شعر و ادب

’’زندگی‘‘………… ایک مطالعہ، ایک جائزہ

اپنے دوست عبدالحفیظ شاکر سے معذرت خواہ ہوں کہ کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے ان کی پُرزور تاکید اور دعوت کے باوجود میں ان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت نہیں کرسکا۔ البتہ ان کی کتاب زندگی پر تبصرہ لکھا تھا جوکہ نذر قارئین ہے۔

عبدالحفیظ شاکر ؔ صاحب کی نومولود کتاب ’’زندگی‘‘ میری بینائیوں کی نذر ہے۔ جس کی ورق گردانی کرتے ہوئے بے اختیار یادوں کے دریچے کھل گئے۔ زندگی بجائے خود ایک معرکہ ہے۔ زندگی اور اس کے مقاصد کو سمجھنا، زندگی کو بہتر انداز میں گزارنا، زندگی کے فلسفے پر عمل کرنا، زندگی کے راز کو پا لینا اور زندگی کے خوبصورت نغموں کا ہم ساز ہونا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ کہنے اور لکھنے کی حد تک تو زندگی پانچ حروف کا مجموعہ ہے مگر اس کی ابتداء اور انتہا عجیب و غریب ہے۔ حفیظ شاکرؔ صاحب کہتے ہیں ؂

زندگی کی ابتداء بھی ہے عجیب
اور اس کی انتہا بھی ہے عجیب
زندگی مٹی ہے مٹی زندگی
اس تخیّل کا خدا بھی ہے عجیب

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ؂

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دِل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگِ گراں ہے زندگی

حفیظ شاکرؔ صاحب کی کتاب کو پڑھنے کے بعد اگر میں ان کی زندگی کو مہماتی زندگی کہوں تو بے جا نہ ہوگا۔

ساغرؔ صدیقی کہتے ہیں ؂

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

نہ جانے کیوں مجھے ان کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد رفیق کے یہ اشعار یاد آئے۔ وہ فرماتے ہیں ؂

رنگیں نوادرات میری زندگی میں ہیں
دو چار حادثات میری زندگی میں ہیں

آغازِ نو بہار میں یادوں کا اک ہجوم
رقصاں تصوّرات میری زندگی میں ہیں

حالات دِگرگوں ہیں مگر اس کے باوجود
مثبت توقعات میری زندگی میں ہیں

چاروں طرف ایک نامعلوم اسرار کا، جسے زندگی کہتے ہیں………… ایک تاریک، خوفناک، ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے………… ہم الفاظ کے ذریعے دُنیا سے اپنا رابطہ قائم کرنا چاہتے ہیں مگر زندگی اور زیادہ اُلجھ جاتی ہے۔ شاید سارتر نے کہا ہے کہ ’’ہر لفظ ہماری اس ہار کا اقرار ہے کہ ہم کمیونی کیٹ نہیں کرسکتے۔‘‘ زندگی خوشیوں اور غموں کی تفسیر ہوا کرتی ہے۔

حفیظ شاکرؔ صاحب کہتے ہیں ؂

ہنستے ہنستے دُکھ اُٹھاتی زندگی
روتے روتے مسکراتی زندگی
مضطرب رہتی ہے اکثر دہر میں
رنج و غم کے تیر کھاتی زندگی

انسانی زندگی اتنی مختصر ہے کہ یہ محبت کے لیے کم ہے مگر نہ جانے بعض لوگ نفرت کے لیے کہاں سے وقت لاتے ہیں۔ تاہم حفیظ شاکرؔ صاحب کی ’’زندگی‘‘ میں آپ ایک ایک سطر میں چونک پڑیں گے۔ ایک پوری کہانی جو زخم زخم ہے آپ کو اپنی گرفت سے رہائی نہیں دے گی۔ مصنّف نے اپنی کتاب میں مشاہدے کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ یہ اشعار آپ کو اس طرح متاثر نہ کریں جس طرح انہوں نے مجھے متاثر کیا لیکن یہ طے ہے کہ آپ ایک بار انہیں پڑھنے بیٹھ گئے تو پھر ان کے سحر سے بچ نہیں پائیں گے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بے اختیار یہ اشعار نازل ہوئے۔ جنہیں میں حفیظ شاکرؔ صاحب کی نذر کیے دیتا ہوں ؂

نفرت بھی، دوستی بھی، محبت بھی، عشق بھی
سب کام چل رہے ہیں یہاں زندگی کے ساتھ
میں اپنی اُلجھنوں سے نکل ہی نہیں سکا
دُنیا فریب دیتی رہی سادگی کے ساتھ

