کالمز

درکوت کا گرم چشمہ

جاوید احمد ساجد

کہا جاتاہے کہ صدیوں پہلے علاقہ یاسین ورچی گھوم یا ورشی گھوم کہلاتا تھا کہتے ہیں کہ یسن یا یاسین جو کہ اپنی ذرخیزی کی وجہ سے ایک امیر علاقہ تھا اور چترال کے گاؤں ورچ سے کوئی شخص یاسین آیاتو یہا ں اسے ہر قسم کی ارام و آسائش نصیب ہوا اور وہ واپس نہیں گیا جس کے وجہ سے چترال کے لوگ یاسین کو ورچک گھوم کہنے لگے اور اسی وجہ سے یہ علا قہ ورچی گھوم یا ورشیگھوم کہلانے لگا اور آج بھی گوپس اور چترال کے پرانے لوگ یاسین کو اسی نام سے پکارتے ہیں ، لیکن ڈاکٹر (میجر ریٹا ئرڈ) کا کہنا ہے کہ ورچ نامی ایک دیو کی وجہ سے ورچ گھوم کہا جاتا ہے ، واللہ و عالم لبصواب یاسین کا گاؤں درکوت جو کہ اپنے مختلف پہاڑی اور تاریخی دروں کی وجہ سے بھی مشہور ہے ۔ ایک درہ یاسین کو اشکومن سے ملاتا ہے، دوسرا بہت مشہور درہ جو کہ بروغل اور ویخان کی طرف نکلتاہے اور ایک درہ درکوت کہ دسپر نالہ کے ذریعے تھوئی جا نکلتا ہے ایک اور درہ جو چترال کے یار خون تک رسائی حاصل کرتا ہے، کے علاوہ گرم چشمہ اور اپنی تاریخی دربند کی وجہ سے بھی وجہ شہرت رکھتا ہے جہاں یاسین کے بہادر بروشو قوم نے بہت سے بیرونی حملہ آوروں کے سورماوں کو تہہ تیغ کیا ۔ درکوت جو کہ چترالی لفظ دارو کوچھ یعنی لکڑی کا جنگل سے نکلا ہے یا بگڑ کر درکوت بن گیا ہے۔

صدیوں پہلے ایک بزرگ اچانک درکوت میں آگئے اور یہاں کے سادہ لوح لوگوں نے اس بزرگ کی کئی سال تک بڑی خدمت کیا اور ویسے بھی یہاں کے مکین اپنی مہمان نوازی کے لئے مشہور ہیں ۔کئی برسوں بعد اس بزرگ نے اس علاقے کو خیرباد کہنے سے پہلے اپنے خدمت گذارو ں سے کہا کہ درکو ت کے نالہ دلوئنگ سے آگے درہ درکوت جو ویخان کی طرف جاتا ہے وہاں ایک گرم پانی کا چشمہ ہے جو دسمبر کی یخ بستہ موسم میں بھی ابلتا ہو گا، اگر اس چشمے کی پانی میں کوئی نہائے گا تو اس کی کئی جلدی اور اندرونی بیماریوں کے لئے شفا ہوگا ، پھر کیا تھا کہ اس بزرگ کے علاقے سے چلا جانے کے بعد چند سر پھیرے نوجوانوں نے ادھر کا رخ کیا اور اللہ کی قدرت دیکھئے واقع ہی اس جگہ ایک نہایت ہی گرم پانی کا چشمہ تھا ۔ اور ارد گرد کے پہاڑ برف سے اٹے پڑے تھے لیکن چشمہ کے ارد گرد کافی جگہ میں برف کا نام و نشان تک نہ تھا اور جب ان نوجوانوں نے گاؤں میں آکر اس امر کی تصدیق کیا تو کئی لوگوں نے اس طرف کا رخ کیا اور جب پہلے شخص نے اس پانی میں نہانے کے بعد اپنی شفایابی کا علان کیا ۔ تو پس پھر کیا تھا لوگوں نے جوق در جوق اس چشمے کا رخ کیا اس دن سے آج تک نہ صرف یاسین کے لوگ بلکہ آہستہ آہستہ گوپس، پونیال، اشکومن، گلگت اور یہاں تک کہ چلاس کے لوگ بھی اس چشمے کی پانی میں نہانے کے لئے آتے تھے اور شفایاب ہو کر جاتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ خبر بہت دور دور تک پھیل گیا اور لوگ جون اور ستمبر کے مہینے میں جوق در جوق اس چشمے کا رخ کرتے اور اپنی اندرونی اور جلدی بیماریوں سے نجات پاتے اور واپسی پر اپنے گاوں اور علاقے کے لوگوں کو بھی مزے لے لے کر سناتے اور جس کسی میں تھوڑی سی بھی بیماری ہو تی تو وہ ماہ جون یا ستمبر کا انتظار کرتے اور پھر شفا یابی کی غرض سے درکوت کا رخ کرتے۔

