کالمز

بیان کرنے کے قابل وطن کا حال نہیں

1994ء میں پیر کرم علی شاہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے عہدے پر فائز ہوئے، گلگت بلتستان کے عوام کو امیدیں وابستہ ہوگئیں کہ اس علاقے میں ترقی کی رفتار تیز ہوگی، زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات میں بہتری آئیگی، پانی اور بجلی کا نظام درست ہوگا، روزگار کے نئے ذرائع اور مواقع پیدا ہوں گے،ایسا نہیں ہوسکا۔۔۔۔۔۔۔

البتہ ڈپٹی چیف، ان کی کابینہ کے مشیر اور دیگر چند درجن کے قریب لوگوں کا ’’لائف سٹائل‘‘ بدل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

1999ء میں نادرن ایریاز کونسل کو اپ گریڈ کرتے ہوئے نادرن ایریاز قانون ساز کونسل کا نام دیا گیا۔ فدا محمد ناشاد (تحریک جعفریہ) ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کا منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔۔۔۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور تحریک جعفریہ (اب کا لعدم) کی حکومت2004ء تک رہی اور پانچ سالہ مدت ختم ہونے کے بعد عوام نے جب پیچھے مڑ کر دیکھاتو مسائل کے انبار۔

1999ء والی پوزیشن پر برقرار تھے۔۔۔ ترقی صرف اتنی دیکھنے میں آئی تھی کہ چند بیوروکریٹس، کچھ ٹھیکیداروں اور سیاستدانوں کے پیٹ (توندیں) بڑے ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔

2004میں جنرل مشرف عرف ڈکٹیٹر کے چھتری تلے ’’ق‘‘ لیگ نے اکثریت حاصل کی۔۔۔۔۔ نامی گرامی سیاستدان (جن میں سے زیادہ تر نے اب ن لیگ کی چھتری تلے پناہ لے رکھی ہے) مشرف کے ہوگئے۔ میر غضنفر علی خان ڈپٹی چیف ایگزیکٹیو کے اہل قرار پائے، پانچ سال تک میر غضنفر علی خان اور ان کی کابینہ یا مشیروں نے حکومت کی، جمہوریت کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹنے والے مدت پوری کرکے چلتے بنے تو عوام نے اس دفعہ بھی وہی صورتحال دیکھی جو2004ء میں تھی، نہ بجلی، نہ پانی، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، میرٹ کا دھڑن تختہ، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، اس وقت کی کابینہ اور سیکریٹری تعمیرات عامہ (سابق) کرنل (ر) فضل حسین کی ملی بھگت سے ایک نیا تماشہ البتہ ضرور دیکھنے کو ملا اور تماشہ یہ تھا کہ بے تحاشا کرپشن، ٹھیکیداروں کے نام پر عجیب و غریب سی مخلوق گلگت بلتستان کے عوام پر مسلط کردی گئی اور اس مخلوق کو گلگت بلتستان کے عوام میر غضنفر علی خان ان کی کابینہ، پارٹی اور کرنل (ر) چوہدری فضل حسین کا تحفہ سمجھ کر بھگت رہی ہے اور مشرف کے ان قریبی ساتھیوں نے پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں کاغذی منصوبوں پر ادائیگیوں کا نظام متعارف کرایا۔۔۔۔۔