ارضِ شمال قدرتی حسن سے مالا مال اپنی ایک شاندار تاریخ رکھتی ہے مگر حیرت ہوتی ہے کہ اس سرزمین میں فرقہ وارانہ فسادت کیوں رونما ہوتے ہیں………… شاید اس کی وجہ یہی ہو کہ ہم ان فرقہ وارانہ فسادات کو نہ سمجھ سکیں جو ہمارے ’’سونی گلیٗت‘‘ کے سینے میں سرطان کے پھوڑے کی طرح پل رہا ہے………… ہم آپس میں نہ مل سکیں………… اس علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ نہ کرسکیں یا ان مسائل کا حتی الامکان مداوا نہ کر پائیں تو ہم پر شاید انسان ہونے کی تہمت ہوگی۔ میرے دوست حفیظ شاکرؔ کہتے ہیں ؂

ایک حملہ پھر کسی پر ہوگیا
زندگی کا زندگی پر ہوگیا
ہوش میں آؤ محبّانِ چمن
اِس علاقے کی خوشی پر ہوگیا

کتنی افسوس کی بات ہے؟ ہمیں اپنی حیثیت کا پتہ چل جانا چاہیے کہ اسلام آباد کے ائیرکنڈیشنڈ دفتروں میں رہنے والے حکمران ہماری حیثیت کا ادراک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ غلطی ہماری بھی ہے کہ ہم نے کبھی بھی اپنے ہونے کا ادراک تک نہیں کیا۔ خیرات میں ملنے والے چاول، روٹی اور دال کو ہی ہم زندگی سمجھتے رہے۔ حقوق کیا ہوتے ہیں؟ سہولیات کسے کہتے ہیں؟ ہمیں ابھی تک پتہ نہیں۔ ہماری حیثیت جانوروں کی اُس ریوڑ کی طرح ہے جسے چرواہا اپنی مرضی کے مطابق ہانکتا ہے اور ہم خوشی خوشی گھاس کھائے جارہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ گھاس کھانا، پانی پینا، اونگھنا اور Subsidy میں گندم حاصل کرنا ہی اصل زندگی ہے۔ حفیظ شاکرؔ جیسے باشعور لوگ اس پر بڑے بے چین رہتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں ؂

محورِ فکرونظر ہو جب اناج
کون بدلے اُن غلاموں کا مزاج
علم و حکمت اور دانائی سے دُور
زندگی! ہے پا بجولاں یہ سماج

حفیظ شاکرؔ صاحب ادب برائے زندگی کے قائل ہیں۔ ایک دفعہ کسی ادبی نشست میں، میں نے اُن سے پوچھا ’’شاکرؔ صاحب! کیا وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں رومانیت بہت کم جبکہ غم دوراں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ کہہ کر یقیناًمجھے سوچنے پہ مجبور کیا تھا ’’کریمیؔ صاحب! میرا علاقہ جل رہا ہے، آئے روز لاشیں اُٹھائی جا رہی ہیں، لوگ آپس میں دست و گریباں ہیں، میں ان مسائل کو چھوڑ کے رومانیت کی بات کیوں کروں۔ کل کا مورّخ جب تاریخ لکھے گا تو وہ کیا سوچے گا کہ جب گلگت جل رہا تھا حفیظ شاکرؔ گُل و بُلبُل اور لب و رُخسار کے قصے رقم کر رہے تھے۔ اس لیے میرا ضمیر مجھے روکتا ہے، میرا رومانس اپنی سرزمین سے ہے، اپنی دھرتی سے ہے، معاشرہ میں جو ہوگا، وہی میرا قلم لکھے گا۔‘‘ لیکن اس کے باوجود ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ کے بمصداق گُل رُخوں اور نازنینوں کے قصے آپ کی ’’زندگی‘‘ کے اوراق میں نمایاں ہیں۔ جیسے ؂

فتنہ گر ہے مہہ جبینوں کی نظر
توبہ توبہ نازنینوں کی نظر
راکھ کرتی ہے جلا کر زندگی
گُل بدن گُل رُخ حسینوں کی نظر

زندگی کی بے ثباتی پر حفیظ شاکرؔ صاحب رقم طراز ہیں ؂

یہ رُخِ زیبا بھی ہے درپن بھی ہے
زندگی ٹوٹا ہوا بندھن بھی ہے
منتشر ہوتی ہے اکثر ٹوٹ کر
یہ کسی کے ہاتھ کا کنگن بھی ہے

کنگن سے یاد آیا۔ زندگی کتنی ناپائیدار ہے۔ میں آج بھی وہ واقعہ نہیں بھول سکا ہوں۔ 20؍ اپریل 2012ء کو کراچی سے تین سو سے زائد مسافروں کو لیکر بوجا ائیر لائینز کا جہاز اسلام آباد کے قریب حادثے کا شکار ہوا تھا۔ جس میں کچھ ایسے جوڑے بھی تھے جن کی ابھی شادی ہوئی تھی اور وہ زندگی کو انجوائے کرنے اسلام آباد آرہے تھے انہوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوگا۔ حادثے کے دو دن بعد جہاز کے ملبے سے ایک دُلہن کا کٹا ہوا ہاتھ ملتا ہے جس میں مہندی کی سرخی بھی صحیح سلامت ہوتی ہے اور کنگن یعنی چوڑیاں بھی………… مگر زندگی روٹھ چکی ہوتی ہے، روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی زندگی چوڑیوں اور مہندی سے بھی کمزور ہوتی ہے۔ جیسے حفیظ شاکرؔ صاحب کہتے ہیں ؂

