کالمز

میرا یو۔ ایس ویزا اور فضائی حادثہ (دوسری قسط)

 تحریر: شمس الحق قمرؔ  بونی حال گلگت

ہمارا جہاز  ہواؤں اور بادلوں کو چیرتا ہوا  اپنی اُڑان کے مقررہ  بلندی تک پہنچنے کے بعدایک ہموار سطح بنا کر ناک کی سیدھ  پرواز کرنے لگا ۔ ہم بہت اُنچائی پر سفر کر رہے تھے۔ میں کھڑکی سے زمین کی طرف دیکھتے ہی خوف کے مارے  سامنے سے اخبار نکال کر  اپنے آپ کو محظوظ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔  اخبار اُٹھا تو لیتا لیکن سوچ  اپنی بے وقت موت پر ہی  جاتی تھی۔ عرصے سے میں اس اخبار کو پکڑ کے تک رہا تھا  ساتھ بیٹھے میرے بچے نے از راہ تفنن کہا ” بابا یہ اخبار کس زبان میں ہے“  جس اخبار  پر میری نظریں اٹکی ہوئی تھیں وہ  انگریزی یا اُردو اخبار نہیں تھا بلکہ کسی اور غیر ملکی زبان کا اخبار تھا  جو کہ میں خواہ مخواہ پڑھ رہا تھا۔

میں نے بچے سے کہا ”یہ کسی اور زبان کا اخبار ہے۔۔۔۔“  میری زبان حلق تک خشک ہو گئی۔  ناشتے کا دور چلا جہاز میں موجود سب لوگوں نے خوب سیر ہو کر ناشتہ کیا۔  میں بھی ناشتے میں زیادہ کھاتا ہوں، پیٹ بھر کے کھاتا ہوں بلکہ صبح کے وقت تو جوع البقر کا غلبہ ہوجاتا ہے لیکن اُس وقت کھانے کی اشتہا بالکل غارت ہو چکی تھی۔  میں اپنی موت کے بعد اپنی لاوارث لاش کے انجام کو دیکھ رہا تھا۔  مجھے پہلی دفعہ محسوس ہوا کہ وقت سر پر آجائے تو کوئی بھی رشتہ خود اپنی جان سے پیارا معلوم نہیں ہوتا ہے اپنی ہی جان کی فکر ہوتی ہے۔ اپنی مجموعی موت کا ایک ہی خیال تھا کہ  ہمارے بعد جو لوگ یا رشتہ دار پسماندہ  رہنے والے تھے  اُنہیں جب یہ پتہ چلے کہ ہمارے جہاز کو اچانک ایک ہولناک حادثہ پیش آیا اور جہاز میں موجود تمام مسافر ہلاک ہو گئے ، کچھ کی مسخ شدہ لاشیں ساحل سمندر  میں ملی ہیں لیکن  جہاز کے اندر جھلس جانے کی وجہ سے اُن کی پہچان مشکل ہے۔ بہت ممکن ہے کہ تمام مسخ شدہ لاشوں کو ساحل سمندر ہی دفنا دیا جائے۔۔۔۔  مجھے میرے  ماضی کے تمام کرتوت یاد آنے لگے، میں اپنے کئے تمام برے کاموں پر بہت نادم تھا۔ مجھے یکایک ایک عجیب خیال آیا  میں نے  تحت الشعور میں موجودہ ایم پی اے  سردار حسین کو کوسنا شروع کیا کہ میری اس ہیبت ناک انجام کار میں اُنہی کا ہاتھ ہے۔ کیوں کہ بچپن میں ہم چند دوست راتوں کو اکثر بیٹھا کرتے تھے سردار حسین ہمارا لیڈر تھا۔

