کالمز

تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نمازمیں

 تحریر: ایمان شاہ

میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نمازمیں

فاتح خیبر حضرت علی ؑ کا واقعہ تو آپ کو بھی یاد ہوگا، جب کسی جنگ میں ایک تیر یوں ان کی ایڑی میں پیوست ہوگیا کہ نکالے نہ نکل رہا تھا، تب حضرات علی ؑ نے کہا’’رہنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز کے دوران جب میں سجدے میں جاؤں تو تیر کھینچ لینا۔‘‘

ایسا ہی کیا گیا اور تیر باآسانی نکال لیا گیا۔

ایک اور واقعہ۔۔۔۔۔۔۔

ایک متقی، پرہیز گار بزرگ محو نماز تھے کہ ایک عورت ان کے آگے سے گزر گئی، نماز کی ادائیگی کے بعد اس بزرگ نے سخت لہجے میں اس ’’نامعقول‘‘ عورت سے کہا۔۔۔۔۔۔۔!

’’تمہیں دکھائی نہیں دیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اورتم میرے آگے سے گزرگئیں۔‘‘

عورت نے جواب دیا۔۔۔۔۔ ’’عجیب نمازی ہو تم! مجھے تو اپنا بچہ آگ کے پاس جاتا نظر آیا تو تم مجھے نظر آنا بند ہوگئے، ادھر تم ہوکہ اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہو اور پھر بھی تمہیں ارد گرد کا اتنا ہوش ہے۔‘‘

آپ کو بھی سوشل میڈیا میں ایسی کئی تصاویر سے واسطہ پڑا ہوگا کہ نماز کی ادائیگی کے دوران پورے انتظام کے ساتھ باقاعدہ’’پوز‘‘ بناکر تصویر کھچواتے ہیں اور پورے اہتمام کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ایسا کرتے ہوئے یہ کیا دکھانا چاہتے ہیں؟

حج کیلئے عازمین حج کی روانگی شروع ہوچکی ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے ایک اور رواج فروغ پارہاہے، حرم پاک میں احرام میں ملبوس یا حجرۂ اسود کو بوسہ دیتے ہوئے تصاویر کو سوشل میڈیا کے ذریعے دکھانے کا بظاہر مقصد کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔؟

اللہ کے گھر کی زیارت، اور طواف جبکہ دوسری جانب ہم جیسے گنہگاروں کو اس بات کی فکر ہوکہ سیلفی اچھی بن جائے، کوئی ایسا ہوگا ،اللہ کے گھر میں، اللہ کے سواء کسی اور شے کو محسوس کرے یا اسے کسی دنیاوی کام کی فکر لاحق ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم سب نے کیا اس بات کو محسوس کیا ہے کہ آج کے حکمران۔۔۔۔۔۔۔ رعایا میں، اپاہجوں میں، معذوروں، مجبوروں، غریبوں اور ناداروں میں پورے انتظام کے ساتھ امداد تقسیم کرتے ہوئے فوٹو سیشن کے دوران اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ’’دائیں ہاتھ سے دو ،تو بائیں ہاتھ کوخبر نہ ہو۔۔۔۔۔‘‘

ہم21ویں صدی میں زندگی گزار رہے ہیں، بہت زیادہ تہذیب یافتہ ہونے کے دعویدار ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔ کوئی دکھائے تو سہی ایسے حکمران جو فرات کے کنارے ایک کتے کی موت پر بھی خود کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے لرزہ پر الزام دیتے ہوں۔۔۔۔۔۔

کوئی ہے، جو اپنے غلام کی سواری کی نکیل تھام کر اللہ کیلئے اللہ کے رستے کی سمت روانہ ہو۔۔۔۔

ہے کوئی ایسا حکمران جو اپنے لخت جگر کو اس کے گناہ کی پاداش میں کوڑوں کیلئے حوالے کردے اور پھر باقی سزاء اس کے بے جان جسم پر نافذ کرے؟؟

پڑھنے والوں کو حیرت ہوگی کہ میں کیا موضوع لے کر بیٹھ گیا ہوں۔

آج جمعتہ المبارک ہے، ہفتے بھر سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق پر لکھتے ہوئے یکسانیت سی محسوس ہوتی ہے، کوشش یہی ہوگی کہ جمعتہ المبارک کے روز کسی مذہبی موضوع جس کے اثرات سماجی مسائل پر بھی پڑتے ہوں لکھا کروں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حوالے سے اپنی کم علمی (مذہبی موضوعات) کا احساس ہے، پھر بھی ممکن حد تک آپ کے ساتھ مذہبی موضوعات کے ذریعے بھی رابطہ برقرار رہے گا۔

جمشید خان دکھی کے ان اشعار کے ساتھ اجازت:۔

واعظ کو محبت کی فضاء راس نہیں ہے

انجام تعصب کا بھی احساس نہیں ہے

ہوں کار محبت یہی مصروف میں اتنا

نفرت کیلئے وقت میرے پاس نہیں ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button