رنج و غم کا کارواں ہے زندگی
کون کہتا ہے جواں ہے زندگی
’’فلسفی شاید اسے سمجھا نہیں‘‘
جلتی لاشوں کا دُھواں ہے زندگی

ادب میں شاعرانہ تعَلِّی بعض بڑے بڑے اُدباء و شعراء کی تحریروں میں ملتی ہے۔ جیسے منیر نیازی (مرحوم) شاعرانہ تعَلِّی میں ڈوب کر یہاں تک کہہ گئے ؂

سب سے بڑا ہے نامِ خدا
اس کے بعد ہے میرا نام

حفیظ شاکرؔ صاحب کی تحریر اور شاعری میں بھی شاعرانہ تعَلِّی دکھائی دیتی ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے ؂

اب جو آئی ہے میری تازہ کتاب
زندہ لوگوں کے لیے زندہ نصاب
منفرد ذہنوں میں جتنے ہیں سوال
’’زندگی‘‘ لائی ہے اُن سب کے جواب

اس حوالے سے ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اپنی کتاب ’’تیری یادیں‘‘ میں کہہ گئے ؂

خود داریِ احساس کے صدقے میں کریمیؔ
جُھکنا نہیں سیکھا، کبھی گرنا نہیں سیکھا

زیرنظر قطعہ بھی میری آنے والی کسی کتاب کا حصہ ہے اس میں بھی آپ کو شاعرانہ تعَلِّی نظر آئے گی ؂

کُھلا یہ مجھ پہ بہت کچھ یہاں مقابل ہے
کبھی زمیں تو کبھی آسماں مقابل ہے
کریمیؔ کتنی بلندی پہ ہے ذرا دیکھو!
کہ میں اکیلا ہوں سارا جہاں مقابل ہے

المختصر عبدالحفیظ شاکرؔ صاحب ایک محبت کرنے والے انسان ہیں۔ اپنا ایک الگ مزاج رکھتے ہیں۔ کتاب پر تبصرہ لکھنے والوں نے بھی اس پر کافی بحث کی ہے۔ مجھے اور شاکرؔ صاحب کو کئی مشاعروں اور ادبی پروگراموں میں شرکت کرنے کا موقع ملا ہے جہاں تک میں نے بحیثیت دوست اُن کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اگر ایک شعر میں اُن کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتاناہوتا تو میں یہ شعر اُن کی نذر کیے دیتا ؂

محبت ہو تو بے حد ہو، جو نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا ہمیں ہرگز نہیں آتا

عبدالحفیظ شاکرؔ صاحب ایک علمی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ قلم و قرطاس آپ کو ورثے میں ملے ہیں۔ آپ ایک ممتاز عالمِ دین مولانا ابولفراح (مرحوم) کے فرزند رشید ہیں اور پیشے کے لحاظ سے معلّم و مدّرس ہیں۔ زبان و بیان پر قدرت رکھتے ہیں۔ ایسے قابلِ فخر اساتذہ کے حوالے سے میرے دوست حبیب الرّحمان مشتاقؔ نے مزاح میں بڑے خوبصورت اشعار کہے ہیں۔ جیسے ؂

سنا ہے اُس کو سخن کے اُصول آتے ہیں
کرے کلام تو باتوں سے پھول آتے ہیں
سنا ہے اُن کے پڑھانے میں ہے مٹھاس ایسی
بخار ہو بھی تو بچے سکول آتے ہیں

اس سے پہلے بھی آپ کی ایک تصنیف ’’میں نہیں ہوں‘‘ کے نام سے منظر عام پر آکر اچھی خاصی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ اب زندگی پر ان کی یہ خوبصورت کتاب ہماری بینائیوں کی نذر ہے۔ ایک ہی موضوع پر پوری کتاب لکھنا اور وہ بھی نظم میں اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن میرے دوست نے بڑی استقامت کے ساتھ یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچاکر اپنے آپ کو تاریخ میں امر کردیا ہے۔ ذہن و خیال میں بہت ساری باتیں اور یادیں ہیں لیکن دامنِ تحریر میں گنجائش کی کمی ہے۔ اس لیے میں اپنی گزارشات کے آخر میں فاضل مصنّف کو اس کتاب کی کامیاب اشاعت پر اپنی، کاروان فکرو ادب غذر کے جملہ اراکین کی اور ’’فکرونظر‘‘ میگزین کی پوری ایڈیٹوریل ٹیم کی جانب سے دِل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ کتاب اہلِ دانش و بینش میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔

حفیظ شاکرؔ صاحب کے ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا ؂

جوش، جذبہ، ولولہ ہے زندگی
معرکہ در معرکہ ہے زندگی
خاک میں مل کر بقا پاتی ہے یہ
اک انوکھا سلسلہ ہے زندگی

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button