اپنے گھروں سے خشک میوہ جات وغیرہ لے جاتے تھے اور رات کو بھوک لگنے پر کھاتے تھے اور گپیں ہانکتے تھے، سیگریٹ پیتے  اور ایک دفعہ ہم نے چرس کا مزا بھی چکھ لیا تھا ، چرس کے ایک دو کش لگانے کے بعد سردار حسین باد شاہ بنے اور ہم سب کو مخاطب کر کے حکم صادر فرمایا کہ کل سے ہم لوگ ان خشک میوہ جات پر  اکتفا  کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ  تم لوگ ایسا کرو کہ محلے داروں کی مرغیاں شام کے وقت پکڑ کے لایا کرو اور رات کو ہم گھر کی مرغیوں کا روسٹ کھایا کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پکڑنے کی ترکیب بھی بتا دی ۔ طریقہ یہ تھاکہ ہم مکئی  کے دانوں کو کسی دھاگے میں پروئیں اور کسی مرغی کی طرف بڑھائیں، ایک دو دانے نگلنے کے بعد دھاگے میں پروئے ہوئے دانے مرغی کے گلے میں جب  پھنس جائیں  تو دھاگے کو اپنی طرف آرام سے کھینچا     جائے اور مرغی ہاتھ میں آجائے۔۔۔۔ ہم نے  لبیک کہا اور مہینوں تک مرشد کے فرامیں کو مشعل راہ بنایا ۔

اس ترکیب سے پہلے ہم سب لاغرو ناتواں تھے لیکن سردار حسین کے نسخے کو آزمانے کے بعد ہم سب جازب نظر شخصیات میں بدل گئے۔ یوں محلے کی مرغیاں بھی ختم ہوئیں اور ہمارا سیزن بھی نکل گیا۔۔۔  جہاز کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے میں سوچتا رہا کہ شاید اُس بھونڈے فعل کی وجہ سے میرے ساتھ ڈراونا فضائی حادثہ پیش آنے والا ہے۔ پھر خیال آیا کہ اگر یہ اُن معصوم مرغیوں کی بے دریغ قتل کی وجہ سے پیش آرہا ہے تو ہمارا سرغنہ کیوں بچ نکلا ہے؟ وہ تو  ایم۔ پی۔ اے بن کے عیش و عشرت کی دنیا میں ہے جھوم رہا ہے؟  یہ سوچ کر مجھے اطمینان سا ہو گیا کہ جو فضائی حادثہ میرے ساتھ پیش آنے والا ہے اُس کی وجہ چوری کی مرغیاں نہیں ہیں بلکہ چوری کی مرغیوں کی وجہ سے مجھے موت کی جگہ سیاسی کرسی ملنی تھی۔  دفعتاًمیری نظر سامنے اسکرین پر گئی تو ہم سطح سمندر سے انتالیس ہزار فٹ کی بلندی  میں سفر رکر رہے تھے۔

انتالیس ہزار فٹ سے گرنے کے بعد لاش کے کسی ٹکڑے کا مل جانا معجزے سے کم نہ ہوگا لیکن یہ معجزہ میرے نصیب میں نہ تھا۔ میں نے انسان کی کمزوری، مختاری اور مجبوری پر سوچنے کے بعد اس نتیجے تک پہنچا کہ اگر میں ایک کیڑا پیدا ہوتا تو کتنا اچھا تھا۔ کیوں کہ سارے مسا ئل کی جڑ یہی اشرف المخلوقات ہے۔ میں نے خوب سوچنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بشر بننا ہی انسان کی کمزوری ہے۔ اسی عقل کو استعمال کرتے ہوئے ہم طرح طرح  کے اچھے اور بُرے کام کرتے ہیں۔ ہماری عبادت و بندگی، ہمارا خوف، ہمارے ایجادات یہاں تک کہ میرا امریکہ جانا بھی اسی خرد کی وجہ سے ہے۔۔۔  یااللہ میں نے تو ناشکری کی،اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنے کی کوشش کی کہ کہیں میری اس سوچ سے میرا رب ناراض تو نہیں ہواکہیں ایسا نہ ہو کہ میں یکدم سے کیڑا بن جاؤں۔۔۔۔ اُسی چڑیل نما ائر ہوسٹس نے دوبارہ اعلان کیا ” بسمل اللہ ارحمان  الرحیم ،خواتین و حضرات! ہم کیپٹن  خوش ہزار خان کی جانب سے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اِس وقت ہم اڑتالیس ہزار فٹ کی بلندی پر سفر کر رہے ہیں اس وقت فضا ئ میں درجہ حرارت نقطہ انجمات سے نیچے منفی بیس ڈگری ہے جبکہ جہاز کے اندر  بیس ڈگری سینٹی گریڈ اور زمیں پر چالیس ڈگری سنیٹی گریڈ ہے۔ موسم میں خرابی کی وجہ سے ہم آپ کو چائے اور مشروبات پیش نہیں کر سکے جس کے لئے ہم معافی چاہتے ہیں۔ آپ میں سے کسی کو اگر سانس لینے میں دِقت ہو رہی ہے تو وہ مسافر اپنے اوپر لٹکے  اکسیجن کے تھیلوں کو اپنے منھ  پر رکھیں،  بیلٹ مظبوطی سے باندھے رکھیے ، فضائی بھونچال، جھٹکوں اور ہچکولوں میں کسی کو اُلٹی آئے تو اپنی سیٹ کے سامنے تھیلوں کو استعمال کیجئے  افرا تفری نہ پھیلائیں شکریہ!“  اب آپ خود سوچئے کہ یہ میرے لئے کتنی خطر ناک بات تھی۔ میں نے کھڑکی سے ایک نظر نیچے جھانکنے کی کوشش کی تو ایک عجیب دنیا تھی، سفید رنگ کے اُجلے اون تا حد نگاہ پھیلے ہوئے تھے۔ دراصل ہم بادلوں  کے ُاوپر سے سفر رکر رہے تھے۔  ہمارا جہاز بے لگام گھوڑے کی طرح کبھی یکدم سے اوپر اُچھلتا اور پھر یکایک نیچے چلا جاتا۔