اس زمانے میں گلگت بلتستان کا وجود بھی شاید نہ تھا کیو نکہ یہ علاقے دردستان اور بلورستان یا شاید اس سے بھی قبل عظیم بروشال کے نام سے جانے جاتے تھے۔ چنددہائیاں پہلے تک یہاں سڑک تو در کنار راستے بھی بہت دشوار گذار تھے تو اس زمانے کا ذرا سوچئے کہ کیا حال ہو گا اس کے باوجود لوگ چشمے کے موسم میں اس علاقے میں دور دراز سے پیدل او ر گھوڑوں پر سوار ہو کر آتے اور اس چشمے سے مستفیذ ہوتے ۔ ان دنوں میں ہسپتال نام سے بھی شاید کوئی واقف ہو۔ اس چشمے میں نہانے کا طریقہ بھی الگ سا ہے ۔ چشمہ جس جگہ سے پھوٹتا ہے اس سے ایک دو قدم دور ایک کچا سا ٹپ بنایا گیا تھا کیونکہ جہاں چشمہ پھوٹتاہے وہاں اتنا گرم ہو تا ہے کہ اس میں اگر انڈا ڈالدیا جائے تو اُبل جاتاہے ، اس لئے تھوڑا دور لا کر یہ ٹپ یا چھوٹا سا تالاب بنایا گیا تھا۔ جس میں چشمے کے پانی کو جمع کیا جاتا اور مریض کپڑے اتار کر آہستہ آہستہ اس میں لیٹ جاتا اور زیادہ سے زیادہ دو یا تین منٹ بہت برداشت والا انسان اس پانی میں گذار سکتا ہے ، اور اگر تھوڑا سا بھی ہل جائے تو جسم کو جلن ہو تی ہے ، پھر باہر نکلنے کے لئے بھی آہستہ آہستہ سے باہر نکل کر جلدی سے کسی لحاف یا کمبل اوڑ کر گرم بسترہ میں پسینہ لیتا ہے اور دوسرا، مریض نہانے سے پہلے اس تالاب یا ٹپ کو خالی کرتا ہے اور پھر سے بھرتا ہے اور اس میں نہاتا ہے ۔ ٹپ میں اتر کا کچھ دیر چشمے کی گرمی برداشت کرنا پھر گرم بستر میں گھس کر پسینہ لینا یہ ایک عمل ہے جس کو کئی مرتبہ دھرایا جاتا ہے اور پھر دو دن تک گرمی میں بھی گرم کپڑے پہن کر پسینہ لیا جاتا ہے اور دو دن تک ٹھنڈا پانی پینا منع ہے گرم پانی یا قہوہ اور گرم کپڑے پھر تیسرے چوتھے دن سے آہستہ آہستہ نارمل زندگی کی طرف لوٹنا پڑتا ہے اور جتنا دن بتائے ہوئے طریقے سے پرہیز کیا جائے اتنا ہی دوا کااثر زیادہ ہو تا ہے اور بیماریوں سے آہستہ آہستہ نجات پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پانی میں اتنا شفا رکھا ہے کہ جلد کیتمام امراض، جوڑوں کے درد، سر کا درد، نیم سر کا درد، کمر کا درد ، گھٹنے اور ٹخنوں کا دردہو یا ہڑیوں کا درد ، اس پانی میں نہانے کے بعد بفضل تعالیٰ دور ہو جاتے ہیں۔ اس چشمے میں نہانے کے بعد بہت سے بے اولاد وں کو اللہ نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ درکوت تک آج کل ہر قسم کی ٹیفک مل سکتی ہے گلگت سے بذریعے ویگن، جیپ، کار وغیرہ کریہ کے لئے آسانی سے مل سکتی ہیں۔ درکوت سے چشمے تک گھوڑا کرایہ پر حاصلکریں یا پیدل مارچ یہ آپ کی مرضی ہے بہتر یہ ہے گھوڑا حاصل کیا جائے۔

