کالمز

خالصہ سرکارتاریخی حقائق اور حکومتی تعبیر

خالصہ سرکار کی تشریح ہمارے خطے میں ایک قومی مسئلہ ہے لیکن اس اہم مسئلے کی طرف آج تک کسی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیم نے توجہ نہیں دی۔ ہمارے ہاں خالصہ سرکار سے مراد وہ اراضی ہے جو بنجر ہے یا قابل کاشت، کسی کے زیر استعمال ہے یا خالی پڑی ہے لیکن کسی فرد واحدکی ملکیت میں نہیں بلکہ خالصہ سرکار کے نام سے قدیم بندوبستی کاغذات میں رجسٹر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ہمارے خطے میں ایسی زمین کو سرکاری ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر عوامی ملکیتی اراضیوں کو بغیر کسی معاوضے کے حکومت اپنی تحویل میں لے کر ضرورت کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ہمارے عوام کے ذہنوں میں شروع دن سے ایک ہی بات ڈالی گئی ہے کہ خالصہ سرکار سے مراد سرکاری زمین ہے جس پر صرف سرکار کو حق ملکیت حاصل ہے یوں اس جھوٹی اور من گھڑت تعریف اور تشریح کی وجہ سے ہمارے عوام کو اکثر اوقات اپنے زیر استعمال زمینوں سے بغیر کسی معاوضے کے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عوام نے کچھ نہ بولنے کی قسم کھائی ہوئی ہے اس وجہ سے ہم آج بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔

یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ تقسیم ہند کے وقت گلگت بلتستان سابق ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا اور تقسیم برصغیر کے وقت ہم مہاراجہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھے۔ اس حوالے سے مزید بحث کرنے سے پہلے یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ اگر ہم تاریخ کے اوراق کو پلٹیں توپتا چلتا ہے کہ ڈوگروں سے پہلے سکھ سلطنت برصغیر میں ایک اہم طاقت تھی جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی قیادت میں ابھری۔ سکھوں نے 1799ء میں لاہور پر قبضہ کر لیا اور پنجاب کے ارد گرد کے علاقوں پر سلطنت قائم کی اور یہ سلطنت 1799ء سے 1849ء تک قائم رہی۔ اس وقت ہندوستان میں کئی سکھ سیاسی تنظیمیں خالصہ ریاست کی بحالی کے لئے باقاعدہ سیاسی جدوجہد کر رہی ہیں۔ اس ریاست کا نام خالصہ سرکاریا سکھ پنجابی بادشاہت تھا جو امرتسر اور لاہور سے ابھر کر پنجاب و گرد و نواح پر قابض ہوئی۔ یہ ریاست ایک وقت میں برصغیر ہند وپاک کی ایک اہم طاقت تھی، جس کے اثرات اس وقت گلگت بلتستان اور گردو نواح تک بھی پہنچے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خالصہ سرکار حکومت 1799 سے 1849 تک رہی اور اس کے بعد پنجاب میں لڑی جانے والی انگریز سکھ جنگوں میں یہ سلطنت تباہ و برباد ہو گئی۔رنجیت سنگھ نے پنجاب میں پھیلی نیم خود مختار سکھ مسلوں یا راجدہانیوں کو منظم کر کے خالصہ سرکار یا سکھا شاہی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اپنے عروج پر یہ سلطنت خیبر پاس سے لے کر تبت کے وسط تک اور مٹھی کوٹ کشمیر تک پھیل چکی تھی۔ زور آور سنگھ کشمیر میں سکھوں کے گورنر جموں، گلاب سنگھ کا وزیر تھا جو وہاں سے آگے سکھا شاہی کے قیام کے لئے بڑھا۔ اس نے لداخ کو 1840 میں فتح کیا۔ وزیر سنگھ نے اسی سال سکردو کو بھی فتح کیا۔ فتح کے بعد اس نے بلتی سپاہ کو اپنی فوج میں شامل کیا اور پھر تبت پر بھی حملہ آور ہوا۔ دوسری طرف سکھ فوج کا ہی کرنل نتھو شاہ، گلگت پر حملہ آور ہوا اور پہلی مرتبہ راجہ گوہر امان کو شکست دے کر اس نے گلگت میں قدم جما لئے۔ وہ 1848 میں، نو مل کے قریب جنگ میں ہلاک ہوا۔ خالصہ سرکار کے وقت ان کے چار صوبے تھے۔ لاہور، ملتان، پشاور اور کشمیر۔ کرنل زور آور سنگھ گلگت پر سرینگر کی جانب سے حملہ آور ہوا تھا اور سرینگر کے حکمران کو ہی جواب دہ تھا۔ 16 مارچ 1840 کو معاہدہ امرتسر کے تحت انگریزوں نے گلگت اور لداخ بشمول بلتستان کی وزارتیں، جموں کے ڈوگرہ راجے کے حوالے کیں۔ کرنل نتھو شاہ، حکمران تبدیل ہونے پر پریشان ہو کر سرینگر گیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ اسے اب تنخواہ اور مراعات کون دے گا۔ ڈوگرہ نے اسے اپنی گلگت عملداری جاری رکھنے کو کہا۔ بالآخر 1860 میں کرنل نرائن سنگھ گلگت پر پوری طرح سے قابض ہو گیا۔سیاسی حوالے سے بھی یہ تاریخ اہم ہے۔ سکھ دور سے لے کر ڈوگرہ دور تک کا موازنہ سامنے رکھتے ہوئے اگر چھبیس اکتوبر1947 کو مہاراجہ کی طرف سے ہندوستان سے الحاق کی داستان دیکھی جائے تو مقامی لوگوں کے حقوق غصب کیے جانے کا ایک نیا دور شروع ہوتا نظر آتا ہے۔

