دریا: دریائے یسن کے دو بڑے اور کئی چھوٹے معاون دریا ہیں جن میں دریاسلگا نو غ اوردریا تھوئی جس کو تھیوغ کہا جاتا ہے دو بڑے دریا ہیں اور کئی چھوٹے چھوٹے ندی نالے جن میں چھیرگلوغ، اسمبروغ، نوسلوغ (دریائے نازبر) وغیرہ اس میں شامل ہوکر دریائے یاسین بناکر سلی ہرنگ کے مقام پر دریاے گوپس میں جاملتاہے۔جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ یاسین کا علاقہ سیلی ہرنگ سے شروع ہوکر ایک طرف قدم آباد تھوئی دوسری طرف درکوت تیسری طرف قرقلتی جا کر ختم ہوتا ہے اور چوتھا حصہ ناز بر کے آخر تک جاتا ہے تو اسکے درمیان میں تقریباََ ۸۵گاوں آباد ہیں ۔ اس طرح تقریباََ ۸۰ مختلف قبائل یعنی قومیں آباد ہیں۔
زبانیں:: یاسین میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور یہاں کی قومی زبان بروشاسکی ہے اس کے بعد ملگوشاسکی یعنی کھوارہے اسکے علاوہ کھیلکوار، گوجروار، الغانیوار(پوشتو) گو ہی چاسکی(وخی) اور شینا زبان ، ترکی بھی بولی جاتی ہے اور کچھ لوگ نگر اور ہنزہ والی بروشسکی بھی بولتے ہیں
مشہور قلعے یا کھنڈرات:
نمبر ۱۔ ڈورکھن:
یہ قلعہ زیادہ تر خاندان کٹوریہ اور خوشوقتیہ کی ملکیت رہا ہے اور اب بھی اسکی کچھ بقایا جات راجہ غلام دستگیر ( گوہر آمان ) کے پوتو ں کے پاس ہے ۔ مقامی زبان میں اگر کوئی بڑا پرانا درخت جس کا تنا اندر سے اگر زیادہ بوڑھا ہو نے کی وجہ سے کھوکھلا ہو چکا ہو تو ڈور کہا جاتا ہے اسی طرح ڈور کھن قلعے کے جگہ کہا جاتاہے کہ ایک بہت بڑا اخروٹ کا درخت اندر سے کھو کھلا تھا تو اس درخت کے تنے کے اندر ایک مشاہداتی چوکی بنا یا گیا تھا اور راجے کے باڑی گارڈ یا کوئی سنتری وہاں رہ کر آنے جانے والوں پر نظر رکھتے تھے بعد میں بادشا تھم نے اس درخت کو کٹوا کر یہاں ایک قلعہ یعنی کھن تعمیر کر وایا تو یہ قلعہ یا کھن ڈور کھن کے نام سے مشہور ہوا
نمبر۲۔ چومرکھن:
اس قلعہ کے کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور اس میں جدید طرز کے مکان بنا کر راجہ میربا ز خان کی اولاد بستی ہے اور راجہ ابراھیم اور راجہ اسماعیل اور ان کی اولاد یہاں پر آباد ہیں ۔
نمبر۳۔بہری کھن:
اس قلعے کے بارے میں کہا جاتاہے کہ قلمق (چائنہ )کے فوج نے تعمیر کیا تھا اور یہ بھی مشہور ہے اس کے سردار کو سلطان آباد (ہویلتی) کے مقام پر قوم بسپائے کے دادا تغزی کوچک نے قتل کیا تھا جس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ گھوڑ ے سے تیز دوڑسکتا تھا اور یہ کہ اسکے گٹھنوں کے اوپر والا گول ہڈی نہیں تھا اس لئے وہ انتہائی تیز دوڑتا تھا اور ایک بہادر اور زبر دست تیر انداز بھی تھا۔اور یہ بھی کہا جاتاہے کہ قلمق کے لشکر نے زبر دستی مقامی لوگوں کو بھی ساتھ لیا اور یہ لشکر اتنی زیادہ تعداد میں تھا کہ فی کس ایک ہاتھ میں پتھر اور دوسرے ہاتھ میں گارا لے کر دیوار پر رکھتے گئے تو یہ چار دیواری مکمل ہوا۔ اس بارے میں ایک واقع مشہور ہے کہ مقامی لوگ بھی اس قلعے کی بنانے میں زبردستی شامل کیے گئے تھے تو تھوئی سے ایک بندے نے ایک بہت بڑا پتھر جو چار کونہ تھا ایک اونی کمبل جس کو مقامی زبان میں بور کہا جاتا تھا میں لپیٹ کر اشکئی بر آ گیا تو طاوس سے تھوئی کے کچھ لوگ واپس تھوئی جاتے ہوے اس بندے سے ملے اور پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو تو اس بندے نے کہا ک قلعہ میں کام کے لئے نکلا ہوں اور یہ کہ ایک خوبصورت پتھر بھی لایا ہوں تو ان لوگوں نے کہا کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی قلعہ بن گیا تو اس بندے نے اس صندوق نما پتھر کو راستے کے ساتھ ایک بڑے پتھر کے اوپر رکھا اور اسے بڑا افسوس ہو کہ اتنا اچھا پتھر تھا قلعہ میں کام نہ آسکا، اور یہ پتھر اتنا بڑا تھا کہ بعد میں جب کسی شرارتی لڑکے نے اس پتھر کو نیچے گرایا تو چھ طاقتور نوجوانوں نے بہت مشکل سے اس پتھر کو ، گھسیٹ کر اس پتھر کے اوپر نکالا جس پر اسے رکھا گیا تھا ۔ اس بات سے اس پرانے زمانے کے لوگوں کی طات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح طاقت ور لوگ تھے۔
نمبر۴۔ بلوشونگ یا کو چو شًونگ ( نوہ غرو):