اکثر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ شام کے وقت پہنچ جائیں تاکہ رات بھر آرام سے چشمہ میں کئی بار نہانے یا پانی میں لیٹ کر ٹکور لینے پھر نکل کر گرم بستر میں گھس کر پسینہ لینے میں آسانی ہو تی ہے، اگر گھوڑا ساتھ ہو تو اسے باندھنے اور کچھ خوراک کا بھی بندوبست کیا جائے گا، پھر لکڑی وغیرہ کا بھی انتظام کرنا ضروری ہوتا ہے ایک تو رات کو گرمیوں میں بھی ٹھنڈک ہوتی ہے اور پھر مریض کو بھی اور خود کو بھی گرم رکھنے کے لئے قہوہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ یاد رکھیں کہ مریض کے ساتھ ایک تندرست آدمی کا ہونا بھی لازمی ہے اگر مریض عورت ہو تو پھر ایک عورت کی بھی ضرورت ہو گی لیکن اگر مرد ہو تو صرف ایک مرد اگر ساتھ ہو گا تو کام چل جائے گا ۔ چونکہ بعض دفعہ مریض کچھ وقت زیادہ پانی کے اندر رکے تو بے ہوشی کا بھی خدشہ ہو تا ہے اس لئے بہتر ہے کہ دو تندرست بندے ساتھ ہوں ۔ آگ جلانا اور پھر چائے وغیرہ کا انتظام کر بھی لازمی ہو تاہے۔اور پھر خدا نخواہستہ کہیں موسم اگر اچانک خراب ہو جائے تو پھر مددگار کی تو اشد ضرورت ہو تی ہے ۔ بعض لوگ ایک بڑے گروپ کی شکل میں جاتے ہیں ایسی صورت میں بھی جتنے مریض ہوں اتنے ہی ساتھ میں مددگار ہو نا لازمی بات ہے

حوالدار زیربلی، جو گلگت سکاوٹس میں تھا اورپنشن آنے کے بعد اپنے علاقہ قرقلتی کا نمبر دار بھی رہ چکاہے ، کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ گلگت سکاوٹس کا ایک پلاٹون گشت کے غرض سے بروغل وخان کی طرف گیا جس میں حوالدار خود بھی شامل تھے جب وہ بروغل سے واپسی پر دوسرے ساتھیوں کو چشمہ دکھانے کی غرض سے چشمے کے پاس گیا تو وہاں چلاس کے علاقے کے تین لوگ چشمے سے ذر ا ہٹ کر بیٹھے ہوے تھے جب حوالدار نے نے ان سے پوچھا کہ وہ کہا ں سے آئے ہیں اور یہ کہ اتنا دور کیوں بیٹھے ہیں تو ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم لوگ چلاس سے آئے ہیں اور اس چشمے کے لئے آئے ہیں لیکن ہم چونکہ جذام کی بیماری میں مبتلا ہیں اس لئے اس چشمے کے پانی میں اس لئے نہیں نہاتے کہ ہماری وجہ سے یہ بیماری کسی دوسرے انسان کو نہ لگے ۔ ہمار ا یہ عقیدہ ہے اگر اس چشمے میں اللہ تعالیٰ نے واقعی شفا رکھا ہے اور واقع کسی بزرگ کی دعا سے یہ نکلا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے اس نیک بندے کے خاطر ہمارا یہ بیماری دور فرمائے گا، اور ان لوگوں نے اس وقت کے سکہ رائج الوقت کے مطابق کچھ روپے بھی دیا کہ یہ کسی غریب کو دیدو کہ وہ بھی ہمارے حق میں دعا کرے۔ پھر حوالدار زیر بلی نے اپنے مگ میں چشمے کا پانی ان کو دیا کہ پی لو ،تو ان لوگوں نے اپنے برتن آگے کیا کہ اس میں ڈالو ہم آپ کا بر تن بھی استعمال نہیں کرنگے اسطر ح حوالدار صاحب نے ان کے برتنوں میں پانی ڈلتا گیا وہ پیتے رہے اور منہ ہاتھ دھویا اور ایک بار پھر اللہ کے حضور دعامانگ کر واپس اپنے علا قے کو چل دیا ، کئی سال بعد حوالدار زیر بلی کی تعینات ڈیوٹی کے سلسلے میں چلاس چھاونی میں ہوئی اور ان بیماروں میں سے ایک بندے سے چلاس کے مارکیٹ میں ملاقات ہوئی اور اس نے بتایا کہ وہ تینوں بندے ایسے ہی توانا اور تندرست ہوے ہیں اور اس نے یہ بھی بتایا کہ ہم اپنے گھر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ایسے ٹھیک ہوے کہ ہم رات کو سو گئیاو جب صبح اٹھے تو ہمارے جسم کی جلد اس طرح اتر گئی تھے جس طرح سانپ سردیوں کے بعد موسم بہار میں اپنی کھال اتار پھینکتا ہے اور اللہ کے کرم سے بالکل تندست ہو کر اپنے گھروں کو گئے واللہ عالم لبصواب،

