کالمز

ایثار ہنزوی، جتنا میں جانتا ہوں

یہ اکتوبر ۱۹۹۶ء ؁ کی بات ہے۔

میں جماعت ہفتم کا طالب علم تھا۔ ہزہائینس پرنس کریم آغا خان سرکاری و جماعتی دورے پر سرزمین پاکستان میں قدم رنجہ فرما چکے تھے۔ جماعتی دورے کے سلسلے میں الواعظین کرام کی ایک ٹیم مختلف جماعت خانوں میں جماعت کو امامِ زمانہ علیہ السلام کے دیدار مبارک کی خوشخبری دینے کے ساتھ ساتھ پنڈال میں نظم و ضبط سے رہنے اور دیدار مبارک کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونے کا درس دے رہی تھی۔ اس ٹیم کی سربراہی الواعظ اعتمادی فدا علی ایثارؔ ہنزوی صاحب کر رہے تھے۔ تب پہلی بار میں نے موصوف کو اپنے آبائی گاؤں بارجنگل کے جماعت خانے میں جماعت کو وعظ دیتے ہوئے سنا اور دیکھا تھا۔ البتہ غائبانہ تعارف پہلے سے تھا۔ الواعظ موصوف کے اندازِ بیاں اور ان کے وعظ سے میں اتنا متاثر ہوا کہ میڈیکل کے ڈاکٹر بننے کی دیرینہ خواہش کو ترک کرکے میں نے اپنے آپ سے عہد کیا تھا کہ میں الواعظ بنوں گا۔

میں ڈاکٹر تو نہیں بن سکا۔ بن بھی جاتا تو کیا! بس چند مریضوں کے گرد گھومتا۔ بیماروں کا علاج کرتا۔ خیر! مذہبی، ایمانی اور علمی لحاظ سے بیمار ذہنوں کا علاج بحیثیت الواعظ اب کر بھی رہا ہوں۔ آج میں الواعظ ہوں۔ لیکن الواعظ ایثارؔ ہنزوی کی طرح وعظ کرسکتا ہوں یا نہیں! مجھے نہیں معلوم۔ مجھے جو معلوم ہے وہ صرف اتنا کہ چند سال پہلے پونیال بوبر جماعت خانے میں جماعت کو وعظ دینے کے بعد میں باہر آکر اپنے جوتے پہن رہا تھا۔ تب ایک ننھی منی بچی، جن کی عمر زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال تھی۔ دوڑتی ہوئی میری طرف آئی۔ میرے ہاتھ چومتی ہوئی مجھ سے مخاطب ہوئی تھی کہ سر! آپ کے وعظ کا بہت مزہ آیا۔ آپ کی تقریر میرے دِل کو لگی۔ میں زندگی میں بہت کچھ بننا چاہتی تھی مگر اب میں الواعظہ بنوں گی۔

ذرا غور کیجئے گا کہاں جماعت ہفتم کے طالب علم کا ایک واعظ کے وعظ سے متاثر ہوکر واعظ بننا اور کہاں اس طالب علم کے وعظ سے ایک معصوم بچی متاثر ہوکر الواعظہ بننا چاہتی ہے۔ قدرت کے وسیلے کتنے حیرت انگیز ہیں۔ اس تعجب خیز دورانیہ، اس حسیں حادثہ اور اس خوبصورت واقعہ کے درمیان اتنا تعجب انگیز رشتہ، ایسی غیر مرئی کڑیاں۔ کہتے ہیں کہ نیت صاف ہو، جذبے خالص ہوں اور ارادہ مصمم ہو تو منزل خود بخود آپ کی قدم بوسی پہ مجبور ہوتی ہے۔With Isar hunzvi

ایثارؔ ہنزوی سرزمین شمال و چترال کی ایک قدآور علمی، ادبی اور مذہبی شخصیت ہیں۔ گلگت بلتستان و چترال کی اسماعیلی کمیونٹی میں ایثارؔ ہنزوی کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ پیدل چل کر انہوں نے یہاں کی اسماعیلی جماعت کی جو خدمت کی ہے اور اس دھرتی کے کونے کونے تک علم کی جو شمع پھیلائی ہے۔ اس کو لفظوں کا جامہ پہنانا مجھ جیسے نو آموز کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ مجھے خوش قسمتی سے بحیثیت الواعظ اسماعیلی طریقہ بورڈ جائن کرنے کے بعد آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے اپنی علمی پیاس بُجھانے کا شرف حاصل رہا۔ پھر آپ سے اکثر و بیشتر ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ جب رسالہ ’’فکرونظر‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا تو انہوں نے نہ صرف میری ہمت افزائی کی، بلکہ وقتاً فوقتاً اپنی قلمی نگارشات سے بھی نوازتے رہے۔ یوں مجھے آپ کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ میرے نزدیک اُستاذِ محترم جتنے بڑے عالم دین ہیں اس سے کئی گنا زیادہ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ حلیمی اور انکساری آپ کی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنّف ہیں۔ نظم و نثر دونوں میں طبع ازمائی کرتے ہیں اور بہت خوب کرتے ہیں۔ مقرر ایسے کہ دِلوں کا بھید جانے۔ تقریر و تحریر کے دھنی ہیں۔ ان کی تقریر کا کیا کہنا ؂