کہتے ہیں کہ یہ قلعہ نوہ گاوں کے نزدیک تھا آج کل وہاں ہر طرف پتھر ہی پتھر ہیں اور کچھ دیواروں کی نشانات بھی ہیں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑے پرہیز گار قسم کا راجہ تھا اور دشمن نے جب اس کے فوج کو شکست دیا تو اس نے اللہ سے دعا مانگی اور اللہ نے اس کی دعا قبول کر کے اس کو ، اس کی بیوی کو اور ساز و سامان سب کو پتھر بنا یا اور اب بھی اس جگہ کچھ عجیب سی نشانات ہیں یعنی دریا کے بیج میں ایک پتھر گھوڑے کی زین کی شکل کا ہے ایک کرسی کی شکل کا اور ایک چیدین (دیگچا) کی شکل کاہے اسی طرح دو او رپتھر ہیں جنکو کہا جاتا ہے کہ راجہ اور انی ہیں اس طر ح کچھ اور پتھر سازندوں کے اوزار سے مطلق بتایا جاتاہے۔اور لفظ بلوشونگ بھی شاید کھوار کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے لشکر کا نالہ ، بل یا بول کھوار میں لشکر کو اور شونگ نالہ کو کہتے ہیں۔
نمبر۵ قوقوہر:(تیلی تی تھم نامی راجہ کا قلعہ تھا)
کہا جاتا ہے یاسین میں ماہ جنوری کو تھمبوکوس یعنی راجہ کی رسم پلانٹیشن یعنی(جشن بہاراں) تھمو بو جو کہ اردومیں تخم ریزی کہا جاتا ہے چونکہ آعایش تھم نامی راجہ ڈور کھن میں تھا اس کی بیٹی آعایش بوبولی گاس کی رشتہ تیلی تی تھم نے مانگا تو پہلے آیش تھم نے انکار کیا پھر بعد میں اپنے وزیروں اور دوسرے معتبران سے مشورہ کے بعد تیلی تی تھم کو پیغام بھیجاکہ تھمو بو یعنی راجوں کی رسم تخم ریزی یعنی مارچ کے مہینے میں رشتہ طے کریں گے تو تیلی تی تھم جو کہ آعایش بوبو لی گاس کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گیا تھا تو تھمو بو یعنی مارچ کے مہینے تک انتظار نہیں کر سکااور جنوری میں ہی رسم تخم ریزی ادا کیا تو جنور ی کو تھم بوکوس یعنی راجوں کی رسم تخم ریزی کا مہینہ کہنے لگے اور ایک ضرب المثل کی قسم کا گانہ بھی گایا گیا جو کہ بعد میں چند سال قبل تک بھی گایا جاتا تھا ) جو کہ اس طرح کا ہے
(ا) تیلی تی تھمے بو ینیمی ۔آیش تھم بو غایا دوسیمی۔ آیش بوبولیگاسے غندیشے ہش نل نیا اسکل چھے دی یمو
(پ)شروٹم ہیرن دیمی، یک بے یک ؟مغل بریسنگ، یہ یک بے یک ؟ مدور بریسنگ۔ یٹس بے رومِس ؟حوچھ یانِس، اسکل بے رومت
؟ درچھ یانس، موش بے رومس ؟ برتنز یانس۔ تائنگ بے رچو؟ ہر غاس یانو کو، ایلچی مو بے ر چو ؟ جٹی مو یا نو کو، سلہ قوٹی ملہ قوٹی ہیماز
نمبر۶۔ترُمُٹ کھن یٹے: اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سوملک کا قلعہ رہ چکا ہے۔
نمبر۷۔موڈوری :
یہ وہ قلعہ ہے جہاں میر ولی کی راجگی میں ڈوگرہ فوج نے یاسین والوں کو نہایت ہی بے دردی سے قتل کیا اور اس مشہور قلعے کا اینٹ سے اینٹ بجایا گیا اس قلعے کی خوبی یہ تھی کہ یہ ایک اونچے پہاڑی یا اونچے ٹیلے پر واقعہ تھا اور سب سے بہترین امر یہ تھا کہ اس قلعے کیلئے پانی کی رسد کیلئے ایک خو فیہ راستے سے یعنی اُس اونچائی سے قلعے کے اندر سے ایک سرنگ کھود کر نالہ قرقلتی کے ندی ( چھیر گولوغ ) سے ملایا گیا تھا اور یہ راستہ سوائے قلعے کی مکینوں کے اور کسی دوسرے فرد کو معلوم نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ مڑوری کی لڑائی میں اندر سے ہی مخبری کی وجہ سے اس سرنگ پر ڈوگروں نے قبضہ جما کر اہل یاسین کا پانی بند کیا اور بلاخر شکست کا باعث بنا ۔
نمبر۸۔تھما رائے: ( اس قلعے کے حکمران کے بارے میں مشہور زمانہ نمبردار بلبل خان کا کہنا تھا کہ اس قلعے میں جو راجہ حکومت کررھا تھا وہ بھی شیری بدت کی طرح چھوٹے بچوں کو کھاتا تھا اس لیئے اس قلعے کا نام تھمے رائے یعنی راجے کی مر ضی پڑگیا تھااور اسی سے اگے چل کر تھما رائے بن گیااور مشہور ہے کہ اس راجے کے اپنے کھودوائے ہو ے خندق میں اس راجے کو زندہ درگور کیا گیا( لپ نید ل اسقانومان)وللہ عالم بصواب۔ کہا جاتا ہے کہ جب اس راجہ نے بہت بڑا خندق اپنے قلعہ کے ارد گرد کھدوایا اورجب تیار ہوا تو لوگوں سے پوچھا کہ ، اگر کوئی اس میں گر جائے تو کیا خیال ہے واپس نکل سکے گا تو کسی منچلے نے مشورہ دیا کہ حضور خود اگر اس میں اتر کر دیکھ لیں تو زیادہ مناسب ہو اگا اور راجہ نے ایک بہت بڑا سیڑھی کے ذریعے اس میں اتر گیا تو سیڑھی ہٹایا گیا اور اوپر سے مٹی ، گارا اور پتھر اس کے اوپر پھینک پھنک کر زندہ درگور کر دیا گیا اور دوسرا مقولہ ہے کہ اس نے سوکھے کانٹوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا تھا ااور کبھی کبھی اس ذخیرے پر چڑ ھ کر دور تک نظارہ کیا کرتا تھاایک تیز ہو چل رہی تھی تو راجہ اوپر چڑھ گیا تو کسی نے آگ لگا دی اور تیز ہو ا کی وجہ سے یہ خشک سٹاک یک دم آگ کی لپیٹ میں آگیا اور راجہ کود بھی نہ سکا اور جل کر مر گیا معلوم نہیں یہ سینہ بہ سینہ کی کہانی کہاں تک درست ہے
