کالمز

بدلیں گے اجالوں میں چلو ظلمت شب کو

میں بعض اوقات اپنی بے عملی کی وجہ سے خسارے میں رہتا ہوں، عملی طور پر اور زمینی حقائق کو جانے اور سمجھے بغیرسرزد بعض فیصلوں نے وہ زخم دیئے ہیں جو ابھی تک بھرے نہیں بلکہ اب بھی ہرے بھرے ہیں اور بعض اوقات ان زخموں سے وابستہ یادیں ڈراؤنا خواب بن کر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں بلکہ رقصاں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔

لیکن انسان بنیادی طور پر خطاکا پتلا ہے اور قبر میں اتارے جانے تک انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی رہیں گی انسان جسے عرف عام میں اشرف المخلوقات سے موسوم کیا جاتا ہے سے سرزد بعض غلطیوں کا خمیازہ نسلیں بھگتتی ہیں اور نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ چھوٹی ، موٹی غلطیوں کے سواء زندگی میں اب ایک کوئی ایسی غلطی سرزد نہیں ہوئی جس پر مجھے ندامت یاپچھتاوا ہو۔۔۔۔۔۔29سال کی عمر میں توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا کیا اور جیل کی ہوا کھائی،2011ء میں دوسری مرتبہ توہین عدالت کا مرتکب ہوکر کچھ دن کیلئے جیل یا ترا کیا اور جیل کے اندر اپنی غلطیوں، کمی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا بغور جائزہ لینے کاموقع پر ملا اور جب جیل سے رہائی ملی تو اتنا سمجھ چکا تھا یا سمجھ آئی تھی کہ کہاں تک جانا ہے، کون کیا ہے او راپنے آپ کو نقصان پہنچائے بغیر کس حد تک جاسکتا ہوں اور کب ہینڈز اپ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔

انسان۔۔۔۔۔ دراصل دوسروں میں ہی زندہ رہ سکتا ہے اور وہی زندگی ہے لیکن دوسروں میں زندہ رہنے کیلئے تو دوسروں کیلئے بھی سوچنا اور دوسروں کے درد کو بھی محسوس کرنا ضروری ہے اور اگر انسان دوسروں کیلئے بھی سوچنا شروع کردے تو بہت سارے مسائل وہیں پر ختم ہوجائیں گے ۔

پھر ہم مسلمان۔۔۔۔۔۔ تو ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں، ایک ہی دیوار کی اینٹیں ہیں کہ ایک عضو زخمی ہو تو سارے بدن میں درد محسوس ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔ ایک اللہ، ایک رسولؐ اور ایک قرآن کو ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ ایسا رویہ کیونکراپناسکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے جان و مال کے دشمن بن جائیں۔۔۔۔

گلگت شہرکے باسیوں نے1988ء سے2012ء تک جو اذیتیں، تکلیفیں، فاصلے، پریشانیاں، نفرتیں اور اداسیاں سہی ہیں یا برداشت کی ہیں ان کی مثال بہت کم ملیں گی اور گزشتہ4سال کے دوران گلگت بلتستان بالخصوص گلگت شہر میں جو مثالی امن دیکھنے کو ملا ہے اس کی بھی کوئی نظیر نہیں ملتی او رپاکستان میں جب بھی امن، بھائی چارگی اور رواداری کی بات ہوتی ہے تو گلگت بلتستان کا نام سرفہرست آتا ہے۔۔۔۔۔

ہم میں سے اکثر وہ وقت نہیں بھولے ہیں جب 3اپریل کو اتحاد چوک سے شروع ہونے والا خونریز تصادم چلاس تک پھیل گیا تھا اور سانحہ گونر فارم رونما ہوا اور اس واقعے کے بعد گلگت شہر میں کرفیو کا نفاذ ہوا اور اس سانحہ اتحاد چوک اور سانحہ گونر فارم کے بعد پیش آنے والے واقعات کے بعد گلگت شہر میں بسنے والے چند لاکھ شہری ایک دوسرے کیلئے اجنبی بن کررہ گئے اور عملی طور پر نوگو ایریاز کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کے روٹس بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہوگئے اور میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے بدترین حالات اور ایک دوسرے سے نفرت اس شہر (گلگت) کے باسیوں میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔۔۔۔۔

