کالمز

جشن شندوراور خاکی برادری

سطح سمندر سے بارہ ہزار تین سوپچیس فٹ پر واقع دنیا کی بلند ترین پولوگراؤنڈ شندور میں سالانہ تین روزہ جشن شندور بخیروعافیت احتتام پزیر ہوئی خوش قسمتی سے گلگت بلتستان کی پولوٹیموں نے بھی شرکت کرکے اس ٹورنامنٹ کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار اداکیا۔ جشن شندور دراصل چترال اور گلگت بلتستان کی مشترکہ ثقافتی اقدار کا آمین ہے لیکن وقتا فوقتا مفاد پرست طبقات کی ذاتی انا اور سیاست دانوں کی غیر ضرورتی مداخلت کی وجہ سے گزشتہ کئی برسوں سے یہ جشن متنازعہ بن گیا ہے سال روان میں بھی حکومت خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان حکومتوں کے درمیان جشن شندور سے متعلق گفت وشنید ہوئی لیکن آفسوس ناک امریہ ہے کہ  عوامی نمائندوں کے درمیان جشن شندور سے متعلق کوئی حوصلہ افزاءپیش رفت نہ ہوئی اور یوں مزاکرات میں حکومت گلگت بلتستان کی نمائندگی کرنے والے پارلیمانی سیکٹری فداخان فدا نے مزاکرات کی ناکامی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی اعلان کردیا کہ گلگت بلتستان علیحدہ سے شندور میں تین روزہ جشن منعقد کرے گی خاکسار نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ سیاست دان جشن شندور کو متنازعہ بنا کر نہ صرف علاقے کو ترقی سے روک رہے ہیں بلکہ غیر ضروری بیانات سے علاقے میں امن وامان کا مسئلہ بھی پیداکررہے ہیں لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے دونوں خطوں کی سیاسی قیادت اپنے اپنے مطالبات کو پتھر پر لکیر قراردیتے ہوئے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی پیش رفت سے کتراتی رہی تو اس دوران صحافی حضرات اور بعض دانشور صاحبان بھی تیر سرکش میں تھامے سازشی نظریات لے کر میدان میں کود پڑے۔ اس ساری  صورتحال میں چترال کی سیاسی قیادت کے لئے جشن شندورکے حوالے سے کسی بھی قسم کا کوئی پیش رفت ممکن نہ رہا۔ جس کی وجہ سے ایک اور گروپ نے موقع کو عنیمت جان کر میدان میں کودپڑی جس کو ‘خاکی برادری’ کا نام دیاجاتاہے ۔ پھر کیا تھا کہ گلگت بلتستان بھی بلاچون وچرأ مطالبات کو پس پشت ڈال کر شندور کی جانب روانہ ہوگئے تو چترالیوں کی زد کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی اور وہ بھی بے غیر کسی حیلے بہانے کے شندور پہنچ گئی۔ اس سال کی خاص بات یہ تھی کہ جشن شندور کے لئے فنڈ تووزارت سیاحت کی جانب سے مختص کیا گیا لیکن جشن کے انتظامات کرنے سے قاصر رہی یوں خاکی براردی جمہوری حکومت کے جاری کردہ فنڈ لے کر انتظامات اپنے ہاتھوں لیں۔ سیکیورٹی کی بات کی جائے تو جہاں چترال سکاؤٹ کے چاق چوبند دستے کھڑے نظر آئے ان کے پہلو بہ پہلو ناردن لائیٹ انفنٹری (این ایل آئی) کے خوبرو نوجوان کھڑے تھے خیبرپختونخواہ پولیس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان پولیس بھی گاڑیوں کے ہمراہ نہ صرف شندور میں موجود تھی بلکہ سیکیورٹی کے فرائض بھی خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے۔ لیکن نہ کسی میڈیا پرسن کو اس پر اعتراض کرنے کی جرات ہوئی اور نہ ہی دانشوروں کو اس کے پیچھے کسی ‘را’ کے سازش کی بو محسوس ہوئی۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ عوام اور سول سوسائیٹی کی غلط اور گمراہ کن افواہوں کی وجہ سے مختلف اسکیموں کے لئے مختص شدہ رقم عسکری قیادت کی جیبوں میں چلی گئی ہو بلکہ اس سے قبل پچھلے سال جب چترال میں تباہ کن سیلاب آیا تھا توچترال کے عوام یک زبان ہو کر اعلان کیا کہ انفراسٹریکچر کی بحالی کی ذمہ داری پاک فوج کو سونپی جائے یوں منتخب نمائندے عوام کی دباؤ میں آکر سڑکوں کی بحالی کے لئے جاری شدہ فنڈ ایک عسکری ادارہ فرنٹئیر ورک آرگنائزیشن کے حوالے کردی جنہوں نے کیا گل کھلائے اس کا احوال جاننے کے لئے متاثرہ علاقوں کے عوام سے رابطہ کیاجائے تو اصل حالات کا پتہ چلتاہے اس سے زیادہ لکھنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے ان سے سیکھنے کی بجائے بعض طبقات اس سلسلے میں بھی ایم پی اے مستوج سردارحسین صاحب کو موردالزام ٹہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔

اب دوسرا موقع ہے کہ چترال میں منعقد ہونے والا سب سے بڑا جشن شندور بھی براہ راست فوج کی زیر نگرانی منعقد ہوا۔ ٹورنامنٹ سے قبل اور ٹورنامنٹ کے دوران وقوع پزیر ہونے والی چند اہم واقعات پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ کہ جشن شندور شروع ہونے سے صرف چار روز قبل جرنیل آفیسر کمانڈنگ ملاکنڈ ڈویژن نے لاسپور کے ایک گاؤن شاہی داس کے مقام پر صرف ایک سو پچاس کلوواٹ کے بجلی گھر کا افتتاح کیا حالانکہ اس بجلی گھر کے لئے خیبر پختونخواہ حکومت نے فنڈنگ کی تھی اور محکمہ پیڈو نے سرحد رورل سپورٹ پروگرام نامی ایک این جی او کے ذریعے یہ بجلی گھر تعمیر کیا تھا۔ایک سو پچاس کلوواٹ کے اس بجلی گھر سے لاسپور کے صرف دوگاؤں شاہی داس اور گشٹ مستفید ہورہے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ صوبائی حکومت کے جاری کردہ فنڈسے تعمیر ہونے والی اس معمولی بجلی گھر کا افتتاح ایک فوجی آفیسر کے ذریعے کیوں کروائی گئی؟ کیا یہ جشن شندور کے حوالے سے پلان اے تو نہیں تھا؟ قیاس کیاجاتا ہے کہ جشن شندور کے موقع پرایک فوجی آفیسر کے ذریعے اس بجلی گھر کا افتتاح کرکے لاسپور کے عوام کوجشن شندور سے متعلق تنبیہہ کی گئی ہو کہ خبردار!اس سال مقتدر اداروں کے زیر کنٹرول یہ جشن منعقد ہورہاہے لہٰذا خاموشی سے بلاتام وتامل اس میں شرکت کی جائے کسی قسم کے پریشانی کی صورت میں انجام بھیانک ہوگا۔

روایت رہی ہے کہ ہر سال جشن شندور کے موقع پر چترال سے لےکر شندور تک سڑکوں کی مرمت کی جاتی ہے اس سال بھی سڑکوں کی مرمت ہوئی لیکن مستوج سے آگے جہاں لاسپور کا علاقہ شروع ہوتا ہے تا شندور تک روڈ کی نہ صرف بہتر انداز سے مرمت کی گئی بلکہ کھڈوں میں مٹی بھر کر مکمل طورپر روڈ کو صاف کیا گیا اس کے برعکس مستوج سے نیچے اسی روڈ پر کوئی خاطر خواہ کام نہ ہوا۔ جو کہ اپنے پیچھے کئی ناحل ہونے والی سوالات کو چھوڑگئی۔