بر کولتی کا ایک عالم خلیفہ سے اس کی کہانی بھی میں نے خود سنی ہے کہ وہ چشمے تک جانے کے لئے پہلے گھوڑا ، استعمال کیا اور جب گھوڑے کی سواری اس کے لئے ناممکن ہوا تو اس کو گھوڑے سے اتارا گیا اور وہ ہاتھ اور پاوں کی مدد سے چو پایوں کی طرح رینگ رینگ کر چشمے تک پہنچا او ر رات بھر وہ نہانے اور پسینہ لینے کا عمل دھراتا رہا اور اس کا کہنا تھا کہ واپسی پر میں اپنے پاوں پر چل کر آگیا ۔ دیکھئے قدرت کے کار نامے ۔

جب چشمہ کوئی بندہ جاتا ہے تو درکوت گاوں سے تھوڑا ، آ گے ایک زیارت آتا ہے کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ بزرگ رہتے تھے۔اور چشمہ جانے والے اس زیارت پر کچھ نہ کچھ صدقہ خیرات دے کر جاتے ہیں ۔پھر چشمہ میں نہا کر شفا یابی پاتے ہیں ۔ اس چشمے کے اردگرد کے پہاڑ اکتوبر سے مئی کے آخر تک برف سے ڈھکے رہتے ہیں لیکن چشمہ سے ابلتا ہوا پانی کا بھاب نکلتا رہتاہے۔

یہاں موسم بہار تقریباََ مئی کے آخر میں شروع ہوتاہے جونہی برف ہٹ جاتی ہے نیچے سے سر سبز گھاس اور رنگ برنگے پھول نکل آتے ہیں اور (پھر چراغ لالہ سے روشن ہوے کوہ دمن ، اُدھے اُدھے نیلے نیلے پیلے پیلے پیر ہن ) کی مصداق جنت کا نظارا پیش کرتے ہیں، اور ان پہاڑوں پر انتہائی خوشبو دار زیرہ اپنا خو شبو بکھیرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے دوسر ے پہاڑوں کی طرح یہ پہاڑ بھی طرح طرح کے جڑی بو ٹیوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن ان کی شناخت کرنے والا حکیم موجود نہیںَ

جیسا کہ میں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ درکوت اس لہٰذ سے بھی ایک تاریخی مقام ہے کہ اس کے دربند کے مقام پر کئی لڑائیا ں ہوئی ہیں اور بہت سے بیرونی حملہ آوروں کو یاسین والوں نے پسپا کیاہے ۔ یہ وہی مقام ہے جہاں ایک مشہور سیاہ اور حکومت برطانیہ کے جغرافیکل سکشن کا ممبر جارج ہیورڈ و کو یاسین کے راجہ میرولی کے ایماء پر چند سرفروشوں نے بے دردی سے قتل کیا تھا جس کی وجہ سے انگریزوں نے اپنی دور حکومت میں یاسین کو مکمل نظر انداز کیاتھا۔یہی وجہ ہے یاسین گلگت بلتستان ترقی کے لہٰذ سے پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر میدان میںآگے بڑھ رہا ہے۔

