کالمز

سی پیک ،خدشات اورحقائق ۔۔

تحریر ۔ منظر شگری

سی پیک کی بازگشت پاکستان اور چین کو ملانے والی سرحد خنجراب پاس سے نکل کر دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے ایوانوں تک گونج اٹھی۔تاہم بین الاقوامی طاقتیں بالخصوص پاکستان کے بعض ہمسایہ ممالک کیساتھ یورپ کے بعض پاکستان مخالف ممالک اور امریکہ چائینا پاکستان اقتصادی راہداری کے ڈٹ کر مخالفت کرتے رہے ۔پاکستان میں کسی بھی منتخب حکومت نے 2007 میں پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کا معاہدہ طے ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمدپر امریکی دباو کی وجہ سے گریز کیا ۔ 51 بلین امریکی ڈالرز کے اس بڑے منصوبے کو مکمل کرنے کے لئے افواج پاکستان نے بیڑا ٹھالیا ۔افواج پاکستان کو اس منصوبے کی تکمیل کے لئے دشمن ممالک کی جانب سے اندورنی دہشت گردی کیساتھ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کمر کس لی ۔ لیکن سی پیک میں صوبوں کے خدشات کو حکومت ختم نہ کرسکی اور ہر صوبے نے سی پیک میں اپنے اپنے حصے کے لئے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا ۔ماسوائے قومی سطع کی میڈیا میں اگر کسی خطے کے سی پیک کے حوالے یہاں کے عوام کے تحفظات سامنے نہیں آئے تو وہ گلگت بلتستان ہیں ۔

کچھ زکر گلگت بلتستان کا لازمی ہوگا تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہونے کیوجہ سے وفاق پاکستان کے زیرکنٹرول ایک نیم انتظامی صوبہ ہے ۔ جوکہ آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے ۔ بلکہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے حوالے سے وفاق پاکستان کے وزارت خارجہ کا ہمیشہ سے سرکاری موقف رہا ہے ۔ وفاق پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان اگرچہ متنازعہ کشمیر کا بین الاقوامی طور پر حصہ قرار دیے جانے والا یہ خطہ چین کو پاکستان کو راہداری دینے والا واحد زمینی خطہ ہے ۔اگر گلگت بلتستان آئین پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان کے زیر کنڑول نہ ہوتا تو پاکستان اور چین نہ زمینی طور پر اور نہ ہی جعغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے ملتے اور نہ ہی ہمسایے ہوتے اور ہمسایے نہ ہوتے تو چین پاکستان سے اقتصادی مفادات کے لئے نہ ہی پاکستان کا قریبی دوست ہوتا ۔ گلگت بلتستان کو چین نے چائینا پاکستان اکنامک کوریڈور کا گیٹ ویے کے طور پر استعمال کرنے کے لئے 51 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ تیار کیا ۔ وہ کام جوکہ روس سمندر تک پہچنے کے لئے 1980 تک جنگ لڑتے ہوئے افغانستان تک پہنچا لیکن امریکہ سمیت دنیا کی دیگر طاقتوں نے روس کی بڑی طاقت کو عرب سی تک پہچنے کا منصوبہ ناکام بنادیا ۔ جس میں روس ناکام ہوا چین نے جنگ لڑنے کی بجائے 51بلین امریکی ڈالر کے منصوبوں کے تحت انتہائی خوبصورت انداز میں بحرعرب میں گوادر پورٹ تک پہچنے کا منصوبہ تیار کیا ۔

اس منصوبے سے چین کو اپنی ایکسپورٹ گوادر پورٹ تک 48 روز کی بجائے صرف 9 اور 10 روز میں پہنچانے کا انتظام اقتصادی راہداری منصوبے کے نام پر تیار کرنے کے لئے ابتدائی کام کا آغاز بھی کیا ہے ۔ سی پیک میں صوبوں کے خدشات کو دور کرنے کے لئے سی پیک کے 51 بلین امریکی ڈالرز کے مختلف منصوبوں کی تفصیلی رپورٹ پاکستان میں چین کے سفارت خانے سے جاری ہوئی ہے ۔ جس میں پاکستان کے چار آئینی صوبوں میں اس رقم سے مختلف منصوبوں کا تفصیلی زکر کیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بھی منظر عام پر آنے والی چینی سفارت خانہ کی اس رپورٹ میں گلگت بلتستان کا کوئی زکر نہیں اگر غلطی سے تذکرہ ہوا ہے تو وہ بھی راولپنڈی سے پاک چین سرحد خنجراب تک 44 ملین ڈالر کی آپٹک فائبر کیبل کے منصوبے کا تذکرہ ضرور ہیں ۔سی پیک سے متعلق چینی سفارت خانہ کی جانب سے جاری اس رپورٹ کے بعد وفاق پاکستان کے زیر کنٹرول انتظامی خطہ گلگت بلتستان کے سیاسی جماعتوں ، سماجی حلقوں اور سی پیک منصوبے پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے علاوہ مستقبل سنبھالنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں تہلکہ مچا دیا ہے ۔ اور سوشل میڈیا پر سی پیک سے متعلق ایک نئی بحث شروع ہوئی ہے ۔ کیونکہ ستمبر کے اخیری ایام میں گلگت میں حکومت کی جانب سے ہونے والی سی پیک کی دو روزہ کانفرنس میں وفاقی اور صوبائی حکمرانوں نے مقامی میڈیا کو دور رکھ کر پنجاب سے میڈیا کے افراد کو لاکر گلگت بلتستان کے عوام کو یہ جانسہ دیا تھا کہ سی پیک کا سب سے زیادہ فائدہ ہوگا ۔لیکن چینی سفارت خانے سے جاری رپورٹ کے بعد حکمرانوں کا پول کھول دیا ۔