نمبر ۹۔ہلبی تنگے دھ (اس کو قلمق یا المق کا کھن یعنی قلعہ کہا جا تاہے) ، اور بعض لوگ اس کو قر غز کا قلعہ یعنی کھن کہا جاتاہے۔
نمبر۱۰۔ برکولتی کھن یٹے:یہ راجہ میر ولی کا کھن کہلاتاہے کہا جاتاہے کہ راجہ میر ولی نے قلعہ کی دیواریں اونچی کر نے کے علاوہ اسکے ایک طرف تو دریا تھی مگر دوسری طرف خندق کھدویا اور کہا کہ اب تو دشمن کی پہنچ نہیں ہو گی اور کوئی اس قلعے تک رسائی حاصل نہیں کر سکے گا اور وہاں پر موجود ایک اللہ لوک فقیر سے یہ بات جب متکبرانہ انداز میں پو چھا تو اس فقیر شخص نے جواب دیا کہ اگر اوپر ( یعنی آسمان)سے آگیاتو کیا کروگے اس بات پر میر ولی سیخ پا ہوا اور حکم دیا کہ اس فقیر کے دونوں ہا تھ پیٹھ پر باندھ کر درہ ویخان یعنی در کوت کے درہ سے پار کیا جائے اور اللہ کی قدرت دیکھیے کہ ابھی شاید وہ فقیر بروغل بھی نہیں پہنچ سکا تھا کہ راجہ پہلوان بھادر نے فوج کشی کر کے اسی درے کے راستے میر ولی کو بھی بھاگنے پر مجبور کیا اور بروغل میں کہیں میر ولی اور اس فقیر کا مڈ بھیڈ ہو ا تو میر ولی شر مندگی سے معافی بھی نہیں مانگ سکا ۔
نمبر ۱۱۔ تھوئی کھن یٹے : یہ ابھی معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ کس تھم کا کھن ہے
نمبر ۱۲۔ سوملوکے کھن ہندور: صحیح صورت حال کیا ہے اللہ بہتر جانتاہے ابھی تحقیق کر نا باقی ہے لیکن غیر مصدقہ معلومات کے مطابقیہ سوملک کا قلعہ بتایا جاتاہے لیکن بعض لوگ ناز بر کے راستے میں جو جگہ کھن یٹے کہلاتاہے وہاں پر سو ملک کا کھن یا قلعہ بتاتے ہیں ۔
نمبر ۱۳۔ بادشا تھمے کھن تھوئی حرپو: تھوئی حرپو گاوں میں ایک چھو ٹے سے قلعے کے اثرات یا کھنڈ رات پائے جاتے ہی کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ بادشا ہ تھم کا قلعہ تھا یہ بھی قابل تحقیق ہے اس جگہ کو کھنے بٹا ئنگ حرپو کہا جاتا ہے۔
نمبر۱۴۔ ڈوڈول تھم کا کھن : ( ڈوڈول ، راجہ کا نام تھا تو اس قلعے کو بھی اسی نام پکارہ جاتا تھا) برکولتی شوارن یعنی پولو کے میدان کے ساتھ ساتھ یہ قلعہ تھا مگر اب کھنڈرات بھی نہیں ۔کہتے ہیں کہ یہ بادشا تھم کا بیٹا تھا۔ ہندور میں بھی ایک قلعہ تھا یہ بھی سوملک کا تھا۔
مندرجہ بالا وہ مقامات ہیں جہاں پرانے وقتوں میں مختلف راجو ں کے قلعے تھے لیکن مو جو دہ حالات میں ان میں سے کسی کی بھی حالت درست نہیں کہ کہا جائے کہ یہاں قلعہ تھا مگر ڈورکھن کے کھڈرات سے پتہ چلتاہے کہ یہ قلعہ رہ چکاہے اور چومرکھن اور بہری کھن کے مقام پر موجودہ حالات میں بلترتیب میرباز خان اور محبوب ولی خان کی اولاد بستی ہیں شاید کھڈرات ان کی آبا دی کے اندر آئے ہوں (وللہ عالم باصواب) لیکن باقی کے اثرات بھی آہستہ آہستہ معدوم ہو رہے ہیں لیکن ان تاریخی مقامات کی کوئی پرسان حال کر نے والا نہیں ۔
تاریخی مقامات:
جڑاؤملک، جوکہ سلطان آباد گاوں کے پہاڑوں کے چوٹی پر ایک بہت گہراکھائی یا غارکہا جائے جس میں حکمران انتہائی قسم کی سزا کے طورپر قیدیوں کو ڈالتے تھے جو کہ شایداسکے اندر ہی مر کھپتے ہوں گے۔
چرے کو ٹو: ( مشا ہداتی چو کی) جڑا و ملک کے بالکل نزدیک ہی ایک مکان نما مورچہ ہے جسے بر وشاسکی میں( چرے کو ٹو) کہتے ہیں یعنی مشا ہداتی چو کی ہے اس میں سنتری ہو تا تھا بیرونی حملہ آوروں کی اطلاع دینے کیلیے آگ جلا کر دھواں دیا جاتا تھا جس سے یاسین کے پورے علاقوں میں خطرے کی گھنٹی بجتی تھی اور لوگ بیرونی حملہ آوروں سے بچنے کی ترکیبیں کر تے اور مقابلے کی تیاری کر تے یا کہیں چھپ کر جان بچاتے چونکہ دھواں نظر آنے کا مطلب دشمن کی طرف سے خطرے کی علامت تھی اور لوگ اپنا بچاو کا بندوبست کرتے تھے فوجی نقطہ نظر سے انتہائی ایک اہم جگہ ہے یہاں سے اگر تھوئی کی طرف نگاہ دوڑایا جائے تو تھوئی کی آخری گاوں اشقم غورو تک دوسر ی طرف سلگان کے گاوں امیلثت تک اور قر قلتی گاوں سے اندر نالہ تَشی اور اگر یاسین کی طرف دیکھا جائے تو یسین کی پہلا گاوں ہلتر تک نظر آتا ہے لگتا ہے کہ یہ مشاہداتی چوکی نہایت اہم تھا۔
