چترال (نذیرحسین شاہ نذیر)آغاخان ہیلتھ سروس چترال کے زیراہتمام سی اے ایچ ایس ایس پراجیکٹ کی تعاون سے بریپ،شوت یوسی یارخون،شاگرام تورکہو،کریم آباد لٹکوہ میں کینسر،ماں بچے کی صحت،معدے کی بیماریاں،ذہنی دباؤاوردیگربیماریوں کے حوالے سمینار منعقدکئے ۔جس میں علاقے مرد خواتین ،طلباء وطالبات منتخب نمائندے کثیرتعداد میں شرکت کی ۔پروگرام آرگنائزسجاد زرین نے کہاکہ سنٹرل ایشیاء ہیلتھ سسٹم اسٹرنتھیننگ (سی اے ایچ ایس ایس)آغاخان ہیلتھ سروس چترال پاکستان کے زیرنگرنی صحت مند معاشرے حوالے سے چترال کے مختلف یوسیزمیں کام کررہے ہیں۔چترال کے مختلف پسماندہ علاقوں میں صحت کے حوالے سے آگاہی سمینار منعقد کررہے ہیں جہاں سینئرتجربہ کارڈاکٹروں سے مختلف بیماریوں کے حوالے تفصیلی لیکچردے رہے ہیں جس سے عوام میں آگاہی پیدا ہورہاہے۔انچارج ہیلتھ سینئرمستوج ڈاکٹرمیرجوال اورڈاکٹر بشیراحمدڈی ایچ کیو ہسپتال چترال نے بریپ،شوت یوسی یارخون،شاگرام تورکہو،کریم آباد لٹکوہ میں کینسر،ماں بچے کی صحت،معدے کی بیماریاں،ذہنی دباؤاوردیگربیماریوں کے حوالے تقریرکرتے ہوئے کہاکہ ماں اوربچے کی صحت کے سلسلے میں پاکستان میں ہفتہ منایاجارہاہے جس میں دوسال سے کم عمرکے بچوں کوحفاظتی ٹیکہ جات،دوسال سے پانچ بچوں کوپیٹ میں پیداہونے والے کیڑوں کی گولیاں دیناچاہیے۔
انہوں نے کہاکہ ماں کا دودھ، صحت و حفاظت کا ضامن ہے۔ انہوں نے کہاکہ حالیہ تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماں کے دودھ پلانے سے بچوں کی پیدائش میں وقفہ بڑھ جاتا ہے اور تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ موروثی ذیابطیس سے متاثرہ بچوں میں ماں کا دودھ نعمت عظمیٰ ہے۔مقرریں نے زور دے کرکہاکہ ماں کا دودھ پلانا بچے میں ماں سے انسیت بڑھانے کا سبب بنتا ہے اور نفسیاتی طور پر شیر خوار اپنی ماں سے قریب ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی تقریباً 10 سے 16 فیصد آبادی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے، اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق 18 کروڑ سے زائد آبادی کے لیے صرف 400 سائیکاٹرسٹ اور 5 ذہنی امراض کے ہسپتال موجود ہیں۔ اگر اس کا تناسب دیکھا جائے، تو 5 لاکھ لوگوں کے لیے صرف ایک سائیکاٹرسٹ موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ معدے میں تیزابیت اورسینے میں جلن کامسئلہ عام طورپراس وقت درپیش ہوتاہے جس معدے کے گیسٹرک گلینڈبہت زیادہ مقدارمیں ہائیڈروکلورک ایسڈجارج کرنے لگتے ہیں جس سے معدے کی تیزابیت میں اضافہ ہوجاتاہے ۔
انہوں نے صحت کی عالمی تنظیم کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ 2005 ء سے لیکر 2015ء کے آخر تک آٹھ کروڑ چالیس لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے جبکہ سال 2032ء تک ان کی تعداد 14ملین سے بڑھ کر 22 ملین ہو جائے گی۔ اگر مناسب تدابیر برائے تشخیص اور علاج مہیا کر دی جائیں تو اس میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ مولاناسردارعالم شاگرام اورالاوعظ سردارعلی نے قرآن اورسنت کی روشنی میں پروگرام پرروشنی ڈالی۔
اس موقع پرسیکرٹری لوکل کونسل بریپ عبدالغفار،وی سی ناظم بریپ اکبرحسین ،چیئرمین ہیلتھ کمیٹی شوت یارخون علی دیارخان ،سابق ناظم عبدالقیوم بیگ،سفیداللہ،احمداللہ بیگ،سابق ناظم سیف اللہ شاگرام ،سی سی ناظم عبدلمراد،محمدشریف خان کریم آباد اوردیگرمقریریں نے آغاخان ہیلتھ سروس چترال پاکستان اورسی اے ایچ ایس ایس کے خدمات کوخراج تحسین پیش کیا۔