اب گلگت بلتستان کے عوام جوکہ چین کیساتھ سی پیک منصوبے میں جغرافیائی اہمیت کے حامل خطے کوآئین پاکستان کا حصہ بناکر سی پیک کو پاکستان چین کا عارضی کی بجائے مستقل راہداری بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس جرم کی پاداشت میں سی پیک میں حصہ داری کے لئے قائم سیاسی اتحاد عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماء مولانا سلطان رئیس اور اسکا دوسرا دست راز فدا حسین پر بغاوت جیسے فوجداری مقدمے میں جیل بھی جانا ہوا ۔اب تو حالت یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے بعض اہم رہنماء کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ سی پیک میں ہمیں کچھ نہیں مل رہا ہے ۔ جبکہ برسراقتدار جماعت کے بعض اہم رہنماء سیاحت اور ثقافتی قافلے میں شامل فرینڈ شپ کار ریلی کو سی پیک کا حصہ قرار دیتے رہے ۔ جب میڈیا نے کار ریلی میں شامل شرکاء سے سی پیک کے حوالے سے دریافت کیا تو انکو سی پیک کے بارے میں کوئی علم تک نہیں تھا ۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاست دان ، صحافی اور سماجی حلقوں کو سی پیک فوبیا ہوگیا ہے ۔فوبیا کیوں ہوا یہ بھی ایک اہم سوال ہیں ؟؟

فوبیا ہونا بھی ایک لازمی امر ہے کیونکہ موجودہ قراقرم ہائی ویے کو سی پیک کا نام دیا گیا ہے ۔ جس کی کل چوڑائی 24 فٹ ہیں ۔ اس شاہراہ پر ہر40 سیکنڈ کے بعد ایک کنٹینر گزرے گا تو یعقینی طور پر یہاں پر مقامی ٹرانسپورٹ کا گزرنا محال ہوگا ۔ نہ تو سیاحوں کی گاڑیاں اس شاہراہ پر سفر کے قابل ہونگی اور نہ ہی مریضوں کو ہسپتال تک پہنچانے کے لئے ایمبولینس یہاں سے گزر سکے گی ۔ اگر سی پیک کے حوالے چینی سفارت خانے کا سرکاری بیان درست ہیں تو اب بھی وفاقی حکومت کو عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبے کو مدنظر رکھنا ہوگا ۔ اور گلگت بلتستان کی مخصوص جغرافیائی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے خطے کو آئینی حقوق دیکر سی پیک منصوبے کو موثر بنایا جائے تاکہ مستقبل میں ملک دشمن طاقتوں کو سی پیک اور گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت سے متعلق انگلی اٹھانے کی طاقت پیدا نہ ہو اور گلگت بلتستان کو بھی اس راہداری منصوبے میں گزرنے والے تجارتی سامان پر اپنا ٹیکس لگا کر خطے کی معاشی ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکے ۔اگر سی پیک منصوبے میں گلگت بلتستان کو نظر انداز کیا گیا تو اب نہیں بلکہ آج KG.1 اورKG.2 میں پڑھنے والے بچے ٹھیک 15 اور16 برس بعد بلوچستان جیسی محرومیوں کا شکار ہونگے اور نتائج درست نہیں ہونگے ۔کیونکہ ہمسایہ دشمن ممالک کو اقتصادی راہداری منصوبہ کبھی بھی پسند نہیں ۔ یہ دشمن طاقتیں آج نہیں تو کل گلگت بلتستان میں وہ خفیہ گیم کا آغاز کرینگے جس کا اندازہ مجھ سمیت کسی کو علم نہیں ۔ لہذا سی پیک کے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے خدشات کو فوری دور کرنے کی ضرورت وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button