کالمز

ریمارکس ، جج اور میڈیا 

اخبارات میں تصویر یں آگئیں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ خبریں لگ گئیں کہ سیاسی جماعت کے لیڈروں اور کارکنوں نے جج کے ریمارکس کو پلے کارڈ اور بینر اور پلے کارڈوں پر جج کے ریمارکس تھے اور ان ریمارکس کی بنیاد پر وہ سڑک کو بلاک کر کے حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے دوسرے دن عدالتی کاروائی شروع ہوئی تو عدالت نے اس کا نوٹس لیا اور جج نے کہا میری باتوں کی درست سیاق و سباق میں رپورٹ نہیں کیا گیا میری ریمارکس کا ایسا مقصد اور مدعا ہر گز نہیں تھا عدالت کی طرف سے تردید آنے کے بعد سیاسی ہلچل ختم ہوگئی مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ قانون کی رُو سے جج کے ریمارکس کی ضرورت کیا ہے ؟ ان کی اہمیت کیا ہے اور ان کی رپورٹنگ کے اداب یا حدود و قیود کیا ہیں ؟ ریمارکس (Remarks) کا لفظ انگریزی میں تبصر ہ کے لئے آتا ہے عدالتی کاروائی کے جج اگر وکیل یا مدعی یا مدعا علیہ کو مخاطب کر کے کوئی تبصرہ کر ے کوئی بات کہے اس کو انگر یز ی میں ریمارکس کہتے ہیں یہ گفتگو عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں ہوتی محض جج کی رائے ہوتی ہے جس کے اظہار سے وضاحت مطلوب ہوتی ہے یا جج کوئی قانونی نکتہ سامنے لانا چاہتا ہے جب تک یہ بات صحیح کے فیصلے میں شامل ہو تب تک یہ عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں ہوتی اور جو بات عدالتی کاروائی کا حصہ نہیں ہے اس کو رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے میڈیا کے ضا بطہ اخلاق میںیہ بات بھی شامل ہے کہ عدالت میں زیر تصفیہ کسی معاملے پر اخباری رپورٹ ، تجزیہ ، کالم ، اداریہ وغیر ہ میں بحث نہیں ہونی چاہیے انگر یزی اس کے لئے ’’ سب جو ڈیس‘‘ (Sub-Judice) کی ترکیب استعمال ہوتی ہے قانون کی نظر میں جج کے ریمارکس کا بھی یہی مسئلہ ہے عدالتی کاروائی کے دوران جج کی گفتگو کا مطلب یہ نہیں کہ جج نے حکم دید یا اور عدالتی کاروائی ختم ہوگئی واقعہ یہ تھا کہ لاہور میں اورنج ٹرین کے منصوبے کے خلاف ایک مقدمہ عدالت عظمی کے سامنے زیرغور ہے مقدمے کی کاروائی کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ جمہوریت میں عوامی رائے کا احترام ہوتا ہے یہ باد شاہت نہیں ہوتی کہ ایک آدمی کا حکم چلے اب یہ وکیل کے کس بات کے جواب میں کہی گئی اس کا ذکر اخبارات میں صراحت کے ساتھ نہیںآیا البتہ ٹیلی وژن پر مختلف انداز میں اس بات کو گفتگو کا موضوع بنا یا گیا اور اس کو حکومت کے خلاف عدالتی فیصلہ قرار دیا گیا اس پر سیاسی جماعت کے کارکنون نے جلوس نکالے اور حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا پھر چیف جسٹس نے اپنی بات کی تردید کی عدالت کے ترجمان نے اس کی وضاحت کر دی تو گرد اور دھول بیٹھ گئی بات جج کے ریمارکس کی نہیں ہے بات عدالتی کاروائی کی رپورٹنگ سے شروع ہو ئی اور رپورٹنگ نے جج کے ریمارکس کو سڑکوں پر گھسیٹ کر متنازعہ بنا دیا یادش بخیر ! سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستانی میڈ یا کو دو عظیم تحفے دیے ایک تحفہ سو مو ٹو نوٹس کہلاتا ہے دوسرا تحفہ ریمارکس کہلا تا ہے سوموٹو نوٹس کی اصطلا ح 2003 سے پہلے قانون کی کتابوں میں تھی ، عدالتی فائلوں میں