتا ، اُس وقت تو سائنسی ماہرین کی باتوں کو ماننا تو بہت دور کی بات ہے ۔ لیکن سائنسدانوں کے خدشات بتدریج حقیقت کا روپ دھرنے لگے ۔ اور بتدریج موسمی تغیرات کی وجہ سے سردیوں میں لینڈ سلائڈنگ ، برف کے تودوں کے گرنے اور گرمیوں میں تیز بارشوں کے نتیجے میں سیلابوں کے سلسلے شروع ہوئے ، اور سالانہ ان تباہیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔ اور چترال کے کئی علاقے بریپ ، بونی ، گرم چشمہ ، ژیتور ، مُردان ، دروشپ ،موڑکہو ، موردیر ، گہکیر، سہت ، تورکہو کے کئی علاقے ، لاسپور ، چترال شہر ، جغور، ایون ، کالاش ویلیز ،دروش ، عشریت غرض چترال کا کوئی گاؤں ایسا نہیں رہا ۔ جہاں سیلاب نے تباہی نہ مچائی ہو ۔ اور جانی و مالی نقصان نہ پہنچایا ہو ۔ 2013 کے بعد طوفانی بارشوں میں اضافہ ہوا ہے ، جن کے نتیجے میں سیلابوں میں اور بھی شدت آ گئی ہے۔ تمام ندی نالے ملبے سے بھر گئے ہیں،جس کی وجہ سے ندی نالوں کی سطح مقامی آبادیوں سے بلند ہو چکے ہیں ۔ اور وہ شہر و دیہات و قصبات جو نہایت محفوظ گردانے جاتے تھے ۔ اب سب سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئے ہیں ۔ گذشتہ سال سے آفات کی وجہ سے انسانی جانی نقصانات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ سال 2015 چترال میں مجموعی طور پر چالیس اموات ریکارڈ کی گئی تھیں ۔ اس سال بہت پہلے ہی اموات کی شرح سابقہ ریکارڈ کو عبور کرچکی ہے۔ جبکہ بارشوں ، دریاؤں اور ندی نالوں کی طغیانی کے دن ابھی باقی ہیں ۔ اُرسون میں دس دنوں کے اندر یکے بعد دیگرے دو سیلاب آئے ، اور 29قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ،جن میں پاک فوج کے آٹھ جوان بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی مال مویشی اور دیگر جانور ، مکانات ودکانات، باغات زمینات اور دیگر انفراسٹرکچر تباہ ہوئے ۔ جبکہ پچھلے سالوں کے تباہ شدہ انفراسٹرکچر اپنی جگہ پر ویسے ہی موجود ہیں ۔ اُن کو ہاتھ ہی نہیں لگایا گیا ہے ۔ ٹوٹی ہوئی سڑکوں ، پلوں ، پائپ لائنوں ،آبپاشی سکیموں اور دیگر متاثرہ سرکاری و غیر سرکاری املاک پر یہ مزید اضافہ ہے ۔ محکمہ موسمیات پاکستان نے مزید بارشوں کی پیشنگوئی کی ہے ۔ اور پچھلے سال کی نسبت 20فیصد اضافے کا مُژدہ سنایا ہے ۔ اور مزید تباہی کے امکانات کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے ۔ کہ پچھلے کئی سالوں سے باربار ان آفات خصوصا سیلاب سے متاثر ہونے کے باوجود حکومتی سطح پر اس بارے میں کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی ۔ اور نہ اب حکومت کے کانوں میں جوں رینگتی ہے ۔ حکومت بس یہی کافی سمجھتی ہے ۔ کہ سیلاب کے بعد چند آفیسران علاقے کا دورہ کریں ، صوبائی اور مرکزی سطح پر ہمدردی اور افسوس کے چند بول بولیں ، ریلیف کے نام پر خیمے ، کچھ راشن تقسیم کریں ، چند زخمیوں کی مرہم پٹی کریں ، جان بحق ہونے والوں کے لواحقین کی کچھ مالی امداد کریں ۔ اُس کے بعد کھیل ختم پیسہ ہضم والا معاملہ ہے ۔ بس یہی ہماری حکومتی کارکردگی ہے ۔ حالانکہ کئی ادارے اس حوالے سے پیسے ڈکار رہے ہیں ۔جس میں حکومت پاکستان کا بجٹ اور بیرونی امداد دونوں شامل ہیں ۔ گویا آفات کا آنا بعض اداروں کیلئے دودھ دینے والی گائے کی مثال بن گئی ہے ۔ متاثرہ لوگ کس عذاب سے گذر رہے ہیں ۔ اُن کی زندگی کس مشکل میں ہے ۔ اُن کی آمدورفت ، خوراک ، نہری نظام ، آبنوشی نظام ، تعلیمی اور صحت کے نظام پر ان آفتوں کے کیا اثرات مرتب ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں ۔ معاشی طور پر کن مشکلات میں گھیرے ہوئے ہیں ۔ اس کا اندازہ حکومت کو بالکل نہیں ۔ اور نہ وہ اس پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں ۔ چترال کی 14850مربع کلومیٹر ائیریا میں تین فیصد قابل کاشت زمین سالانہ کتنی فیصد اپنا حجم اور رقبہ کھو رہا ہے ۔ سیاحتی طور پر اس کے مستقبل کو کیا خطرات ہیں ۔ یہاں کی سب سے قدیم تہذیب سیلاب کی وجہ سے کن مشکلات ہے دوچار ہے ،یہاں کے بچوں ، خواتین اور مردوں کے ذہنوں میں ان حادثات کے کتنے خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ حکومت نے کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ اور نہ اس بارے میں سوچنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔مسند نشین صرف ریلیف کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ ان کے پاس کوئی جامع پالیسی نہیں ہے ۔ سسٹم نہیں ہے ۔ اور نہ اہلیت ہے ۔ منسٹری آف کلائمیٹ چینج ، این ڈ ی ایم اے ، پی ڈی ایم اے ،صرف محکمہ موسمیات کی پیشنگوئیوں کی تشہیر کرکے خود کو بری الزمہ قرار دے رہے ہیں ۔ جبکہ صو بائی حکومت کی طرف سے گذشتہ تین چار سالوں کے دوران نئے منصوبے تو دور کی بات ،سیلاب میں تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے کوئی فنڈ ہی فراہم نہیں کئے گئے ۔ اور ہنگامی طور پر آشک شوئی کیلئے اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر جو فنڈعنا یت کئے گئے ۔ وہ اُن اداروں کے ہتھے چڑھ گئے ، جو اُنہیں ہضم کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ اور کھایا پیا ہضم کیا ہجمولہ کے نسخے کا تجربہ رکھتے ہیں ۔ عوام اس مخمصے اور اضطراب کا شکار ہیں ۔ کہ آخر اس ملک میں ہو کیا رہا ہے ۔ کیا اسی طرح چترال میں تباہی ہوتی رہے گی ، اس کیلئے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی جائے گی ۔ گلیشروں کو محفوظ بنانے ، چیک ڈیمز کی تعمیر ، شجرکاری ، حفاظتی پشتوں کی تعمیر ، چینلائزیشن اور متاثرین کی آباد کاری کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت فنڈ فراہم نہیں کریں گے ۔ جو کہ چترال جیسے آفات میں گھیرا ہوا بے قصور ضلع کا حق بنتا ہے ۔ چترال صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہونے کی بنا پر اس کے مسائل پر توجہ دینے کی زیادہ ذمہ داری صوبائی حکومت پر بنتی ہے ۔ لیکن اس حکومت کی کارکردگی چترال میں انتہائی مایوس کن ہے ۔ اور چترال کے ساتھ مسلسل سوتیلی ماں کا سلوک کیا جا رہا ہے ۔ایک سال بعد پاکستان تحریک انصاف کے قائد کا دورہ چترال بھی چترال کو مایوسیوں اور محرومیوں کے سوا کچھ نہ دے سکا ۔ جبکہ چترال کے لوگ انفراسٹرکچر کی بحالی کیلئے قائد تحریک انصاف اور وزیر اعلی پرویز خٹک سے کسی بڑے انقلابی پیکیج کے اعلان کی توقع رکھتے تھے ۔