کالمز

عزم آزادی کشمیر

مقبو ضہ کشمیر میں بھارتی وحشیانہ درندگی کے خلاف ۹ اگست کوجماعت اسلامی کے زیرے اہتمام گلگت شہر میں ایک احتجاجی جلسے کا خبر ہے ۔جس میں جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق شرکت کرینگے۔اور ایسی احتجاجی جلسے میں ٹیکس اور اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کا حصہ بھی زیرے بحث رہے گا۔اس جلسے کی وساطت سے مسلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاے گی۔جو کہ ایک بہترین اقدام ہے۔اگر دیکھا جاے تو گلگت بلتستان بھی مسلہ کشمیر کا ایک فریق ہے ۔یہ جو حل چل آینی حقوق کے حوالے سے ہیں اور ٹیکس کو غیر قانونی گردانا جا رہا ہے یہ سب عمل مسلہ کشمیر کی وجہ سے ہے۔آینی حقوق دینے میں وفاق کی طرف سے کوی بدنیتی نہیں ہے۔مگر اس حقوق کی چکر میں مسلہ کشمیر کو نقصان کا اندیشہ محسوس کیا جارہا ہے۔جس کی وجہ سے وفاق اگر مگر کا شکار ہے۔جبکہ ادھر عوام کے جانب سے اس حقیقت کی وضاحت کا مطالبہ بام عروج پر ہکہ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کا حصہ ہے یا پاکستان کا حصہ ہے؟آگر پاکستان کا حصہ ہے تو بیس لاکھ عوام آینی حقوق سے محروم کیوں ہیں؟ایسا نہیں ہے کشمیر کا حصہ ہے تو پھیر ٹیکس کا کیا جواز بنتا ہے؟یقینآ ان سوالات کے جوابات جماعت اسلامی کے پاس نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا معاملہ ہے۔البتہ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اپنے جماعتی پالیسی واضع کریگی جس کا حق سینیٹر سراج الحق کو حاصل ہے۔اور اس احتجاجی جلسے کا ایک فایدہ یہ بھی ہوگا کہ وفاق کی کمزور کشمیر پالیسی کی وجہ سے گلگت بلتستان کے ۹۰ فیصد عوام مسلہ کشمیر کو بھول چکی ہے جماعت اسلامی کے اس عمل سے عوامی دلچسپی کشمیر کے حوالے سے بڑ ہ جاے گی۔اور روایتی جزبات کا مظاہرہ بھی ہوگا جس سے آینی حقوق کے حوالے سے مطالبات کی شدت میں کمی آے گی ۔لیکن یہ عمل کب تک چلے گا؟گزشتہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام مسلہ کشمیر کے بینٹ چڑتے آرہے ہیں ۔وفاق میں گلگت بلتستان کی نمایندگی نہیں ہے۔اعلی عدلیہ کی انصاف سے محروم ہیں ۔ ملک کا حکمران چننے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔پھیر بھی گزشتہ ستر سالوں سے وفاق کی طرف سے بھیجے گیے فرمان پر من عن سر تسلیم خم ہے۔اگر دیکھا جاے تو نہ صرف پاکستان کے چاروں صوبوں سے زیادہ قربانی گلگت بلتستان کے عوام نے دی ہے۔بلکہ آزاد کشمیر کے عوام سے بھی زیادہ قربانیاں یہاں کے عوام دے چکے ہیں۔اب قربانی کا بکرا تو نہیں بنا یا جاسکتا ہے۔وفاق میں آنے والی ہر حکومت کی پالیسی کشمیر کے حوالے سے مزاکرات کی حد تک ہوتی ہے مجال ہکہ پر امن مزاکرات کے حد سے کوی بھی لیڈر یا سیاسی پارٹی آگے بڑ ہ سکے۔اخلاقی حمایت سے کشمیر کی آزادی ممکن ہوتی تواب تک اپ کے سارے بابو سری نگر میں ٹٰیکس کا حساب کررہے ہوتے۔آپ کے با معنی مزاکرات کے انتظار کا نتیجہ لاکھوں کشمیری مسلمانوں کے شہادت کے شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔یہی باہمی دوستی اور پڑوسی کے احترام کے چکر میں بنگلہ دیش ہاتھ سے نکل گیا۔کلبھوشن جی بھی بلوچستان تک پونچ گیے۔آس پڑوس سے دشمن ہمیں گیر چکا ہے۔قومی تنصیبات پر حملے کرتا ہے عوامی مراکز پر دشمن ہمیں نشانہ بنا تا ہے۔