کالمز
وادی یاسین —— چھٹی قسط

تحریر: جاوید احمد ساجد
(گزشتہ سے پیوست)
دریا: دریائے یسن کے دو بڑے اور کئی چھوٹے معاون دریا ہیں جن میں دریاسلگا نو غ اوردریا تھوئی جس کو تھیوغ کہا جاتا ہے دو بڑے دریا ہیں اور کئی چھوٹے چھوٹے ندی نالے جن میں چھیرگلوغ، اسمبروغ، نوسلوغ (دریائے نازبر) وغیرہ اس میں شامل ہوکر دریائے یاسین بناکر سلی ہرنگ کے مقام پر دریاے گوپس میں جاملتاہے۔جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ یاسین کا علاقہ سیلی ہرنگ سے شروع ہوکر ایک طرف قدم آباد تھوئی دوسری طرف درکوت تیسری طرف قرقلتی جا کر ختم ہوتا ہے اور چوتھا حصہ ناز بر کے آخر تک جاتا ہے تو اسکے درمیان میں تقریباََ ۸۵گاوں آباد ہیں ۔ اس طرح تقریباََ ۸۰ مختلف قبائل یعنی قومیں آباد ہیں۔
زبانیں:: یاسین میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور یہاں کی قومی زبان بروشاسکی ہے اس کے بعد ملگوشاسکی یعنی کھوارہے اسکے علاوہ کھیلکوار، گوجروار، الغانیوار(پوشتو) گو ہی چاسکی(وخی) اور شینا زبان ، ترکی بھی بولی جاتی ہے اور کچھ لوگ نگر اور ہنزہ والی بروشسکی بھی بولتے ہیں
مشہور قلعے یا کھنڈرات:
نمبر ۱۔ ڈورکھن:
یہ قلعہ زیادہ تر خاندان کٹوریہ اور خوشوقتیہ کی ملکیت رہا ہے اور اب بھی اسکی کچھ بقایا جات راجہ غلام دستگیر ( گوہر آمان ) کے پوتو ں کے پاس ہے ۔ مقامی زبان میں اگر کوئی بڑا پرانا درخت جس کا تنا اندر سے اگر زیادہ بوڑھا ہو نے کی وجہ سے کھوکھلا ہو چکا ہو تو ڈور کہا جاتا ہے اسی طرح ڈور کھن قلعے کے جگہ کہا جاتاہے کہ ایک بہت بڑا اخروٹ کا درخت اندر سے کھو کھلا تھا تو اس درخت کے تنے کے اندر ایک مشاہداتی چوکی بنا یا گیا تھا اور راجے کے باڑی گارڈ یا کوئی سنتری وہاں رہ کر آنے جانے والوں پر نظر رکھتے تھے بعد میں بادشا تھم نے اس درخت کو کٹوا کر یہاں ایک قلعہ یعنی کھن تعمیر کر وایا تو یہ قلعہ یا کھن ڈور کھن کے نام سے مشہور ہوا
نمبر۲۔ چومرکھن:
اس قلعہ کے کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور اس میں جدید طرز کے مکان بنا کر راجہ میربا ز خان کی اولاد بستی ہے اور راجہ ابراھیم اور راجہ اسماعیل اور ان کی اولاد یہاں پر آباد ہیں ۔
نمبر۳۔بہری کھن:
اس قلعے کے بارے میں کہا جاتاہے کہ قلمق (چائنہ )کے فوج نے تعمیر کیا تھا اور یہ بھی مشہور ہے اس کے سردار کو سلطان آباد (ہویلتی) کے مقام پر قوم بسپائے کے دادا تغزی کوچک نے قتل کیا تھا جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ گھوڑ ے سے تیز دوڑسکتا تھا اور یہ کہ اسکے گٹھنوں کے اوپر والا گول ہڈی نہیں تھا اس لئے وہ انتہائی تیز دوڑتا تھا اور ایک بہادر اور زبر دست تیر انداز بھی تھا۔اور یہ بھی کہا جاتاہے کہ قلمق کے لشکر نے زبر دستی مقامی لوگوں کو بھی ساتھ لیا اور یہ لشکر اتنی زیادہ تعداد میں تھا کہ فی کس ایک ہاتھ میں پتھر اور دوسرے ہاتھ میں گارا لے کر دیوار پر رکھتے گئے تو یہ چار دیواری مکمل ہوا۔ اس بارے میں ایک واقع مشہور ہے کہ مقامی لوگ بھی اس قلعے کی بنانے میں زبردستی شامل کیے گئے تھے تو تھوئی سے ایک بندے نے ایک بہت بڑا پتھر جو چار کونہ تھا ایک اونی کمبل جس کو مقامی زبان میں بور کہا جاتا تھا میں لپیٹ کر اشکئی بر آ گیا تو طاوس سے تھوئی کے کچھ لوگ واپس تھوئی جاتے ہوے اس بندے سے ملے اور پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو تو اس بندے نے کہا ک قلعہ میں کام کے لئے نکلا ہوں اور یہ کہ ایک خوبصورت پتھر بھی لایا ہوں تو ان لوگوں نے کہا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی قلعہ بن گیا تو اس بندے نے اس صندوق نما پتھر کو راستے کے ساتھ ایک بڑے پتھر کے اوپر رکھا اور اسے بڑا افسوس ہو کہ اتنا اچھا پتھر تھا قلعہ میں کام نہ آسکا، اور یہ پتھر اتنا بڑا تھا کہ بعد میں جب کسی شرارتی لڑکے نے اس پتھر کو نیچے گرایا تو چھ طاقتور نوجوانوں نے بہت مشکل سے اس پتھر کو ، گھسیٹ کر اس پتھر کے اوپر نکالا جس پر اسے رکھا گیا تھا ۔ اس بات سے اس پرانے زمانے کے لوگوں کی طات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح طاقت ور لوگ تھے۔
نمبر۴۔ بلوشونگ یا کو چو شًونگ ( نوہ غرو):
کہتے ہیں کہ یہ قلعہ نوہ گاوں کے نزدیک تھا آج کل وہاں ہر طرف پتھر ہی پتھر ہیں اور کچھ دیواروں کی نشانات بھی ہیں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑے پرہیز گار قسم کا راجہ تھا اور دشمن نے جب اس کے فوج کو شکست دیا تو اس نے اللہ سے دعا مانگی اور اللہ نے اس کی دعا قبول کر کے اس کو ، اس کی بیوی کو اور ساز و سامان سب کو پتھر بنا یا اور اب بھی اس جگہ کچھ عجیب سی نشانات ہیں یعنی دریا کے بیج میں ایک پتھر گھوڑے کی زین کی شکل کا ہے ایک کرسی کی شکل کا اور ایک چیدین (دیگچا) کی شکل کاہے اسی طرح دو او رپتھر ہیں جنکو کہا جاتا ہے کہ راجہ اور انی ہیں اس طر ح کچھ اور پتھر سازندوں کے اوزار سے مطلق بتایا جاتاہے۔اور لفظ بلوشونگ بھی شاید کھوار کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے لشکر کا نالہ ، بل یا بول کھوار میں لشکر کو اور شونگ نالہ کو کہتے ہیں۔
نمبر۵ قوقوہر:(تیلی تی تھم نامی راجہ کا قلعہ تھا)
کہا جاتا ہے یاسین میں ماہ جنوری کو تھمبوکوس یعنی راجہ کی رسم پلانٹیشن یعنی(جشن بہاراں) تھمو بو جو کہ اردومیں تخم ریزی کہا جاتا ہے چونکہ آعایش تھم نامی راجہ ڈور کھن میں تھا اس کی بیٹی آعایش بوبولی گاس کی رشتہ تیلی تی تھم نے مانگا تو پہلے آیش تھم نے انکار کیا پھر بعد میں اپنے وزیروں اور دوسرے معتبران سے مشورہ کے بعد تیلی تی تھم کو پیغام بھیجاکہ تھمو بو یعنی راجوں کی رسم تخم ریزی یعنی مارچ کے مہینے میں رشتہ طے کریں گے تو تیلی تی تھم جو کہ آعایش بوبو لی گاس کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا تھا تو تھمو بو یعنی مارچ کے مہینے تک انتظار نہیں کر سکااور جنوری میں ہی رسم تخم ریزی ادا کیا تو جنور ی کو تھم بوکوس یعنی راجوں کی رسم تخم ریزی کا مہینہ کہنے لگے اور ایک ضرب المثل کی قسم کا گانہ بھی گایا گیا جو کہ بعد میں چند سال قبل تک بھی گایا جاتا تھا ) جو کہ اس طرح کا ہے
(ا) تیلی تی تھمے بو ینیمی ۔آیش تھم بو غایا دوسیمی۔ آیش بوبولیگاسے غندیشے ہش نل نیا اسکل چھے دی یمو