اعظمی حہ:( ا عظمی کا گھر) یہ ایک زیر زمین دیسی گھر سندی کے بالائی حصے میں ہے جس کو اعظمی ہا (اعظمی کا گھر) کہا جاتا ہے جو کہ کم لو گو ں کومعلوم ہے ،
مردہ خانے : دو ایسے گھر ہیں جن میں پرانے زمانے میں مردوں کو رکھا جاتا تھا جو کہ اب بھی ہیں جن میں سے ایک سندی میں اور دوسرا سنٹر یاسن میں ہے
موڈوری کا مقام : جو کہ یٰسین کے لو گوں کیلئے نہیں بلکہ کسی بھی قوم میں اپنو ں سے دھوکے کے مر تکب ہو نے کے بعد قوم یا اس علاقے کے لوگوں کیلئے ہو تا ہے جس طرح صادق از بنگال جعفر از دکن کے بعد ان کا اپنا اور قوم کا ہوا ۔
دربند اور گرم چشمہ در کوت : اس کے علاوہ درکوت کا دربند بھی ہے جو کہ اُس زمانے میں بطور دفاعی حصار کے طور پر ایک دیوار اور مورچے بنا کر دفاع کیا جاتاتھا کے اثرات اب بھی ہیں جو کے درکوت کے گرم چشمہ جاتے ہوے راستے میں دفاعی لحاظ سے ایک اہم جگہ پر بنا یا گیا ہے اور درکوت کا گرم چشمہ بھی ایک قابل دید جگہ ہے جس کے ارد گرد تھوڑے ہی فاصلے پر برف ہو تاہے مگر چشمے کا پانی ابلتا ہوا ہو تاہے اور سامنے غمو بر کا خوبصورت برفانی سلسلہ اور تھو ڑے فاصلے پر درہ درکوت یا درہ وخان ہے
خسرو بسوُم : جوکہ نالہ اسومبر میں کسی خسرو نامی بادشاہ کے حملے کے بارے میں سرو کے ایک درخت کے تنے پر ہندی یا چاینہ میں کچھ لکھا ہوا تھا اب یہ درخت موجود بھی ہے یا نہیں معلوم نہیں
بریس یا ٹے: بریس یا ٹے جو کہ بجایوٹ نالے کی طرف جاتے ہو ے اونچائی پر ایک جگہ ہے یہاں پر بھی شایدمشاہداتی چوکی تھا۔
چیترنگ:: جہاں غازی گوہر آمان کا مقبرہ بھی ہے اس قبرستان میں تقریباََ ۱۲ قدم لمبا ایک قبر اب بھی موجود ہے۔
سنہ مو ڈونگ : اسکے علاوہ سنمو ڈونگ جوکہ سلطان آباد میں سکھوں کے قبریں تھی لیکن کاش زمانے کے لوگوں نے سلیمانی پتھروں کی تلاش میں ان قبروں کو بھی نہیں بخشا
بے گل کا قبر :، تھوئی حرپو میں بے گل کی قبر بھی ایک تاریخی مقام ہے
مقبرہ لالک جان شہید (نشان حیدر) لیکن یاسین کو چار چاند لالیک جان شہید (نشان حیدر) کے مقبرے نے لگایا ہے جہاں شہید کی وجہ سے ہندور کو ترقی کے ساتھ یاسین کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے اور سالانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شمالی علاقوں کے مختلف حصوں سے یہاں آتے ہیں۔یاسین میں سڑک کے کنارے کنارے سینکڑوں شہیدوں کے مزار آپ کو نظر آینگے یہ یہاں کے باسیوں کی وطن سے محبت کی ایک ثبوت بھی ہے۔
تختو ختان( تخت کا گھر) یاسین کی تختو ختان جو کہ مقامی رسومات کی تھمو بو( رسم تخم ریزی ) کی رات کو ساری عوام جمع ہو کر ایک رسم (ہیماز) ادا کر نے والا سب سے بڑا دیسی گھر ہے۔
ژنگ ختان ڈور کھن: اور قلعہ ڈورکھن کا جنگ ختان (اونچاگھر) بھی ایک یاد گار چیز ہے۔ مگر افسوس اس کے مالک بھی اس کی حفاظت نہیں کر پا رہے ہیں۔
بڑے بڑے گاوں:
حلقہ نمبر ۱ سنٹر یاسین : یاسین کا پہلا گاوں چھیلی ہرنگ ، پھر، ہلتر، دملگن، گندائے، مشر، نوہ، مورکہ، آٹھکش ، بجایوٹ، سنٹر یاسین کے اندر بھی کئی چھوٹے چھوٹے گاوں ہیں جوکہ مانیچ، روشانوٹ، عالم کھن ، تھوداس ،ڈورکھن وغیرہ، کھن یٹے، ترمُٹ ، نازبر۔
حلقہ نمبر ۲ سلطان آباد : سلطان آباد کا پہلا گاوں تھاوس (طاوس) ، سلطان آباد(ہویلتی) غوجلتی،غنیار ،ساندی (سندی) اس طرح سندی کے اندر مزید گاوںیہ ہیں(ڈنڈاکھل موڈوری، چیبیوچے ، چیکی موجر ، دلسندی، چاختئی شا من ،غوسنم داس) ، برداس ، قرقلتی، حْؒ ۃ
حلقہ نمبر ۳ سلگان: سلگان کے گاوں تھما رائے، پار برکولتی، برانداس، برکولتی ، سلپے، شیخے تن، پرپٹنگ ، ہندور، بروکوت، ترثت، سوپٹنگ داس، اُملثت، دیر یارے، منا ہر، مورونگ، درکوت ، گر تنج اور غصوینگ حلقہ نمبر ۴ تھوئی : تھوئی کا پہلا گاوں غینگسیل، اشکائبر، کریم آباد، دلکوئی، داپس، درچ، مغجی رت ، حرپو، کونو، چھیر یٹے، چیکے داس (رحیم آباد) ، شوٹ، درسکن، اشقمداس، نلتی، تھلتی، خنجرآباد، اشقم غورو اورقدم آباد ۔ اس طرح پورے یاسین میں جوکہ تقریباأ ۷۰ گاوں بنتے ہیں۔