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دِل میں ہے

اس وقت میرے سامنے استاذِ محترم کی نئی تصنیف ’’تذکرۂ فارسی گویانِ ہنزہ‘‘ ہے۔ ۱۲۸ صفحات کی یہ کتاب دارالایثار موضع سلطان آباد، دنیور گلگت کی پیشکش ہے جو شرکت پرنٹنگ پریس لاہور سے طبع ہوئی ہے۔ سرورق پر بلتت فورٹ کی تصویر آویزاں ہے جبکہ پشت سرورق پر ہنزہ کی ثقافتی ٹوپی میں صاحبِ کتاب کی خوبصورت تصویر نظر نواز ہے۔ تصویر کے نیچے مجلہ ’’روشنی‘‘ کے چیف ایڈیٹر جناب شاہد محمود کا مصنّف کے فن و شخصیت پر مختصر تأثرات قلمبند ہیں۔ کتاب پر نامور ادیب شیرباز علی برچہ کے تأثرات کے علاوہ ’’حرفِ آغاز‘‘ کے عنوان سے صاحبِ کتاب کی تحریر کتاب کی علمی و ادبی اہمیت کے حوالے سے درج ہیں۔ اس خوبصورت کتاب میں سرزمین ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ایک درجن سے زائد فارسی گو شعراء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ فارسی زبان مجھ جیسے نو عمروں کے لیے بالکل اجنبی ہے کیونکہ ہماری پیدائش سے پہلے ہی اس زبان کو دیس نکالا مل گیا تھا۔ اب نوبت شاید قومی زبان اُردُو کی ہے۔ صرف قومی زبان نام تک محدود اُردُو کا مستقبل بھی مجھے فارسی سے بہتر نظر نہیں آتا۔ انگریزی نے زندگی کے ہر شعبے پر قبضہ جمایا ہے۔ اس میں انگریزوں کا کیا دوش؟ ہم نے خود کبھی اپنے ہونے کا احساس تک نہیں کیا۔ زبان تو ٹھہری ثانوی چیز۔ خیر! یہ ایک الگ بحث ہے۔

استاذِ محترم نے یہ کتاب لکھ کر درحقیقت فارسی زبان سے شغف رکھنے والوں کی زبردست خدمت کی ہے۔ سب سے اہم بات تاریخِ ہنزہ کے اُن گم گشتہ شعراء کو ایک نئی زندگی بخشی ہے جن میں سے کچھ تو عدم سدھار کے ایک عرصہ بیت چکا جبکہ کچھ شعراء زندگی کے آخری اسٹیج پر ہیں۔ ان کی شاعری پر جو دبیز پردہ پڑا تھا استاذِ محترم نے نہ صرف اس پردے کو ہٹایا ہے بلکہ زیر نظر کتاب کی صورت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کو محفوظ بھی کیا ہے۔ جس کی سعادت اس سے پہلے ارضِ شمال کے کسی اور ادیب کو حاصل نہیں ہوئی۔ البتہ شیرباز علی برچہ صاحب کی گلگت اور گرد و نواح کے اُردُو غزل گو شعراء اور قلمکاروں پر ایک قلمی کاوش ’’تذکرۂ اہلِ قلم اور شعرائے گلگت‘‘ کے نام سے چند سال پہلے منصہ شہود پر آکر مقبولیت کی سند حاصل کرچکی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب میں گشپور محمد جمال خان سے ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ اور اعتمادی فدا علی ایثارؔ ہنزوی تک گردشِ لیل و نہار اور مروَرِ زمانہ پر بحث بالعموم نوجوانانِ شمال و چترال اور بالخصوص سرزمین ہنزہ کی نئی پود کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تنگ و تاریک وادیوں میں زندگی برف کی سِل کی طرح رہی ہے لیکن اس کے باوجود ان علاقہ جات میں ایسے لوگوں کا وجود رہا ہے جو اپنے ذاتی مطالعہ اور اپنی ذاتی جستجو سے علم و ادب کے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دئیے کہ جس کے بارے میں آج کے ترقی یافتہ دَور اور اس دَور کی سہولیات سے مزّین نوجوان صرف سوچ ہی سکتا ہے۔ کر کچھ نہیں سکتا۔ اگر کچھ کرسکتا ہے تو صرف ایک کام۔ وہ یہ کہ انٹر نیٹ پر بیٹھ کر اخلاق باختہ فلمیں دیکھ سکتا ہے یا پھر فیس بُک پر لوگوں کی کردار کُشی۔

