کالمز

روزگار کے مواقع۔۔۔۔

انسان کی ترجیحات وقت اور حالات کے ساتھ بدل جاتی ہیں گلگت میں امن نہیں تھا تو لوگ امان ڈھونڈتے تھے اور اپنی جان بخشی کے سبیل تلاش کرتے تھے اب امن ہے تو لوگوں کو روزگار اور اچھی معیار زندگی چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔

گلگت بلتستان میں قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی کے قیام کے بعد سالانہ بڑی تعداد میں طلباء و طالبات ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں لیکن یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے طالب علموں کی تعداد اور روزگار کے و سائل کے تناسب میں غیر معمولی فرق کی وجہ سے معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو رہا ہے اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان کی اہلیت کے مطابق روزگار نہ ملنے کی وجہ سے طلباء شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں ایک تو ہمارے معاشرے میں تعلیم کا مقصدصرف روزگار کا حصول ہے اور کچھ نہیں۔فارغ التحصیل طالبعلموں اور روزگار کے وسائل میں فرق سے پیدا ہونے والا عدم توازن معاشرے کے ناسور بن سکتا ہے۔اور روزگار نہ ملنے پر پڑھے لکھے نوجوان ایسا کر گزرتے ہیں جو ایک ان پڑھ سوچ بھی نہیں سکتا اس لئے معاشرے کو عدم توازن کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے حکومت کو پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں میں میرٹ پر روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات حقیقت ہے کہ حکومت تمام نوجوانوں اور بے روزگاروں کو روزگار تو نہیں دے سکتی لیکن روزگارکے حصول میں ان کی رہنمائی اور مدد ضرور کر سکتی ہے۔گلگت بلتستان میں پرائیویٹ سیکٹر کو سہولیات فراہم کرکے پرائیوٹ سیکٹر کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو روزگار کے موقع میسر آسکتے ہیں اسی طرح حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات کے عوض روزگار کی شکل میں حکومت کے کندھوں سے ایک بڑا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔اس خطے میں تجارت کے بڑے مواقع ہیں۔پاک چین سرحدی تجارت کو فروغ دینے کے لئے مقامی تاجروں کو کسٹم میں خصوصی چھوٹ دیکر نوجوانوں کو بارڈر ٹریڈ کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔اس وقت گلگت بلتستان میں یہ رجحان پروان چڑھ رہا ہے کہ قانونی یا غیر قانونی طریقے سے سرکاری نوکری حاصل کی جا ئے سرکاری نوکری کی تلاش میں کئی نوجوان اپنی جمع پونجی گنوا چکے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی رکا نہیں سابقہ حکومت کے مقابلے میں اس رجحان میں کمی آئی ہے تا ہم رشوت دیکر نوکری حاصل کرنے کا خواب اب بھی بہت سے پڑھے لکھے نوجوان دیکھ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کے نوجوان نسل کو اس دنگل سے نکالنے کے لئے پرائیویٹ سیکٹر اور بارڈر ٹریڈ سمیت دیگر تجارتی سرگرمیوں میں مصروف کرنا پڑے گا اس کے لئے وفاقی حکومت نے بے روزگار یوتھ سکیم کے نام سے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کے لئے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ تو شروع کیا ہے لیکن اس پروگرام میں نقائص زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ نوجوان اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔اس اہم سہولت سے مستفید ہونے کے لئے تھکا دینے والے شرائط رکھے گئے ہیں اس کے علاوہ قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ سست روی کا شکار ہے حکومت قرضوں کی فراہمی کے لئے طے شدہ شرائط میں نرمی اور قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ تیز کرکے بہت سارے نوجوانوں کو اپنے پاؤ ں پر کھڑا ہونے کے قابل بنا سکتی ہے۔

گلگت بلتستان ایک ایسا حساس خطہ ہے جہاں نوجوان نسل کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا اور لگام دینے کے لئے ضروری ہے ان کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جا سکے ۔حکومتی سطح پر نوجوانوں کو کاروبار کے طریقہ کا راور نئے کاروبار سے متعلق آگاہی کے پروگرام منعقد کرسکتی ہے چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو سہولیات فراہم کرے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے باقائدہ پالیسی ترتیب دے سکتی ہے۔بہت سارے سرکاری محکمے ایسے ہیں جہاں پر پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں ان سرکاری محکموں میں جدید نظام رائج کرنے کی ضرورت ہے محکمہ تعمیرات عامہ اور محکمہ برقیات ایسے محکمے ہیں جو گلگت بلتستان کے بجٹ کا بیشتر حصہ خرچ کرتے ہیں اور پالیسی سازی نہ ہونے کی وجہ سے بجٹ کا اچھا خاصا حصہ بد عنوانی کا شکار ہو جاتا ہے اور چند لوگ کروڑ پتی بن جاتے ہیں باقی ماندہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ان دونوں محکموں میں شفاف نظام متعارف کرا کے گلگت بلتستان کے بیشتر پڑھے لکھے نوجوانوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں اسی طرح محکمہ سیاحت سمیت دیگر محکموں اور شعبوں میں شفاف نظام کے ذریعے روزگار کے وسیع مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان مسلم لیگ ن کو گلگت بلتستان یں ایک اچھے مینڈیت کے ساتھ ساتھ ایک نادر موقع ملا ہے اس موقع سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور گلگت بلتستان کے عوام کو بھی فائدہ دیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button