دھ : محلے کو دھ کہا جاتاہے ایک دھ میں عموماً ایک ہی قوم کے لوگ رہتے ہیں مثلاً غلغو ے دھ، شَمُنو ٹ یا دشَمنے دھ اسی طرح حرایو دھ وغیرہ چونکہ ایک ہی باپ کے اولاد اپنے وراثت کے زمین پر اپنے مکان بناتے ہیں اور یہ نسل در نسل ایک جگہ رہنے کی وجہ سے یہ ایک سے دو گھر اور محلہ یا دھ بن جاتے ہیں پھر والد کا بنایا ہوا مکان سب سے چھوٹے بیٹے کی وراثت میں آتی ہے اور بڑے اور منجلے اپنے لئے مکان بنا تے ہیں ۔
گِرم یا ( گِرم بے شی) ایک دھ یا دو دھ کے لوگ عام طور پر ملکر ایک دوسرے کی دکھ درد یا شادی بیاہ اور موت کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ ساجے داری سے ایک دوسر ے کے ہاتھ بٹھاتے ہیں تو یہ حلقہ گِرم یا گرِم بے شی کہلاتاہے۔ شادی کے رسومات پہلے بیان ہو چکے ہیں البتہ میں یہا ں موت یا موت کے بعد کی رسومات یا ایک دوسرے کی مدد کے بارے میں کچھ بتانے کی کوشش کروں گا۔
موت یا بعد از موت کے رسو مات:
جب کسی گھر میں کوئی فوت ہو جاتاہے تو گِرم میں ایک دو بندوں کو اطلاع دی جاتی ہے تو وہ پھر عزازی یا ولنٹیر ی طور پر پورے گاوں یا دور دور تک اسکی اطلاع دی جاتی ہے اور سارے گاوں کے لوگ اپنے گھر وں سے نکل کر اُس گھر میں جاتے ہیں اور فاتحہ خوانی کے بعد قبرستان جاتے ہیں اور قبر کی تیاری میں ہر آدمی حصہ لیتاہے ایک گاوں مثلاً سلطان آباد یا طاوس ہے تو اس کے اندر کئی کئی گِرم یا گِرم بے شی ہیں لیکن اس موقعے پر گاوں کے تمام لوگ شرکت کر تے ہیں اور دور دور کے رشتہ داروں کو اطلا ع دی جاتی ہے جب سار ے رشتہ دار اکھٹے ہو جاتے ہیں اور قبر جب تیا ر ہو تاہے تو اس اثنا میں موکھی اور خلیفہ میت کے ورثا کی مدد سے میت کو غسل دے کر کفن دے کر تیار کرتے ہیں اور جب خونی رشتہ دار سارے جمع ہوتے ہیں تو پھر میت کا آخری دیدار کر نے کے بعد جس کو یاسین میں بروشاسکی میں اسکل اولتیراس اور کھوار میں موخ پا شیک کہتے ہیں کا بندوبست کیا جاتاہے اور میت کے رشتہ دار خاصکر خواتین جب میت کا آخری دیدار کر لیتی ہیں تو خلیفہ ایک بر تن میں تھوڑا سا آٹا رکھ کر اس پر قرآن شریف رکھتا ہے اور اس کو فتک کہا جاتاہے دیسی حا کے چاروں ستونوں کو فتک لگاکر دروازے کے باہر کی طرف نکل کر کھڑا ہو جاتا ہے اور جب میت کوباہر نکالا جاتاہے تو اس کو بھی فتک لگا تا ہے اور قرآن شریف کو برتن کے ساتھ واپس گھر لے جاتے ہیں اور چوبیس گھنٹے تک نہیں ہلاتے ہیں پھر میت کی اپنی یا اسکے والد کی ملکیتی زمین میں اس میت کا نماز جنازہ پڑھایا جاتاہے پھر میت کی آخری دیداری ایک بار پھر شرکاء کو کرایا جاتاہے اور پھر میت کو دفنایا جاتاہے اور یہ یاد رکھیں کہ سب لوگوں کا پنا اپنا آبائی قبرستان ہو تاہے جو کہ ایک قوم یا گِر م پر مشتمل ہو تاہے۔ میت کو دفنانے کے بعد کوئی عالم موت برحق ہے کے عنوان پر چند اسلامی کلمات لوگوں کو سناتا ہے اور لوگوں کو آخرت کی زندگی کیلئے دنیا میں اچھے کام کر نے کی تلقین کر تاہے اور آخر میں میت کا کوئی نز دیکی رشتہ دار کھڑے ہو کر تمام شرکاء کا شکریہ ادا کر نے کے ساتھ ساتھ میت کی طر ف سے اس کی زندگی کے دوران ہو نے والی کسی دانستہ نا دانستہ غلطی کیلئے ا س میت کی جانب سے معافی ما نگتاہے اور پھر یہ بھی کہتا ہیے کہ متوفی پر اگر کسی کا کوئی حق وغیرہ ہے تو اس کے ورثا سے وصول کیا جائے یا بخش دیا جائے وغیر ہ اور خلیفہ لوگوں کی جانب سے اجتماعی طور پر دعا مغفرت کر تا ہے اور پھر واپس گھر آتے ہیں اور خلیفہ گھر پہنچنے کے بعد ایک مر تبہ پھر دعا یا آیات قرآنی پڑھتاہے اور پھر گِرم کے لوگوں اور غمزدہ خاندان کو ایک چھوٹا سا تقریر کے بعد متاثرہ خاندان کے لوگوں کو کچھ نہ کچھ کھلانے کی ہدایت کر تاہے ۔ اور پھر اس کے بعد گرم کے لوگ آپس میں یہ فیصلہ کر تے ہیں کہ کون اس وقت کا کھانا لا ئے گا اور کون کس وقت کھانا لائے گا تاکہ باری باری گِرم کے ہر خاندان کو متاثرہ خاندان کی خدمت کا موقع بھی ملے اور بے قائدگی کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء کا اصراف بھی نہ ہو اور باہر سے کھانا لانے والے خود بھی سوگواروں کے ساتھ ملکر کھانا کھاتے ہیں تاکہ وہ بھی ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھا پی سکیں اور یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہتا ہے اور تیسرے روز میت کے قبر کو آخری شکل دی جاتی ہے جس کو من پھو شم یا نخ بو تک کہتے ہیں اور اس روز جب قبر کو بنا کر گِرم کے لوگ واپس آتے ہیں تو ان کو ایک جانور ذبح کر کے کھانا پکایا جاتاہے جسے پیش تکبیر کہا جاتاہے اور خلیفہ با قائدہ ایک لمبا چوڑہ دعا پڑھتاہے جس کو تکبیر کہا جاتا ہے اور پھر دن کو پکایا جانے والا جانورذبح کیا جاتاہے اور پھر سوئم کیلئے رات کو جو صدقہ یا خیرات دیا جاتاہے اس کو خدائی یا نیاز کہا جاتاہے اور اس روز اسماعیلی لوگ اپنے دستور کے مطابق شام کو چراغ روشن کا بندوبست کر تے ہیں ۔ شام کو خدائی کھانے سے پہلے چراغ کا بندوبست ہو تاہے اور تقریباً ایک گھنٹے تک درود اور صلواۃ کا محفل ہو تاہے اور محمد اور آل محمد پر درود اور صلواۃ کا نذرانہ پیش کیا جاتاہے تاکہ میت کی آخرت سنور جائے اور اس کو درود کا ثواب ملے چونکہ ارشاد ہے کہ جو رسول پاکﷺ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر ہزار مر تبہ رحمت بھیجے گا۔ پھر کھانا تناول کیا جاتا ہے اور اس کو تبارک سمجھ کر کھایا جاتاہے چونکہ اس کو پکاتے وقت بھی درود شریف کی تلاوت جاری رہتی ہے اور آخر میں گھر کا کوئی فرد گِر م کے لوگوں کا شکریہ ادا کر تاہے اور گرم والے متاثرہ خاندان کی حوصلہ افزائی کر تے ہیں اور دعا خیر کے ساتھ سوئم اپنے اختتام کو پہنچتاہے پھر اس گھر میں ہی کھانا پینا پکتا ہے اور جو لوگ فاتحہ کیلئے آتے ہیں ان کی تھوڑی بہت خاطر مدارت بھی کیا جاتا ہے اور ساتویں روز تک قرآن شریف کی تلاوت کی جاتی ہے قرآن ختم کی جاتی ہے اور دور دور سے بھی لوگ فاتحہ خوانی کیلئے آتے رہتے ہیں اور بعض لوگ تو چالیسواں (چہلم) کے دن بھی کوئی کھانا وغیرہ بنا کر گِرم کے لوگوں کو کھلاتے ہیں اور بعض سال کے بعد بھی برسی کے طور پر مناتے ہیں ۔
ارواحیشو او یکے پقو:
(روح کی ایصال ثواب کیلئے کھانا یا صدقہ) سال میں کم از کم ایک مرتبہ عموماً اور ماہ رمضان میں خصوصاً ایک دفعہ کھانا وغیرہ پکا کر گِرم والوں کو کھلایا جاتاہے اور ارواح کی ایصا ل ثواب کیلئے آیا ت خوانی کی جاتی ہے۔ اسی طرح بعض لوگ نسالو اگر کر تے ہیں تو اس وقت بھی ایک آدھ دفعہ کھانا پکا کر مر حومین کی مغفرت کیلئے دعا مانگی جاتی ہے اورگرِم کے لوگوں کو کھلایا جاتا ہے۔
پانی کی تقسیم:
پورے پاکستان میں یہ دستور ہے کہ آبپاشی کیلئے پانی کی باری مقرر کیا جاتاہے اور باری باری ہر زمیندار یا کاشت کار اپنے زمین کی آبیا ری کرتاہے اسی طرح یاسین میں بھی کھیتو ں کو سیراب کر نے کیئلے پانی کی باری مقرر ہے۔ میں صرف یاسین کا سب سے اچھا اور بڑا آب پاشی کا نظام یعنی جدھر تقریباً ایک قسم کی نہروں کی طرح کا پانی کا نظام ہے کا ذکر کروں گا یہ ہے سلطان آباد اور طاوس کا نہری یا آب پاشی کا نظام ۔ ان دو گاوں کو دریا ئے تھوئی یعنی تھیوغ سے دو بہت بڑ ے کو ہلوں کے ذریعے پانی نکال کر سیرب کیا جاتاہے جن کو سلطا ن آباد کے تھمو دلہ یعنی راجہ کا کوہل جوکہ سلطان آباد کے ساتھ ساتھ طاوس بالا کو سیراب کرتاہے دوسرے کویارم دلہ یعنی پائین کوہل کہا جاتاہے جو کہ سلطان آباد اور طاوس پائین کو سراب کر تاہے، پرا نے زمانے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ طاوس کے گاوں کو آباد کر نے کیلئے جب پانی کی ضرورت پڑی تو راجہ شاہ عبدالرحمٰن صاحب نے سلطان آباد کے مکینوں کو اشدر امان لال کے گھر میں جمع کیا اور ان سے کہا کہ اس سے پہلے لوگ مجھ سے ( راجہ سے) کو ئی چیز مانگتے تھے لیکن میں آج آپ لوگوں سے کچھ مانگنے آیا ہوں تو اس وقت کے رواج کے مطابق یہ ایک انو کھی بات تھی کہ علاقے کا ایک خود مختار حکمران عوام سے کوئی چیز مانگے تو سلطان آباد ( ہویلتی )کے عوام حیرانگی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر راجہ سے دست بستہ عرض کیا کہ جناب( نذُ ر) ایسا کیا کام ہے جو آپ اتنے کرید کرید کر کر نا چاہتے ہیں آپ مہر بانی فرما کر کھل کر بتا یءں گے تو آپ کی مہر بانی ہو گی اس پر راجہ صاحب نے کہا کہ میں آپ لوگوں سے طاوس کو آباد کر نے کیلئے پانی اور کوہل نکالنے کیلئے زمین مانگنے آیا ہو ں اس پر عوام ہویلتی