کالمز
اثر تاج کا سانحہ ارتحال، رب مغفرت کرے


ننھے اثر تاج جس کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزاں، دل پریشاں اور تخیل حیراں ہے، تاج صاحب کے پوتے اور ظفر صاحب کے صاحبزادے تھے۔ ان کی بے وقت موت نہ صرف ان کے خاندان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ چودہ سالہ اثر تاج ایک عرصے تک کینسر جیسے جان لیوا مرض سے بڑی ہمت کے ساتھ لڑتے رہے۔ اس دوران وہ آغاخان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں تقریباً ایک سال اور بعد ازاں پمز اسلام آباد میں بھی ایک عرصے تک زیرِ علاج رہے۔ کراچی میں قیام کے دوران میں ایک دو بار ان کی عیادت کو بھی گیا تھا اور ننھے اثر تاج کی مسکراہٹ اور ہمت کو داد دیتا رہا کہ اتنے مہلک مرض کے باوجود وہ انکل کہہ کے بڑے ادب سے مجھ سے ملتے تھے، مسکراہٹیں بکھیرتے تھے۔ ظفر صاحب اور تاج صاحب نے ان کے علاج کے حوالے سے پوری کوشش کی لیکن وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ میں اکثر اپنے لیکچرز اور وعظ میں کہتا رہتا ہوں کہ جہاں ہماری کاوشیں ختم ہوجاتیں ہیں، جہاں ہماری عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ہاں جہاں ہم تھک جاتے ہیں وہاں سے آگے خدا کا تصور موجود ہوتا ہے۔ پھر انسان بے بس ہو جاتا ہے اور رب ذوالجلال کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے۔ اور شاید اسی کا نام ہی زندگی ہے کہ زندگی کو فنا ہے اور قرآن پاک کے مطابق ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ گویا زندگی اذاں اور نماز کے درمیاں وقفے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کسی دل جلے نے کیا خوب کہا ہے؎