پچھلے سال مئی کے مہینے میں ایک تنظیم کی جانب سے پشاور میں جشن شندور سے متعلق سیمنار منعقد ہواتھا جس میں گلگت بلتستان کے وزراء ومشیروں سمیت زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد شرکت کی۔ اجلاس میں حکومت خیبرپختونخواہ کی نمائندگی وزیر اعلیٰ کے ایک مشیر نے کی جبکہ ایم پی اے مستوج جناب سردارحسین صاحب نے بھی اس سیمنار میں شرکت کی۔ اس کے ساتھ ہی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں طوفان برپا ہوا کسی کو اس سیمنار کے پس پردہ را کا ہاتھ نظر آیا تو بعض طبقات نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ ایم پی اے مستوج نے شندور کی زمین کو گلگت بلتستان کے ہاتھوں فروخت کردیا ہے۔ یہ طوفان اتنا بڑھ گیا کہ لاسپور کے عوام نے ایم پی اے کو باقاعدہ دھمکی دی چونکہ ان دنوں صوبے میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہورہی تھی اور اسی مناسبت سے لاسپور میں جشن شندور سے متعلق اس سیمنار کو ایشو بنا کر سیاسی مقاصد بھی حاصل کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال ایم پی اے مستوج سردارحسین جشن شندور سے متعلق نہ کسی میٹنگ میں شرکت کی اور نہ ہی جشن شندور سے متعلق پیش پیش نظر آئے حالانکہ بحیثیت منتخب نمائندہ ٹورنامنٹ سے متعلق اگر صوبائی حکومت سردارحسین کی مدد لیتے تو شائد خاکی برادری کو اس جشن میں کودنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔

ایک مرتبہ جب جشن کے انتظامات عسکری قیادت کے پاس چلی گئی تو انہوں نے ہر جانب اس جشن پر قابض ہوئے ادھر کسی سیاسی نمائندے کو جشن میں بلانے کی بجائے آرمی چیف کو بلایاگیا۔ جب حالات ہاتھ سے نکلتاہوا محسوس ہوا تو ٹورنامنٹ کے پہلے روز وزیر اعلیٰ جناب پرویز خٹک صاحب شندور آکر  جشن کا افتتاح کیا حالانکہ اگر چترال کے عوام کے مفادات کے تناظر میں بات کی جائے تو یہ جشن شندور ہی ہے جس کی توسط سے چترال میں بہت سارے ترقیاتی کام شروع ہوئے لواری ٹنل جیسے میگاپروجیکٹ کی آواز بھی جشن شندور کی مناسبت سے ایوان اقتدار کے کانوں تک پہنچی اور اسی جشن شندور کے موقع پر سابق صدر جرنیل پرویز مشرف نے چترال آکر لواری ٹنل پر کام کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اگر اس سال بھی عوام اور بالخصوص دانشور طبقے ہوش کے ناخن لیتے اور صوبائی حکومت، منتخب عوامی نمائندگان کو دباؤمیں لانے کی بجائے ان کے سامنے یہ موقف رکھتے کہ جشن میں وزیر اعظم پاکستان کو مدعو کیاجائے اور اگر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف صاحب اس جشن میں تشریف لاتے تو شائد علاقے بالخصوص چترال میں بہت سارے ترقیاتی کام شروع ہوجاتے۔ اگر کسی وفاقی وزیر کو بھی بلایاجاتاتو علاقے کے مفاد میں مفید ثابت ہوتا آرمی چیف کی بجائے اگر وزیر اعلیٰ کے پی پرویز خٹک اور چیرمین پاکستان تحریک انصاف جناب عمران خان آتے تب بھی علاقے کے عوام کو اس کے بہت سارے فوائد ملتے۔ لیکن چترال کے عوام تاریخی طورپر سیاسی لحاظ سے لاشعور اورجذباتی ہے جو لوگ چترال میں آکرپرامن، مہذب کہتے ہوئے موسیقی کی تھاپوں میں رقص کریں تو انہیں اپنا دیوتا مانتے ہیں یہی کچھ سابق صدر پاکستان جرنیل پرویز مشرف سے متعلق ہمارا رویہ رہا ہے  موجودہ آرمی چیف جرنیل راحیل شریف کی جشن شندور میں شرکت کے بعد بھی ہمارا رویہ اسی طرح جاری وساری ہے۔اب اگر چترالی عوام کے جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ چکے ہیں تو انہیں ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنا چاہئے کہ کہیں وہ جشن شندور پر کچھ پانے کی بجائے بہت کچھ کھو تونہیں دیا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button