میں جب بھی لکھتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ آغاز سے اختتام تک اپنے قارئین کو کنفیوز نہ کروں۔۔۔۔۔۔ لیکن کالم پڑھتے ہوئے آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آج ماضی کو کیوں کرید رہا ہوں۔۔۔۔۔۔

اس کی وجہ پیر کے روز انجمن امامیہ اور تنظیم اہل سنت والجماعت کے ذمہ داران کے اجلاس کا انعقاد ہے جو مرکزی امامیہ جامع مسجد میں منعقد ہوا۔۔۔۔ اس اجلاس میں کئے جانے والے فیصلوں کی تفصیل میں جانے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ اس اجلاس کا انعقاد ہی ایک ایسا پیغام ہے جو ا س علاقے میں بسنے والے لاکھوں لوگوں کیلئے اطمینان بخش، حوصلہ افزاء اور قابل فخر عمل ہے۔۔۔۔

میرے لئے تو آج سے4سال قبل گلگت شہر میں اس طرح کی مذہبی ہم آہنگی کا ماحول، ایک خواب تھا، اس خواب کو حقیقت کا روپ دھارنے میں یقیناًپارلیمانی امن کمیٹی (سابقہ) مساجد بورڈ، حلقہ ارباب زوق، پاک فوج، قانون نافذ کرنے والے اداروں، وفاقی و صوبائی حکومتوں، انتظامیہ، میڈیا ، وکلاء تاجر تنظیموں، تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور حساس اداروں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔

جس تیزی کے ساتھ ہم ایک دوسرے سے دور ہوگئے تھے، اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہم ایک دوسرے کے قریب آتے جارہے ہیں۔۔۔۔۔ اس ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔1988ء سے2012ء تک کے سانحات سے ہم سب نے سبق حاصل کرلیا ہے اور ان سانحات کے نتیجے میں تباہی و بربادی اور جگ ہنسائی کے کچھ بھی نہیں ملا۔

دیر آید، درست آئد کے مصداق ہم ایک مرتبہ پھر آپس میں شیر و شکر ہوگئے ہیں، گلگت شہر رات ایک بجے تک کھلا رہتا ہے۔۔۔۔ تمام اضلاع کے لوگ ایک دوسرے کے علاقوں میں بلاخوف خطر گھومتے ہیں گزشتہ2سالوں بالخصوص رواں سال قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کی آمد اتنی زیادہ رہی ہے کہ تمام ہوٹل اوور فلو ہوگئے ، گنجائش ختم ہوگئی اور لوگوں نے اپنے باغات میں ٹینٹ لگادیئے جبکہ گھروں کو گیسٹ ہاوس کا درجہ دے کر معاشی فوائد حاصل کئے۔۔۔

اگر گلگت بلتستان میں امن قائم نہیں ہوتا، تو یہ سب کچھ ناممکن تھا اور امن نہ ہونے کی وجہ سے جن تکالیف، مصائب اور مشکلات کا سامنا زندگی کے تمام مکاتب فکر نے کیا ہے اس سے کون واقف نہیں، مجھے تنظیم اہل سنت او رانجمن امامیہ کی باہمی مشاورت جو آئندہ بھی جاری رہے گی کے نتائج سے زیادہ غرض نہیں، البتہ ان ملاقاتوں سے بین المسالک ہم آہنگی مضبوط ہوتی جارہی ہے اور یہی میرا حاصل وصول ہے۔۔۔۔۔

پہنچے میرا پیغام محبت ہے یہ سب کو

بدلیں گے اجالوں میں چلو ظلمت شب کو

عظمت کی یہ بنیاد ہے کردار پر قائم

معیار سمجھتا میں نہیں، رنگ و نسب کو

اتنی بھی تو ہوجائے ترقی نہ کہ پیچھے

چھوڑا ہے جہالت میں ابوجہل لہب کو

واعظ کی فسادوں میں چمکتی ہیں دوکانیں

میخار ترستے ہی رہے شام طرب کو

خودکش جو خزانے پر کیا کرتے ہیں حملے

اُن تک بھی تو پھیلادو ذرا ضرب عضب کو

آکر کے گناہ تھک کے بھی آجاؤ کہ ابھی تک

بخشیش سے ہوئی ہے نہ تھکاوٹ تیرے رب کو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button