جارج ہیورڈ کا درکوت میں قتلgeorge-haward

JOHN KEA کی کتاب گلگت گیم (GILGIT GAME) سے اقتباسات: اُس رات صاحب نے کھانہ نہیں کھایا۔ صرف چائے پیا۔ ساری رات کرسی پر بیٹھا رہا۔ سامنے بندوقیں اور پستول رکھے تھے۔ بائیں ہاتھ میں پستول تھا اور دائیں ہاتھ سے لکھ رہا تھا۔ صبح سویرے ایک کپ چائے پیا۔ اور گھنٹہ دو گھنٹہ آرام کر نے کے لئے لیٹ گیا۔شادل امان نے ایک آدمی بھیجااور معلوم کیا کہ وہ سو رہاتھاتب اپنے آدمیوں کو اُس جگہ لایاجہاں ٹنٹ نصب کیا گیا تھا وہ خود اندر گیا ، خانسامے نے کہا کہ صاحب سویا ہو اہے، کوکلی اندر ٹنٹ میں گھس گیا ، پٹھان نوکر نے روکنے کی کوشش کی،  دوسرے آدمیوں نے اس کو روکا، کوکلی نے صاحب کا گلا اپنے دونوں ہاتھوں میں دبوچ لیا۔ اور تمام نوکروں پر قابو پایا گیا۔ اور ان کو باندھا گیا، انھوں نے صاحب کو باندھا ہوا ڈیڑھ میل دور جنگل میں لے گئے۔صاحب نے ان کو منوانے کی کوشش کی، پہلی بات یہ کہ سارے تحائف جو صاحب کے پاس ہیں وہ ان کو دئے جائنگے تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ سب تو ویسے بھی ہماری ہیں، پھر صاحب نے انگلستان سے ایک خطیر رقم جان بخشی کے بدلے پیش کش کی۔ اس پیش کش کو بھی انھوں نے ٹھکرا دیا، پھر صاحب نے گلگت کے گورنر کو رقم دینے کے لئے خط بھیجنے کے لئے کہا انھوں نے ان سنی کر دی، صاحب نے کہا کہ ان کے منشی کو حاضر کر دیں ، لیکن منشی کے ہاتھ پیچھے باندھ کرایک گروہ اس کو قتل کرنے کسی اور طرف لے جا چکا تھا۔ صاحب نے انگلی سے انگوٹھی اتروایا۔ شادل امان نے اپنا تلوار نیام سے باہر نکالا، ہیورڈ نے زیر لب کچھ پڑھنا شروع کیا ، شاید یہ ایک دعا پکار رہاتھا جو موت کو سامنے دیکھ کر خدا کے حضور پیش کر رہا تھا،

شاہ دل امان کی ایک ہی وار نے صاحب کو زمین بوس کردیا، کوکلی آگے بڑھا ، ہیورڈ کے کمر سے تلوار نکالااور کہا کہ میں اس تلوار کو آزمانہا چاہوں گا، کوکلی نے ہیورڈ کے اپنی ہی تلوار سے اس پر وار کیا اس کے ساتھ ہی اس سیلانی کی جسم کو خدا حافظ کہا اُس وقت صبح کے ۸ یا ۹ بج رہے تھے۔ ریفرنس دی گلگت گیم جان کی صفحہ ۷۷ (Ref, The Gilgit Game , John Kea page 77 )