کے متا برین نے عرض کیا کہ راجہ صاحب یہ سب کچھ آپ کا ہے تو راجہ عبدالرحمان صاحب نے کہا چونکہ آپ کا گاوں پہلے سے آباد ہے اور پھر طاوس تک پانی پہنچانے کیلئے کوہل کو چوڑا بھی کر نا پڑے گا اور آپ کی زمینیں بھی خراب ہو سکتی ہیں لیکن یہ میں وعدہ کر تاہوں کہ اس نئے کوہل کی پانی کو پہلے ہویلتی کے لوگ استعمال کریں گے اور بچا ہوا پانی طاوس میں نو آباد ( نوغ آباد ) لو گوں کو دیں گے مگر اس کوہل کی تکمیل کے بعد راجہ فوت ہو گیا اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس کوہل کو بناتے وقت راجہ شا عبدالرحمان جس کو مقامی لوگ شا عبدالرحمت خان بھی کہتے تھے نے خود اپنے ہا تھوں سے لو گوں کے ساتھ کام کیا ہے اور اپنے قمیض کے دامن میں مٹی اٹھا اٹھا کر لا کر لو گوں کی کام کر نے کی صلاحیت کو اور جذبات کو ابار کر کام کرا یا ہے۔ اور یہ انتہائی معمولی قسم کے کھال یا کوہل تھا اب یہ پایئن اور بالا دونوں کوہل نہیں رہے بلکہ سالانا بھل صفائی کے موقوں پر انچ دو انچ چوڑہ کر تے کرتے اب اتنے چوڑے اور گہرے ہوے ہیں کہ چند سال پہلے میر زہ نادر نامی ایک شخص کے ایک بہت بڑے گدے کو پائین کوہل بہا کر طاوس میں نکال دیا اور یہی نہیں بلکہ سلطان آباد کے لوگوں کے بہت سے بچے بھی اس ظالم نہر کی پانی کے نذ ر ہو گئے اور ان معصوموں کی لا شوں کو طاوس یا راستے میں نزدیک سے کہیں سے نکال کر ان کے ورثہ کو ایک کرب ناک غم میں مبتلا کیا گیا مگر افسوس ہے کہ طاوس کے وہ لوگ جو سلطان آباد کے لو گوں کے کسی زمانے میں مشکور و ممنوں تھے بعد میں سلطان آباد کے لو گوں کی مدد کر نے کی بجا ئے بہت سے سیلابوں کے مواقوں پر اور پانی کی غلطی سے زیادہ استعمال کی بنا پر بھاری بھاری جر مانے کر تے رہیں ہیں ۔ اور سلطان آباد کے لوگوں کی زمین کا جو مفت میں چھ چھ فٹ ہر آدمی کا ضیاع ہو رہا ہے اس کا نہ کمپنسیشن ( معاوضہ ) ملتا ہے اور نہ ہی طاوس کے لوگ اس زائد زمین کے خراب ہو کر ان کو پانی کی عیاشی ہو نے پر خوش ہیں الٹا چور کو توال کو ڈانٹے کی مثداق سلطان آباد والوں کو جرمانے بھی کر تے ہیں ۔ میں بات کر رہا تھا پانی کی تقسیم اور اب پاشی کے نظام کا تو یہاں پانی ایک خاص پیمانے پر تقسیم کیا گیا ہے جس کو مقامی زبان بلکہ شینا میں بھی ایل IL)) اور کھوار میں غوسپان کہتے ہیں جو کہ بت یا کالے پتلے پتھر کے سل میں ایک سوراخ بنا کر بنایا جاتاہے جسکا قطر تقریباً ۱۰ سنٹی میٹر ہو تا ہے میں تقسیم کیا گیا ہے پرانے زمانے میں یہ گھرانے یا فی نفر تھا اور اب آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے یہ پانی کئی کئی گھرانوں میں ایک باری ہو تی ہے
یعنی اب یہ ایل برادریوں میں منقسم ہے مثال کے طور پر میرے اپنے محلے میں اُس وقت تین گھر تھے اور ایک ایل تھا اب جبکہ ہم لوگ ایک ایک گھر سے الگ الگ ہو کر۱۸ گھرانے ہو چکے ہیں اور ایل وہی ایک ہی ایل ہے ، اسی طرح طاوس میں بھی اس طرح تقسیم ہے مگر پہلے طاوس میں دن رات ایک کر کے بڑی مشکل سے کھیتوں کو سیراب کر تے تھے اور اب یہ کوہل جبکہ نہر کی صورت اختیار کر چکے ہیں تو طاوس کے لو گوں کی عیاشی ہو چکی ہے وہ زیاد ہ تر بغیر باری کے پانی کھیتوں کی آب پاشی کیلئے استعمال کرتے ہیں
بھل صفائی ( نہروں کی صفائی)
سال میں ایک دفعہ ان نہروں کی صفائی کی جاتی ہے اور یہ کام جب بو یا یم یعنی تخم ریزی کی رسم کے بعد کسی خلیفہ یا مذہبی کسی بزرگ سے نیک ساعت کا تعین کر کے علاقے کی کسی سب سے پرانے باشندے یا فتہ کین سے بسمہ ا للہ کرایا جاکر کیا جا تاہے اس کو ساحت گیر کہتے ہیں اور پھر عوام میں سے ایک دو کو مقرر کیا جاتاہے کہ وہ تمام لوگوں کی حدود کا معائنہ کریں اور عوام کو رپورٹ کریں کہ پورے نہر کی صفائی کیا گیا ہے چونکہ ہر ایل یا برادری کے لوگ اپنے اپنے حدود میں بھل صفائی کے خود ذمہ دار ہیں اور اگر کوئی حصہ اگر کسی کی ملکیت سے نہ گذرتا ہو تو اس جگہ کی صفائی سب عوام ملکر کر تے ہیں اور صفائی کا کام مکمل ہو نے پر سب عوام سر بند پر جمع ہو تے ہیں اور پھر کسی خلیفہ سے قرآن پاک کی تلاوت اور دعا کے بعد کسی فتہ کین سے نہر میں پانی چھوڑتے ہیں اور پھر زمینداری کا کام شروع ہو تاہے اور لڑکیا ں اور لڑکے پہلی دفعہ جب نہر میں پانی آتا ہے تو اللہ کا نام لے کر کسی برتن میں پانی بھر کر زمین میں یعنی کھیت میں یا کیاریاں بنانے والی زمین میں ڈالتے ہیں اور بڑی خوشی محسوس کر تے ہیں ۔