ڈوگرہ دور سے نکل کر ہندوستان کا حصہ بننے اور یکم نومبر کو مقامی جدوجہد کے ذریعے ہندوستان سے آزادی کے بعد جس طرح سے مقامی آبادی کو پاکستان میں شامل کیا گیا اس کا جائزہ بھی اہم ہے۔ اس تمام تر تاریخی تناظر میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی یہاں کے باشندے آئینی اور قانونی طور پر مملکت پاکستان کے شہری قرار نہیں دیے جا سکے لیکن جب ہمارے وسائل کی بات آتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگ پاکستان کا اثاثہ اور پہچان ہیں۔ عوامی حقوق کے لئے جب کبھی گلگت بلتستان کے عوام نے آواز بلند کرنے کی کوشش کی تو اس خطے میں مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی یوں لوگ اصل مسائل سے ہٹ کر آپس میں الجھتے رہے۔ لہٰذا ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انقلاب گلگت کی ناکامی کے بعد جب پاکستان اور آزاد کشمیر کے رہنماوں نے مل کر اس خطے کو دوبارہ کشمیر کی رسی سے باندھ لیا ہے تو جو حقوق سابق ریاست کے باقی خطوں کو حاصل ہیں وہی حقوق گلگت بلتستان کو بھی ملنے چاہیں لیکن ہمارے مقامی سیاست دانوں کی مجبوری یہ رہی کہ وہ پاکستان سے ایسا کچھ بھی منوانے میں ناکام رہے۔ہمارے علاقے ہمارے وسائل کی وجہ سے پاکستانی کہلاتے ہیں مگر یہاں قانون کی عملداری اسلام آباد کے مزاج پر منحصر ہے۔ دکھ اس بات کی ہے کہ سابق ریاست جموں کشمیر کے کسی بھی حصے میں احتجاج نہیں ہوا جب ہمارے خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی شروع کی۔

آج کشمیرکے رہنما کس منہ سے ہماری دھرتی کے دعوے دار ہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ موجودہ حالات اور تاریخی حقائق کی روشنی
میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کے خلاف ورزیوں کو روکنا یہاں کے بیس لاکھ عوام کا قانونی حق ہے اور اس حوالے سے بین الاقوامی طور پر جہدوجہد بھی شروع ہوچکی ہے۔ تاریخ کے آئینے میں اگر دیکھیں تو اس وقت گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار کے حوالے سے جو حکومتی اصطلاحی تعریف ہے وہ پانچویں صوبے کے نعرے سے مماثل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ الحاق بھارت سے بغاوت کرکے ڈوگروں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے لے کر اب تک یہ خطہ آئینی اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں لہٰذا جب تک مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی پیش رفت نہیں ہوتی یہاں کی تمام زمینیں قانونی طور پر عوامی ملیکت ہیں اور غیر ریاستی عناصر یا اداروں کو اس خطے کی زمینوں کو الاٹ کرنے کا مقامی حکومت کو کوئی اختیار نہیں۔ اس حوالے کچھ مہینے پہلے قانون ساز اسمبلی میں حزبِ اختلاف نے ایک بل بھی جمع کرایا تھا لیکن تادم تحریر اس حوالے سے بحث کی کوئی اطلاع نہیں۔ وفاق پاکستان کو چاہئے کہ اس خطے کے عوام کی سادہ لوحی کا مزید امتحان نہ لیا جائے اور یہاں وسائل اور زمینوں پر اس خطے کے عوام کوجو قانونی حق حاصل ہے اسے تسلیم کر کے عوام کو حق ملکیت دیا جائے۔ اس وقت اگر کوئی مقامی باشندہ اپنے زیرِ استعمال اراضی کے اپنے نام انتقال ملکیت کی درخواست دے تو سرکاری اہلکار یہ کہتے ہیں کہ اْنیس سو بیانوے سے قانون انتقال معطل ہے لیکن حکومت کی مرضی سے کئی سو کنال اراضی پچھلے دنوں ریاستی اداروں کے نام نجانے کس قانون کے تحت منتقل کی گئی ہے۔ عوام اتنا جانتے ہیں کہ یہاں جس کی لاٹھی اْس کی بھینس والا معاملہ ہے لیکن یہ روش اب ختم ہونی چاہئے کیوں کہ دنیا بدلتی جارہی ہے، نئی نسل باشعور ہے جو شدت سے اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ انہیں پاکستان کی جانب سے دھوکہ دیا جا رہا ہے۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button