تھی اخبارات تک نہیں پہنچی تھی جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ اصطلاح میڈیا کو دیدی ، ہر روز ایک ’’ سوموٹو ‘‘ نوٹس اور ہرروز اس کی خبر نے بچے بچے کو یہ اصطلاح یاد کر وادی اسی طرح ریمارکس کا لفظ بھی اس دور میں عام ہوا اور ججوں کی گفتگو اخباری جھلکیوں میں اس طرح آنے گلی جس طرح سیاسی جلسوں کی جھلکیاں آتی ہیں کوئی ضابطہ اخلاق یہ نہیں کہتا کہ جج کو ریمارکس نہیں دینے چاہےءں تاہم ضابطہ اخلاق یہ ضرور کہتا ہے کہ جج کے ریمارکس کی رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے عدالتی کاروائی میں فیصلہ سے سے اہم ہو تا ہے بلکہ فیصلہ ہی اہمیت رکھتا ہے یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ جج نہیں بولتا جج کا فیصلہ بولتا ہے مگر جج گوشت پوست کا انسان ہے وہ وکیل کے ساتھ گفتگو بھی کر سکتا ہے کبھی ایک آدھ جملہ بھی بو ل دیتا ہے ،کبھی کسی شاعر کا شعر یا مصرعہ بھی پڑ ھ لیتا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جج نے فیصلہ دید یا فیصلہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے اس لئے جج گفتگو اخبارات کی زینت بن جائے تو عدالتی کا روائی اور عدالتی فیصلے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے عدالت کا وقار متاثر ہوتا ہے فیصلے سے پہلے رپورٹنگ الفاظ بیحد محتاط اور نپے تلے ہونے چاہیں رپورٹنگ سے یہ متاثر ہر گز پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ جج کی رائے کیا ہے ؟ عدالت کا میلان یا رجحان کس فریق کی طرف ہے کونسی دلیل جج کو پسند آگئی کس بات پر جج ناراض اور سیخ پا ہو گیا ؟ ایسی باتیں اخبارات کی زینت بننے سے عدالت کا وقار مجروح ہوتا ہے عدالت کو چو پال کی طرح عام گفتگو کی جگہ قرار دیا جاتا ہے لوگ پوچھتے ہیں عدالت میںآج کیا گفتگو ہوتی ؟ یہ باتیں عدالتی ساکھ اور وقار کے منافی ہیں اور محض سنسنی پھیلا تی ہیں مثال کے طور پر فیملی جج کی عدالت میں مقدمہ آتا ہے ماں بچوں سے ملنا چاہتی ہے جج نے ریمارکس دیے کہ عورتوں پر یہ ظلم ہے ایک ماں کو بچوں سے ملنے کیوں نہیں دیا جارہا دوسری پیشی میںیہی بات پھر دہرائی جاتی ہے جج کے ریمارکس بھی یہی ہیں سکول کے پرنسپل کو سمن جاتا ہے پرنسپل بچوں کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دعویٰ غلط تھا بچوں سے ملنے پرکوئی پابند ی نہیں بچے بھی کہتے ہیں کہ پابند ی نہیں جب جج کا فیصلہ آتا ہے تو فیصلہ پہلے اور دورے دن کے ریمارکس کے برعکس ہوتا ہے اگر پہلی پیشی کے ریمارکس اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ آجاتے تو ایک ہفتے تک سنسنی پھیلتی دوسرے دن کے ریمارکس آجاتے تو مزید سنسنی پھیل جاتی فیصلہ آجاتا تو اخبار قارئین کا اخبار پرہی اعتماد نہ ہوتا کہ یہ کیسی خبر ہے کل کیا تھی اور آج کیا ہے ؟ اس لئے یہ بات صرف فریقین اور عدالت کے مفاد میں نہیں اخبارات کے مفاد میں بھی ہے کہ ججوں کی گفتگو کو شہ سرخی بنا کر اپنی ساکھ کو داؤ پر نہ لگا یا جائے ایک دن یا دو دنوں کی سنسنی خیز ی سے میڈیا کو وقتی فائد ہ ہوتا ہوگا لیکن یہ فائد ہ زیادہ دیر نہیں رہتا اس معمولی فائد ے کی وجہ سے میڈیا کی ساکھ بھی عدالتی ساکھ کی طرح متاثر ہوتی ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button