نومبر2009ء میں سیلف امپاورمنٹ اینڈ گورننس آرڈر کے تحت قانون ساز اسمبلی کیلئے انتخابات ہوئے، عوام نے جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا۔۔۔۔ اسمبلی وجود میں آگئی۔۔۔۔10دسمبر2009ء کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر سید مہدی شاہ جلوہ افروز ہوئے۔۔۔۔ اکثریت کی رائے یہی تھی کہ وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سید مہدی شاہ عوامی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں اس لئے اب محرومیوں کا ازالہ ہوگا، بجلی ، پانی، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کیلئے جنگی بنیادوں پر کام ہوگا، شومئی قسمت دیکھئے کہ سب سے زیادہ کرپشن پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی، اداروں کو تباہ کردیا گیا، میرٹ کا ستیاناس کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے ان غریب والدین کے حقوق پر ڈاکہ اور ان کے ارمانوں کا خون کیا گیا جنہوں نے مال، مویشی، گھر کے زیور بیچ کر اور خود محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلائی تھی، تمام سرکاری محکموں میں میرٹ پر پابندی لگادی گئی، پیسے لے کر بھرتیوں کا بازار گرم کردیا گیا، رشوت اور سفارش نے ان والدین کی کمر توڑ کرکے رکھ دی جو سفارش اور رشوت جیسے الفاظ سے ناآشنا تھے۔۔۔۔۔۔ اس دفعہ بھی ٹھیکے بیچے گئے۔۔۔۔۔۔10دسمبر2014ء کو مہدی شاہ اور ان کی کابینہ رخصت ہوگئی، جو10دسمبر2009ء کو خالی ہاتھ آئے تھے ، اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوتے وقت کروڑوں کے مالک تھے۔۔۔۔۔۔ عوام اس دفعہ بھی ہاتھ ملتے رہ گئی، پانی اور بجلی کا نام و نشان نہ تھا، سڑکوں کی حالت1994ء سے بھی بدتر تھی۔۔۔۔۔۔۔

8جون2015ء کو ایک مرتبہ پھر انتخابات کا عمل مکمل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دفعہ تبدیلی کا عمل ناقابل یقین تھا، عوام نے یکطرفہ فیصلہ سنادیا۔۔۔۔۔2009ء کے انتخابات میں2سیٹیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن 16نشستیں جبکہ2009ء کے انتخابات میں11ممبران کے ساتھ حکومت بنانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی صرف ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔۔۔۔

26جون2016ء کو پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ایک سال کا عرصہ مکمل ہوچکی ہے۔ اب تک پانی، بجلی، تعلیم اور صحت کے شعبے میں صورتحال مجموعی طور پر 1994ء والی صورتحال پر برقرار ہے۔۔۔۔۔

آخر ان سیاستدانوں کو کیا مسئلہ درپیش ہے۔۔۔۔۔ ووٹ لینے کے بعد ان کے گردنوں میں ’’سریا‘‘ کیوں آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔ عوامی مسائل کے حل کا دعویٰ کرتے ہیں اور سب کچھ ملیا میٹ کرکے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔

1994ء سے2016ء تک کی کہانی مختصر الفاظ میں آپ تک پہنچائی،22سال کے عرصے میں کہیں کوئی بہتری نظر آئی ہے تو مجھے بھی آگاہ کیجئے گا، میں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا وہ بیان کردیا ہے۔۔۔۔ ایک اور بات آپ تک پہنچانا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ1994ء سے2016ء تک صرف ترقیاتی سکیموں کی مد میں وفاق نے گلگت بلتستان کو60ارب کے قریب فنڈز مہیا کئے ہیں، پیرکرم علی شاہ، فدا محمد ناشاد،میر غضنفر علی خان، مہدی شاہ اور اب حافظ حفیظ الرحمن دل پر ہاتھ رکھ کر عوام کو بتائیں کہ 60ارب روپے کا40واں حصہ بھی انہوں نے گلگت بلتستان کی ترقی پر خرچ کرنے کی زحمت گوارا کی ہے؟ میرے خیال میں نہیں کی ہے، یہی وجہ ہے کہ چند سیاستدانوں، چند بیوروکریٹس اور چند ٹھیکیداروں کے کچے مکان محلات کا روپ دھار چکے ہیں اور گلگت بلتستان کے عوام اپنے بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں۔۔۔۔

جمشید خان دکھی کے اشعارت کے ساتھ اجازت۔

بیان کرنے کے قابل وطن کا حال نہیں
ملال یہ ہے کسی کو کوئی ملال نہیں
یہاں اذان جو دے دیں تو شام ہوتی ہے
امید صبح ہو کیسے کوئی بلال نہیں
عظیم لوگ تو جیتے ہیں دوسروں کیلئے
یہ اپنے واسطے جینا کوئی کمال نہیں
چمن کا حسن ہمارا ہے بے مثال مگر
منافرت میں بھی اپنی کوئی مثال نہیں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button