جارج ہیورڈ کا جسم بغیر عسائی طریقہ تدفین کے فرنگ بر کے اُس مقام پر پتھروں کے ڈھیری کے نیچے دبا ہوا تھا، راجہ پہلوان نے درکوت کے اس مقام پر کسی ڈوگر ہ یا بر طانیوی ملازم کو نہ جانے دیا، آخر مسٹر ڈ ریو (Drew) کی کوششوں کی نتیجہ میں صرف ایک ڈوگرہ ملازم کو ہیورڈ کی جائے ہلاکت کے معائنہ کی اجازت مل گئی، یہ ڈوگرہ ملازم ہیورڈ کی موت کے تین ہفتے بعد وہاں گیا، اس نے پتھروں کی کافی ڈھیریاں دیکھی ، ان میں سے ایک کے نیچے سے دو باندھے ہوے ہاتھ نظر آئیں یہ ہاتھ جارج ہیورڈ کے تھے۔ ان ہاتھوں کی رنگت بدل چکی تھی، لیکن ہیورڈ کے بال اور داڑھی سے اس نے شناخت مکمل کیا۔

ہیورڈ کے کچھ ذاتی اشیاء جن میں ٹنٹ ، کتابیں، گھوڑا، تلوار، ہاتھ کی گھڑی، کے ساتھ اس کی لاش گلگت لائی گئی ڈریو نے اس کے

وہ جگہ جہاں جارج ہیورڈ کو قتل کیا گیا تھا
وہ جگہ جہاں جارج ہیورڈ کو قتل کیا گیا تھا

تدفین کی عسائی رسومات ادا کی اور ڈوگرہ سپاہیوں نے آخری سلام پیش کیا اس کے سرہانے کتبہ لگایا گیا، جس پر یہ تحریر لکھ دیا گیا ہے۔

لفٹننٹ جارج ڈبلیو ہیورڈ کی مقدس یاد میں۔ جس کو ۱۸ جولائی ۱۸۷۰ ؁ء کو جب وہ سطح مر تفع پامیر جا رہے تھے ، درکوت کے مقام پر ظالمانہ طریقے سے مارا گیا۔ یہ کتبہ عزت ماپ مہاراجہ کشمیر اور رائل جغرافیکل سو سائٹی لندن کی طرف سے نصب کیا جاتا ہے۔

The Gilgit Games page 75

ہنری نیو بولٹ نے یہ مشہور نظم بھی اس بارے میں لکھا ہے

Henry Newbolt. b. 1862

860. He fell among Thieves

‘YE have robb’d,’ said he, ‘ye have slaughter’d and made an end,

Take your ill-got plunder, and bury the dead:

What will ye more of your guest and sometime friend?’

‘Blood for our blood,’ they said.

He laugh’d: ‘If one may settle the score for five, 5

I am ready; but let the reckoning stand till day:

I have loved the sunlight as dearly as any alive.’

‘You shall die at dawn,’ said they.

He flung his empty revolver down the slope,

He climb’d alone to the Eastward edge of the trees; 10

All night long in a dream untroubled of hope

He brooded, clasping his knees.

He did not hear the monotonous roar that fills

The ravine where the Yass238n river sullenly flows;

He did not see the starlight on the Laspur hills, 15

Or the far Afghan snows.

He saw the April noon on his books aglow,

The wistaria trailing in at the window wide;

He heard his father’s voice from the terrace below

Calling him down to ride. 20

He saw the gray little church across the park,

The mounds that hid the loved and honour’d dead;

The Norman arch, the chancel softly dark,

The brasses black and red.

He saw the School Close, sunny and green, 25

The runner beside him, the stand by the parapet wall,

The distant tape, and the crowd roaring between,

His own name over all.

He saw the dark wainscot and timber’d roof,

The long tables, and the faces merry and keen; 30

The College Eight and their trainer dining aloof,

The Dons on the da239s serene.

He watch’d the liner’s stem ploughing the foam,

He felt her trembling speed and the thrash of her screw;

He heard the passengers’ voices talking of home, 35

He saw the flag she flew.

And now it was dawn. He rose strong on his feet,

And strode to his ruin’d camp below the wood;

He drank the breath of the morning cool and sweet:

His murderers round him stood. 40

Light on the Laspur hills was broadening fast,

The blood-red snow-peaks chill’d to a dazzling white;

He turn’d, and saw the golden circle at last,

Cut by the Eastern height.

‘O glorious Life, Who dwellest in earth and sun, 45

I have lived, I praise and adore Thee.’

A sword swept.

Over the pass the voices one by one

Faded, and the hill slept.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button