گلہ بانی:
یہاں کے زمیندار لفظ زمیندار اس لیئے استعمال کیا جاتا ہے کہ یہاں ہر بندے کا اپنا زمین ہے ہر کوئی چاہے ایک کنال ہو یا دس کھیت ،یعنی سو کنال ہو یا اس سے بھی زیادہ ہر ایک کا اپنا ملکیت ہو تا ہے اس لئے یہاں کے لوگوں کو زمیندار کہا جاتاہے جبکہ پاکستان میں زمیندار کی زمینیں سینکڑوں مربعو ں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے کئی کئی دہقان یا ہاری ہو تے ہیں جو کہ ایک قسم کے مزدور ہو تے ہیں وہ یا کاشتکار کہلاتے ہیں یا دہقان اور ہاری وغیرہ۔ تو یہاں کے لوگ بیڑ بکریاں بھی پالتے ہیں اور گلہ بانی کے ذریعے بھی اپنا گذر اوقات کر تے ہیں پہلے زمانے میں گڑر یوں کا رواج تھا جنکا ذکرپہلے ہو چکا ہے مگر اب ہر گھر کی باری ہو تی ہے تو گھر کا جو فرد زمینداری کر تاہے وہ باری آنے پر محلے یا گاوں کے لوگوں کے بکریوں کو چرانے لے جاتاہے اور اکثر پہاڑوں پر مگر کم کم علاقوں میں دریا کنارے اگر جنگل میسر ہو تو اس کو مشک یا کوچ کہتے ہیں میں لے جاکر دن بھر چراتے ہیں اور شام کو واپس لاتے ہیں اور ہر گھر سے کوئی نہ کوئی بندہ �آکر اپنے اپنے بکریوں کو الگ کر کے لے جاتے ہیں اور اسی طرح دوسرے دن دوسرے شخص کی باری ہو تی ہے اور چراگاہیں بھی مختلف حدود میں تقسیم ہیں اور اپنے اپنے حدود میں چرائی کر تے ہیں ۔
پینے کا صاف پانی :
اس وقت ۲۰۰۸ء میں بھی سلطان آباد سمیت پورے یٰسین کے بہت سے ایسے گاوں ہیں جہاں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اور سب سے اچھا نظام سندی میں ہے جہاں چند سال پہلے آغا خان بلڈنگ انیڈ پلاننگ سروسس ( WASIP) نے ایک بہترین نظام کے تحت پینے کا صاف اور شفاف پانی کا بندوبست کیا ہوا ہے ۔سلطان آباد کیلئے اس وقت ٹیکنو کریٹ ممبر ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل نے ایک سکیم پر کام شرو ع کرا یا ہوا تھا مگر اس کے راہ میں ممبر قانون ساز کونسل یاسین غلام محمد اپنی سیاسی مخالفت کی وجہ سے رکاوٹ بنا ہو ا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ سلطان آباد سے اس کو ووٹ نہیں مل رہے ہیں اس لئے وہ خود پس پر دہ بیٹھ کر بجن نامی ایک شخص اور چند ایک اور شر پسند لوگوں کے ذریعے طرح طرح کے روکا وٹیں کر رہاتھا اور اس طرح ٹنکی بھی بن چکا ہے اور پایپ لاینیں بھی بچھائیں گئی ہیں مگر پانی نہیں دیا جا راہاہے۔لیکن شکر ہے خدا کا کہ آغا خان پلاننگ اند بلڈنگ سروس کے تحت واٹر اینڈ سنیٹیشن (WASIP)نے سلطا�آاباد کے لوگو ں کو اپنی مدد آپ کے تے تحت لٖفٹ ایریگیشن کے ذریعے ایک کنواں بر لب دریا کھود کر صاف اورستھرا پانی کا بندوبست کیا ہے اور اب اس گاوں کے لوگ پیٹ کے مختلف بیماریوں اور گندے پانی سے پھیلنے والے دوسری بیماریوں سے نجات پا چکے ہیں۔ اس دور میں بھی حکومت پاکستان کی جانب سے اس علاقے میں کوئی خاص کام نہیں ہو رہا ہے۔اسی طرح تھوئی، برکولتی، یاسین اور دوسرے بہت سارے گاوں میں WASIP)) نے صاف پانی بندوبست کیا ہے یا کر رہاہے
جنگلات :
یاسین میں جنگلات نہ ہو نے کے برابر ہیں سوائے چند ایک نالوں کے کہیں بھی جنگل نہیں ہیں ان نالوں میں نالہ اسومبر میں کچھ جنگلات پائے جاتے ہیں مگر آبادی کی بڑھتی ہوئی تناسب کے سامنے یہ بھی ماند پڑ رہے ہیں اور سالانا سلطان آباد اور سندی کے ہزاروں افراد بیس بیس من لکڑی جو کہ دس گدھا بوجھ کا سکیل مقرر ہے صرف ماہ اکتوبر اور نومبر میں لاتے ہیں اور اس نالے پر قوم شَمنے کا قبضہ ہے اور یہ کہ وہ اسے اپنا ملکیت قرار دے رہے ہیں اور کچھ عوام اور ان کے درمیان اس وقت عدالت میں زیر سماعت کیس بھی ہے باقی تمام نالوں میں بھی اس وقت کوئی جنگل کا نام و نشان نہیں بلکہ اس وقت تو کٹے ہو ے جنگل کے جڑھیں بھی اُکھا ڑ اُکھاٹ کر لائے جارہے ہیں چند سالوں بعد بکریاں چرانے کیلئے بھی جڑی بوٹیان بھی شاید نا پید ہو ں گی۔بلکہ بعض جگہوں میں تو بارود لگا کر لکڑیاں جمع کر نے کا طریقہ اپنایا گیا ہے جو کہ ایک نہایت ہی خطر ناک کھیل ہے ۔ (جاری ہے)