جب جہاز  اوپر اُٹھتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ سیکنڈوں میں ہم جہاز کی چھت پھاڑ کر اوپر نکلیں گے  اور جب جہاز نیچے جاتا تو میں سیٹ کو اپنے بازؤں کی پوری طاقت سے پکڑ لیتا اور ساتھ ساتھ منھ اور حلق سے عجیب و غریب آوازیں بھی نکلا کرتیں۔  ان ہچکولوں سے جو ایک فائدہ ہوا  وہ یہ تھا کہ میرے خشک نتھنو میں نہ ضرف نمی آئی تھی بلکہ ناک تھوڑی سی بہہ بھی گئی تھی۔  جہاز کی آواز میں ایک غیر معمولی تبدیلی آتی ہوئی معلوم ہوئی میں نے یہ سمجھ کر اپنے آپ کو تسلی دی کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے پائلیٹ کوئی بھاری گیر لگا رہا ہے لیکن جہاز کی آواز کبھی کڑکتی  اور کبھی بالکل خاموشی اختیار کر جاتی۔ میری سوچوں میں بلا کی تندی اور تیزی آئی تھی، شاید مرنے کے قریب یہی ہوتا ہے۔ میری زندگی کے پینتالیس سالوں پر محیط تمام لمحے ایک سیکنڈ میں میری آنکھوں کے سامنے سے انتہائی وضاحت کے ساتھ گزرتے گئے۔

ایک وقت میں مجھے یہ سوچ بھی دامن گیر رہی کہ شاید میں بہت پہلے کا مرا ہوا ہوں اور جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے یہ سب عالمِ، برزخ میں میرے ساتھ پیش آرہا ہے۔ میرے لئے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ میں عدم میں ہوں، خواب میں ہوں یا سب کچھ سچ مچ ہو رہا ہے۔  میں نے تصدیق کیلئے  فوراً اپنی بیوی سے پوچھا ”تم حبیبہ ہو نا“ بولے  ”جی ہاں“میں نے مزید تصدیق کے لئے پوچھا”تم میری بیوی ہو نا اور ہم اس وقت امریکہ جا رہے ہیں نا اپنے بھائی احسان  کے پاس“   غصے سے بولنے لگی ”نہیں ہم خواب دیکھ رہے ہیں اور خواب میں تم جہاز اُڑا  رہے “  میں دوبارہ اس مخمصے میں مبتلا ہوا کہ کیاواقعی یہ خواب ہے ؟   باتیں تو خواب کی تھیں لیکن واقعہ سچ تھا یعنی یہ خواب نہیں تھا ۔  اتنے میں جہاز کی پرواز میں ایک غیر متوقع تبدیلی آگئی ۔ ایسا لگا کہ جہاز ایک طرف جھک رہا ہے۔ جہاز اپنے داہنے پر کی جانب جھک رہا تھا جبکہ میں جہاز کے وزن کو بر قرار رکھنے کے لئے بائیں طرف زور لگا رہا تھا ۔ میرا بائیں بازو جہاز کی کھڑکی والے شیشے کے ساتھ  مظبوطی سے پیوست ہوا تھا اور میں مسلسل  بائیں جانب طاقت آزمائی کررہا تھا اور میرا بائیں بازو  زور اور دباؤ کی وجہ سے سن ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button