سیاسی پارٹیوں کے اندر گھس کر ہمارے اپنے لوگوں کو ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے۔جسکا ثبوت بھی ہمیں ملتا ہے۔دشمن اتنا سب کچھ کر رہا ہے تو قوم حکمرانوں سے یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہکہ دشمن کے اس سب کا جواب ابھی تک کیوں نہیں دیا؟اگر بنگلہ دیش میں بھارت مکتی باہنی کے آڑ میں فوج کشی کر سکتا ہے تو پاکستان پر مذاکرات کا بوت کیوں سوار ہے؟کشمیری پاکستان کا جھنڈاسر پر کفن کے طور پر باندہ کر دشمن کے ٹینکوں کا مقا بلہ غلیلوں سے کر رہے ہیں۔اور چند کینکریوں سے دشمن پر وہ ہیبت طاری کردی ہکہ ان کا وزیر داخلہ کھبی یاسین ملک کی پیر پکڑتا ہے کھبی علی گیلانی چوکٹ پر ماتھہ رگڑتا ہے۔مگر ہم ہکہ دنیاں کے جدید ترین اصلحہ اور بہترین فوج رکھنے کے باوجود بھی خوف کھاے جارہے ہیں۔زرا سوچے اگر ہمارے ٹینکوں کا رخ بھارت کی طرف ہوگا تو ان کا کیا حال ہوگا؟ایک حافظ سعید سے الحمدالللہ پورا ہندستان لرز چکا ہے مودی کے خواب میں بھی حافظ سعید آتا ہے میاں صاحب آپ آنکھیں دیکھاینگے تو یقین کرے مودی ہندستان چھوڑ کر بھاگ جاے گا۔آپ اسلام آباوزیر اعظم ہاوس میں بیٹھ کرکشمیر بنے گا پاکستان کا ایک نعرہ لگا کرکشمیر کا قرض نہیں چکا سکتے آپ نے تو یہ نعرہ ادہرکمانڈوز کے سکیورٹی حصار میں بلند کیا ہے مگر کشمیر کا بچہ بچہ دشمن کو للکارتے ہوے ان کے ٹینکوں کے سامنے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ اب بھی بلند کر رہا ہے۔جو دشمن سے دو بدو ہیں کٹ مر رہے ہیں وہ مزاکرات کو مسترد کر کے میدان کارزار پر یقین رکھتے ہیں ۔لیکن آپ ہکہ اب بھی پر امن ڈایلاگ کے حامی ہیں۔زرا جزبات پر معزرت مگریہ حقیقت ہکہ اس طرح کے دو چار شب سے کشمیر کی آزادی ممکن نہیں ہے۔اور نہ ہی جماعت اسلامی کے اس عزم آزادی کشمیر کا کوی فایدہ ہے ستر سال کے بعد جاکے کشمیر کی آزادی کے عزم کا ہمیں یقین دلا یا جا رہا ہے۔ہم تو سمجھ رہے تھے کہ وفاقی سیاسی جماعتیں ستر سالوں سے اس عزم کے ساتھ آگے بڑہ رہی ہیں مگر آج جاکے پتہ چلتا ہے کہ ابھی نیت باندھا جارہا ہے۔اور ایسی رفتار کے ساتھ آپ آگے بڑے توستر سال مزید درکار ہونگے۔جو کہ دو صدیو ں پر محیط عرثہ ہوگا اور اتنا انتظار ناممکن ہے ۔یا وفاق کے ترجیحات میں سے سرفہرست ترجیح مسلہ کشمیر ہو اور دشمن کی نفسیات کے مطابق موثر طریقہ کار کے ساتھ بھر پور جواب دیا جاے تو انتظار کے گھڑیوں کا کوی پرواہ نہیں ہے۔مگر حسب روایت پرانے دوش پر چلے اور سال میں ایک مرتبہ مسلہ کشمیر کا زکر کر کے داد و تحسین کے طلب گار رہے اور ہر پونے صدی بعد ایک نیے عزم باندتے رہے تو یقیناً بدلی پیدا ہوگی۔کشمیر اور کشمیری عوام کو پرانے عزم کے ساتھ نیے فیصلوں کی ضرورت ہے یہ روز روز کے عزم زخم کے باعث بنتے ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام سات دہایوں سے کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں یہاں کی سوچ میں اگر تبدیلی آی ہے تو وفاق کی مزاکراتی کمزور پالیسی کی وجہ سے آی ہے اب یہ وفاق پر منحصر ہے کہ وفاق گلگت بلتستان کے عوام کو آینی حقوق دیکر محرومی کی سدباب کرتی ہے یا کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کرکے عوام کی اعتماد کو بحال کرتی ہے؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button