ہرہ ذل مایاغا غندش کا بری شولیمی ۔سلہ ذل مایا غا پھلے پھلو شو لیمی۔ غندیشے چھیرش سرکیمی۔ پھلے سم سرکی می۔ ہن پھل چم تھہ پھل۔ تھہ پھلو چم
تھہ تغر پھلو۔ خوشانی غا گومن، گھر مینسا گومن۔ سیلہ گوچھہ ہیرہ گوچھہ سلہ قوٹی ملہ قوٹی ہیماز
(ب) ہیرے تلتر چھومرے، حرے ایشپٹ چھومرے، حرے مدور ہیر ، ہیرے مدور گُس، گُس مو مدور حشتک حورپ، گُس مو موسکل تھُس، مو یٹیس یٹے چھشے بھُس، سلہ قوٹی ملہ قوٹی ہیماز۔
(پ)شروٹم ہیرن دیمی، یک بے یک ؟مغل بریسنگ، یہ یک بے یک ؟ مدور بریسنگ۔ یٹس بے رومِس ؟حوچھ یانِس، اسکل بے رومت
؟ درچھ یانس، موش بے رومس ؟ برتنز یانس۔ تائنگ بے رچو؟ ہر غاس یانو کو، ایلچی مو بے ر چو ؟ جٹی مو یا نو کو، سلہ قوٹی ملہ قوٹی ہیماز
نمبر۶۔ترُمُٹ کھن یٹے: اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سوملک کا قلعہ رہ چکا ہے۔
نمبر۷۔موڈوری :
یہ وہ قلعہ ہے جہاں میر ولی کی راجگی میں ڈوگرہ فوج نے یاسین والوں کو نہایت ہی بے دردی سے قتل کیا اور اس مشہور قلعے کا اینٹ سے اینٹ بجایا گیا اس قلعے کی خوبی یہ تھی کہ یہ ایک اونچے پہاڑی یا اونچے ٹیلے پر واقعہ تھا اور سب سے بہترین امر یہ تھا کہ اس قلعے کیلئے پانی کی رسد کیلئے ایک خو فیہ راستے سے یعنی اُس اونچائی سے قلعے کے اندر سے ایک سرنگ کھود کر نالہ قرقلتی کے ندی ( چھیر گولوغ ) سے ملایا گیا تھا اور یہ راستہ سوائے قلعے کی مکینوں کے اور کسی دوسرے فرد کو معلوم نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ مڑوری کی لڑائی میں اندر سے ہی مخبری کی وجہ سے اس سرنگ پر ڈوگروں نے قبضہ جما کر اہل یاسین کا پانی بند کیا اور بلاخر شکست کا باعث بنا ۔
نمبر۸۔تھما رائے: ( اس قلعے کے حکمران کے بارے میں مشہور زمانہ نمبردار بلبل خان کا کہنا تھا کہ اس قلعے میں جو راجہ حکومت کررھا تھا وہ بھی شیری بدت کی طرح چھوٹے بچوں کو کھاتا تھا اس لیئے اس قلعے کا نام تھمے رائے یعنی راجے کی مر ضی پڑگیا تھااور اسی سے اگے چل کر تھما رائے بن گیااور مشہور ہے کہ اس راجے کے اپنے کھودوائے ہو ے خندق میں اس راجے کو زندہ درگور کیا گیا( لپ نید ل اسقانومان)وللہ عالم بصواب۔ کہا جاتا ہے کہ جب اس راجہ نے بہت بڑا خندق اپنے قلعہ کے ارد گرد کھدوایا اورجب تیار ہوا تو لوگوں سے پوچھا کہ ، اگر کوئی اس میں گر جائے تو کیا خیال ہے واپس نکل سکے گا تو کسی منچلے نے مشورہ دیا کہ حضور خود اگر اس میں اتر کر دیکھ لیں تو زیادہ مناسب ہو اگا اور راجہ نے ایک بہت بڑا سیڑھی کے ذریعے اس میں اتر گیا تو سیڑھی ہٹایا گیا اور اوپر سے مٹی ، گارا اور پتھر اس کے اوپر پھینک پھنک کر زندہ درگور کر دیا گیا اور دوسرا مقولہ ہے کہ اس نے سوکھے کانٹوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا تھا ااور کبھی کبھی اس ذخیرے پر چڑ ھ کر دور تک نظارہ کیا کرتا تھاایک تیز ہو چل رہی تھی تو راجہ اوپر چڑھ گیا تو کسی نے آگ لگا دی اور تیز ہو ا کی وجہ سے یہ خشک سٹاک یک دم آگ کی لپیٹ میں آگیا اور راجہ کود بھی نہ سکا اور جل کر مر گیا معلوم نہیں یہ سینہ بہ سینہ کی کہانی کہاں تک درست ہے