ایسے میں مجھے استاذِ محترم ایثارؔ ہنزوی کی زیر نظر کتاب میں عصمت اللہ مشفقؔ کے تذکرے میں اُن کی وہ نظم یاد آتی ہے جو انہوں نے ۱۹۷۵ء ؁ کو شاہ کریم الحسینی ہوسٹل گلگت میں ایک مذہبی ٹریننگ کی اختتامی تقریب میں اپنے اساتذہ کرام کی شان میں پیش کی ہے۔ جس کے چند اشعار یہاں آپ کی بینائیوں کی نذر کئے دیتا ہوں ؂

شہ ولیؔ کو رمزِ دانِ فقۂ نعمان بود

سربسر در قلبِ ما پاشندۂ فیضان بود

می دمد در جسم بی جان جوہر وجدان را

لہجۂ ایثارؔ خوش گو، خوش کلام و خوش نوا

’’دُرِّگوجالی‘‘ عزیز اللہ نجیبِؔ با صفا

چون سخن سنجیدہ گوید عقل زو یابد ضیا

آن خلیلِ ما بود ذی شان و توقیر و حسب

از جبینش می درخشد اخترِ اصلِ نسب

پہلے شعر میں شاعر الواعظ شاہ ولیؔ کے بارے میں کہتے ہیں کہ شاہ ولی فاطمی فقہ کے بزرگ فقیہہ سیدنا قاضی نعمان کے فقیہانہ رموز کے عالم ہیں وہ ہمارے دِلوں میں فیض بکھیرنے والے ہیں۔ دوسرے شعر میں اعتمادی فدا علی ایثارؔ ہنزوی سے مخاطب ہیں کہ خوش گفتار، خوش کلام اور خوش آواز ایثارؔ کا لہجہ ہمارے بے جان جسم کے اندر وجدانی جوہر پھونک رہا ہے۔ پھر ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ صاف باطن عزیز اللہ نجیبؔ جو ’’دُرِّگوجال‘‘ کے لقب سے ملقب ہیں، جب وہ بات تول تول کر کرلیتے ہیں تو اس سے عقل و دانش کو روشنی مہیا ہوجاتی ہے۔ الواعظ سید خلیل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہمارے سید خلیل صاحب بھی بڑے وقار، شان اور حسبت کے مالک ہیں جن کی پیشانی سے والیٰ نسبی کا ستارہ چمک رہا ہے۔

واہ! کیا کہنے۔ یاد رہے کہ الواعظ شاہ ولیؔ ، الواعظ اعتمادی فدا علی ایثارؔ ہنزوی، الواعظ ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ اور الواعظ رائے سید خلیل صاحب اُس زمانے میں ارضِ شمال کے طول و عرض میں وعظ و نصیحت اور مذہبی پروگراموں کا انعقاد کرتے تھے۔ عصمت اللہ مشفقؔ وخی زبان کے صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔ انہوں نے اسی نوعیت کے کسی مذہبی پروگرام میں ان اساتذہ سے اکتسابِ فیض کیا اور ان کی شان میں یہ شاہکار نظم تخلیق کی۔ یہی ہوتا ہے استاد اور شاگرد کا رشتہ۔ جب کہ آج اساتذہ اپنے شاگردوں کے ہاں ہی زیادہ ناقدری کا شکار ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے کسی دِل جلے کو کہنا پڑا تھا ؂

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں
اُن کو زبان ملی تو ہم ہی پر برس پڑیں

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔

المختصر استاذِ محترم نے زیرنظر کتاب لکھ کر یقیناًایک علمی تحفہ نذرِ قارئین کیا ہے۔ اس کی تیاری میں نہ جانے انہوں نے کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا، کتنی سخت محنت کی ہوگی، کتنی عرق ریزی سے کام لیا ہوگا۔ میں تمام باذوق قارئین کی جانب سے جو ادب کے سرچشمے سے سرشار ہونا چاہتے ہیں، استاذِ محترم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

استاذِ محترم نے جس خالص جذبے سے یہ کتاب لکھی ہے میں اس جذبے پر نازاں ہوں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button