کالمز

دیامر پسماندہ کیوں ہے؟

سوشل میڈیا پر کچھ دوست دیامر کی پسماندگی کی بنیادی وجوہات کے حوالے سے ا پنی اپنی رائے کااظہار کر رہے ہیں کچھ توہر چیز کا قصور وار سیاستدانوں کو گردان رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاستدان عوامی فلاح و بہبود کیلے سوچنے کے بجائےذاتی معاملات کو لیکر چلتے ہیں ووٹ تو عوام سے لیتے ہیں مگر عوام کیلے کچھ کام نہیں کرتے۔کچھ کا خیال ہے کہ عوام باشعور نہیں ہیں علم کی کمی ہے معاملات کا ادراک نہیں رکھتے اور حق رائے دہی کا استعمال کرتے وقت بہتر انتخاب نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے پسماندگی میں کمی ممکن نہیں ہے۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اجتماعی سوچ کا فقدان گروہی تقسیم زات پات کی روایات نے دیامر کو ترقی سے دور رکھا ہے۔کچھ دوست اپنے زاتی رائے کے تاکید کے ساتھ قبائلی سوچ اورنسلی تفرقہ بازی اور شدت پسندی کے عوامل کو ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹ گردانتے ہیں تو دوسری طرف عوام میں اتحاد و اتفاق کی کمی اور دیگر بے شمار وجوہات کو مورد الزام ٹھہرانے والوں کی بھی کمی نہیں ہیں ۔

لیکن چوک چوراہوں پر ہونے والی سر گوشیاں کچھ الگ ہی ہیں ۔یہاں بھی ایک دنیاں ہے جو رونا روتے ہیں کہ ان کے آنکھوں کے سامنے ایک ایک گاوں کو چن چن کراضلاع بنا دیا گیامراعات کی بارش ہوئی ایک تحصیلدار تعینات نہیں ہوا بلکہ پوری انتظامیہ آگئی انصاف کا حصول گھر کے دہلیز پر ہوا سڑکیں پل اور سکولز بنے ا یک دو نہیں سیکڑوں لوگوں کو روزگار ملا وسائل پیدا ہوگئے تو یقینی بات ہے پسماندگی دور ہوگئی اس کے بر عکس داریل تانگیر بے شمار انتظامی مسائل اور ایک ضلع کیلے درکار وسائل رکھنے کے باوجود محض بدنیتی کے بنیاد پر ضلع نہ بن پایاتو خاک پسماندگی دور ہوگی؟ ا یسی گروپ میں سے ایک کا خیال ہے کہ دیامر کو پسماندہ رکھنا ہر آنے والی حکومت کی خواہش ہوتی ہے تاکہ دیامر کو خوف کے علامت کے طور پرپیش کیا جا سکے ۔ان تمام الزامات کا اگربغور جایزہ لیا جائے تو ایک ایک لفظ صادق آتا ہے۔حکومت عوام سیاستدان معاشرتی روایات گروہی تقسیم قبائلی سوچ حکومتوں کی تنگ نظری اور بدیانتی یہ وہ بڑی رکاوٹیں ہیں جس کی وجہ سے اکیسوی صدی میں بھی دیامر پسماندگی کے آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔یہاں پر نہ ڈہنگ کے تعلیمی ادارے ہیں نہ صیحت کے شعبے میں کوئی بہتری دیکھائی دیتی ہے نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ سڑکیں ہیں دہی علاقے تو اب بھی پتھر کے زمانے میں ہیں یہاں روڈ تو دور کی بات مویشیوں کا قدیم راستہ انسان استعمال کرنے پر مجبور ہیںیہاں پرابتدائی طبی امداد بھی دستیاب نہیں ہے بیشتر مریض جیب ایبل روڈ تک نہیں پونچ پاتے راستے میں ہی خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔اکلوتا ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس کی حالت زار کا تزکرہ ہی فضول ہے ایک ایک کر کے سب ڈاکٹروں کو وہاں سے اٹھا یاجا چکا ہے گنے چنے ڈاکٹررہ گئے ہیں بچارے روزانہ سیکڑوں مریضو کا معاینہ کرتے ہیں۔مریضوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں کچھ قسمت سے بچ جاتے ہیں توکوئی بے موت مر جاتے ہیں۔ چلاس شہر کی حالت الللہ معاف کریں ایک روڈ ہے باب چلاس سے شہر تک جو بمشکل تین کلومیٹر ہوگا پچھلے پچیس سالوں سے بن رہا ابھی تک تکمیل نہیں پاتاباقی شہر کے لنک سڑکوں کا کیا حال ہوگا آپ خد ہی اندازہ لگائے۔گندہ پانی فٹ پات کے ساتھ بنی نالیوں میں بھہ رہا ہے جس کی وجہ سے پیدل چلنا محال ہو چکا ہے شہری ایک کرب ناک ازیت میں مبتلا ہے پینے کا صاف پانی نایاب ہے واٹر سپلائی کی لائنیں جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں شہر کا کوئی پر سان حال نہیں انتظامیہ اپنے آفیسری غریب تاجروں پر دیکھا رہی ہے اصل مسایل کی طرف توجو ہی نہیں ہے۔خیر بات پسماندگی سے چلی تھی اس پسماندگی کی جگہ اب مایوسی نے لی ہے ظاہر ہے ہر آنے والی حکومت بھیڑ بکریوں والا رویہ رکھے جایض حقوق نہ ملے تو احساس محرومی پیدا ہوگی اور یہ احساس محرومی آگے چل کر معاشرے کو شدت پسندی کی طرف لیے جائے گا۔

ایک بات جو یہاں پر شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ اہم منصب پر دیامر کی نمایندگی نہ ہونے کی وجہ سے دیامر نظر انداز ہے گورنر،وزیر اعلی،سپیکر،ڈپٹی ،سپیکر ،میں سے کوئی بھی اہم منصب کا فال دیامر کے نام نہیں نکلاپچھلے دور حکومت میں تو پیپلز پارٹی کو دیامر سے ایک بھی نشست نہیں ملی پھیر بھی دو وزارتیں ایک پار لیمانی سیکٹری اور ایک ممبر کونسل ایک مشیر برائے وزیر اعلی کے مناصب دیامر کے نام ہوگئے لیکن موجودہ حکومت کو تو تین نہیں بلکہ زمنی کے ساتھ چار نشستیں ملی ہیں اس کے باوجود بھی کوئی اہم منصب کا حقدار دیامر نہیں ٹھہرا اور یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ ایسی حکومت نے شگر کھرمنگ ہنزہ اور نگر کو اضلاع بنا یا لیکن داریل اور تانگیر کو نظر انداز کردیا۔موجودہ صوبائی حکومت کو وقت ضایع کیے بغیرحالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پسماندہ دیامر کو ترقی یافتہ دیامر بنانے کی ضرورت ہے چونکہ پسماندہ دیامر کے بجائے ترقی یا فتہ دیامر ہم سب کی حق میں بہتر ہے۔خاص کر مسلم لیگ ن کو دیامر میں اپنے موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کیلے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے چونکہ یہاں کے لوگ معاشی طور پر توپسماندہ ہوسکتے ہیں مگرزہنی طور پر پسماندہ نہیں ہیں اچھائی اور برائی میں تمیز کے ساتھ احسان کا بدلہ احسان سے دینے کی روایت رکھتے ہیں اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ حقایق کو سنی ان سنی کرتی ہے یا فوری اقدامات کو یقینی بناکر اپنے پزیشن کو مستحکم کرتی ہے؟

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button