کالمز
عاصمہ جہانگیر کا دورہِ گلگت اور تنگ نظر قوم پرستوں کا المیہ
عنایت بیگ
"ہمارے ہاں ایک سے زیادہ اقسام کی انتہا پسندیاں پائی جاتی ہیں کہ جب تجزیہ کریں تو نیوٹن کے تیسرے قانون کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ جیسے پینڈولم کی دونوں انتہائیں ایک مقام پر یکجان ہو جاتی ہیں ایسے ہی معاشرتی سطح پر بھی مختلف اقسام کی انتہا پسندیاں ایک دوسرے کو ”تگڑا“ کرنے کا ہی سبب بنتی ہیں۔” معروف کالم نگار و دانشور عامر ریاض صاحب کے ایک کالم کا یہ اقتباس گلگت بلتستان کی موجودہ صورت حال پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور انسانی حقوق کی سرگرم رکن عاصمہ جہانگیر نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔ دورے کا سبب گلگت بلتستان میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بابا جان کو سانحہ عطاآباد و علی آباد کے متاثرین اور پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے باپ بیٹے کے حق میں آوازِ حق بلند کرنے پردو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائے جانے کے خلاف ایک علامتی احتجاج اور اس سارے کیس کو قریب سے دیکھنے کی ایک کوشش تھی۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ جیل میں بابا جان سے ملیں اور بعد میں اپنے پریس کانفرنس میں یہ بتایا کہ وہ بابا جان کے کیس کو انتہائی قریب سے دیکھتی آئی ہیں اور وہ اس کیس کو حوالے سے اپنی ہر ممکن معاونت فراہم کریں گی جو کہ ان کی ذمہ داری ہے۔ گلگت میں بار کے وکلاء کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے وکلاء اپنے آئینی حقوق کی خاطر سپریم کورٹ کے باہر دھرنا دیں اور احتجاج کریں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔سی پیک کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسی ترقی کس کام کی جو لوگوں کے سروں کو روند کر چلی جائے، اگر اس منصوبے سے اس خطے کے عوام کی حالاتِ زندگی میں کوئی بہتری نہیں آسکتی تو پھر ہمیں اس کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ بار ایسو سی ایشن کے رہنماء اور پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر جناب امجد ایڈوکیٹ نےاس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم وفاق پرست لوگ ہیں اور گلگت بلتستان میں وفاق کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔
نوآبادیاتی معاشروں میں آلہ کاروں کی وسیع پیمانے پر موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ ایک ایسا خطہ جہاں پر بین الاقوامی سامراج اور اسکے مقامی گماشتوں کے بڑے پیمانے پر مفادات جُڑے ہوئے ہوں، وہاں صرف چند افراد ہی نہیں بلکہ لگ بھگ تمام ادارے ہی آلہ کار کے طور استعمال ہوتے ہیں، جس کی وجہ خوف یا لالچ دونوں ہو سکتے ہی، مگر ہم نے زیادہ تر لالچ ہی کو اہم وجہ کے طور پایا ہے۔ گلگت بلتستان کے تقریباً تمام مقامی اخبارات اس کی ایک اہم مثال ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ان اخبارات نے دانستہ غلط بیانی سے کام لیا تاکہ اپنے نو آبادیاتی آقاوں کو خوش کیا جا سکے۔ امجد ایڈوکیٹ کے بیان”گلگت میں وفاق کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں” کو عاصمہ جہانگیر سے جوڑ کر اس مقصد اور سوچ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی جس کے تحت بڑی "مشکلوں” سے عاصمہ جہانگیر کو بابا جان کیس کے لئے گلگت آنا پڑا تھا۔ خبروں میں یہ بات واضح کر دی جانے لگی کہ دراصل وہ بار ایسوسی ایشن سے ملنے آئیں تھیں اور وہاں پر بھی انہوں نے ایسی باتیں کیں جن سے خطے میں موجود محرومیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔
نام نہاد میڈیا پر سرمایہ دار ریاست کی اجارہ داری تو اب ایک واضح حقیقت بن چکا ہے مگر ذی شعور قومیں اس تمام پراپیگنڈے کو اپنی کوششوں سے ناکام بناتی ہیں، جس میں موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے گلگت بلتستان کا تنگ نظر قوم پرست حلقہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے خلاف ایسےزہر اگلنے لگا جیسے گلگت بلتستان کی آئینی خستہ حالی کی ذمہ دار پاکستانی ریاست نہیں بلکہ عاصمہ جہانگیر ہوں۔ عاصمہ جہانگیر کو عوامی ورکرز پارٹی سے جوڑ کر عوامی ورکرز پارٹی کے خلاف بھی زہر اگلا گیا۔سوشل میڈیا پر چھڑنے والے گرما گرم بحث میں تنگ نظر قوم پرستوں کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ پاکستان سے آنے والا ہر شخص اس ریاست کا دلال ہوتا ہے اور اس کا مقصدہماری محکومیت کو مزید وسعت دینا ہوتا ہے۔ میرا اعتراض یہاں شخصیتوں یا افراد پر نہیں ہے، بلکہ اس نظریے پر ہے جو آپ کو تمام دنیا سے افضل ماننے کی تربیت دیتا ہے اور ساتھ یہ بھی کی آپ کی محکومی کی ذمہ داری آپ پر مسلط شدہ ریاست کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے۔ ہم(سوشلسٹ یا اشتراکیت پسند) یہ کہتے ہیں کہ پنجاب، سندھ، پختونخواہ اور بلوچستان کے عام محنت کش عوام سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے، بلکہ ہم یہ تک کہتے ہیں کہ جس ریاست نے ہماری قومی تشخص کو مسخ رکھا ہے، جو ریاست ہم پر بزورِ شمشیر مسلط ہے اسی ریاست نے پاکستان کے چاروں صوبوں(آئینی) کے محنت کش اور غریب عوام پر بھی جبر کے بادل ڈھائے ہیں۔ پاکستان کے جغرافیائی حدود میں رہنے والے تمام لوگ ہم پر ہونے والے ظلم کے ذمے دار نہیں ہیں، بلکہ وہ بھی اسی ریاست کے مختلف مظالم کے شکار ہیں۔ اگر ہم خلاف ہیں تو اس ریاستی نظام کے، یہاں کی سول و ملٹری بیوروکریسی کے، جس نے ہندوستان سے اپنی دشمنی کی خاطر ہمیں ابھی تک قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے، ہماری دشمنی اس ریاست کے اس سرمایہ دار طبقے سے ہے کہ جو قانوناً ہمیں اپنا حصہ نہیں سمجھتے مگر اپنے وسیع تر مفاد (منافع) کی خاطر ہمارے وسائل کا بے دریغ لوٹ مار کر رہے ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جس نے منافع کی لالچ میں پاکستان کے آئینی صوبوں کے اندر بھی غریبوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
گلگت بلتستان کے قومی سوال کا حل اس تنگ نظر اور بوسیدہ قوم پرستی میں ہر گز نہیں، جس کا مظاہرہ آج کل سوشل میڈیا میں کچھ ویلے قسم کے سیاسی مفتی کر رہے ہیں۔ یہ وہ طرزِ سیاست ہے، جس نے پہلے تو لاشوں اور جیلوں کو کیش کیا، اور اب سامراجی ممالک سے آزادی کے پراجیکٹس لے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ہمارا قومی سوال ہمارے قابض ریاست کےاندر کے طبقاتی سوال سے جڑا ہوا ہے، جو اس مسلے کو طبقاتی سوال سے الگ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ہم بلوچ، پنجابی، سندھی، پشتون اور کشمیری محنت کش عوام سے نفرت نہیں کرتے، بلکہ ان کے ساتھ مل کر اس ریاستی نظام کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتے ہیں جس نے نہ صرف ہمیں، بلکہ ان تمام کو بھی مختلف شکلوں کی غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔
اس ساری صورت حال میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر واقعی کوئی لڑائی لڑنی ہے تو اس خطے کے تمام محنت کش طبقے نے مل کر اُس ایک فیصد سرمایہ دار طبقے کے خلاف لڑنی ہےجو ہم سب کا مشترکہ دشمن ہے، علٰحیدگی میں لڑی جان والی علٰحیدگی کی تحریکیں یا تو خطوں کو پتھر کے دور میں پہنچا دیتی ہیں یا پھر آزادی کے نام پر صرف اپنا آقا بدلتی ہیں، جیسا کہ بھگت سنگھ نے کہا تھا کہ ہمیں ایسی آزادی ہر گز نہیں چاہیئے جو ہمیں گورے سرکار کی غلامی سے نکال کر مقامی اشرافیہ کی چنگل میں پھنسا دے۔
صاحبِ تحریر نییشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن گلگت بلتستان، سندھ زون کے نائب صدر اور بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم ہیں۔
My Dear, You are Partially telling a lie, There is no case of Attaabad Effects on Baba Jan, But case of Pakistani Flag putting to fire. You must see an FIR before writing a column on subJduice matter. Asma Jahangir works for India, perheps she came here to make conspircy against CPEC.