کالمز
دیامر ڈیم، معاشرتی انتشار، اور حکومت کی زمہ داریاں
دیامر ڈیم بظاہر تو خوشحالی اور ترقی کا پیش خیمہ تصور کیا جاتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ ملک کے اندر موجود اندھیروں کو زوال پزیر ہونے میں لمحہ بھر ساعت درکار ہے جو ں ہی یہ ڈیم اپنے تکمیل کو پہنچ جا ئے گا اسی دن سے ہی ملک کی ترقی و خوشحالی یقینی ہوجائے گی اور ساتھ ہی بیس بیس گھنٹوں کی اعصاب شکن لوڈ شیڈنگ سے بھی قوم کو نجات حاصل ہو گا۔زراعت کے شعبے میں بھی خاطر خواہ فوائد حاصل ہونگے۔یا یوں سمجھے کہ ملک کا سب سے بڑا مسلہ حل ہو جائے گا۔آبی قلت اور توانائی کی دگر گو صورتحال قابو میں آجائے گی یعنی کہ ایک تیر سے دو شکار ۔۔۔بنجر زمینیں سیراب ہونگی اور تاریکیوں کی جگہ میں روشنیو ں کا راج ہو گا۔
لیکن دیامر ڈیم کی افادیت مقامی سطح پر دیکھا جائے تو بہت ہی معمولی نوعیت کی ہے۔محض معاوضات کی ادائیگی وہ بھی اونے پونے داموں اور اوپر سے پٹوار خانے کی پے در پے وارداتیں۔۔۔کچھ لین دین ادھر کا ادھر ۔۔سونا، تانبا، گدھا، گھوڑا ایک ہی میزان میں بغیر چوں چراں کے اختتامی مراحل سے گزرتے ہوئے صاف شفاف کے دعووں کے ساتھ اختتام پزیر ہورہا ہے۔اور بہت جلد اس منصوبے پر کام بھی شروع ہوگا انشاء الللہ اس کے ثمرات ملک کے طول و عرض میں محسوس بھی کیے جائنیگے۔
لیکن جو گھاؤدیامر کے منتشر معاشرے کے اندر ثبت ہوگا اس کا ازالہ ممکن نہیں ہے قبائلی تصادم کی صورت میں ایسے ایسے فتنے سر اٹھا ینگے جس کی بازگشت صدیوں تک محسوس کی جائے گی۔قبیلوں کے قبیلے اس وقت دست و گریباں ہیں۔ دیامر اور کوہستان کے درمیان حدود کا تنازعہ جس میں اب تک چار افراد کی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، پر کوئی بونڈری کمیشن نہیں بنی، اور اگر بنی بھی ہے تو اس کا ابھی تک کوئی اتا پتہ نہیں ہے۔ معاملہ اب تک جوں کا توں مو جود ہے۔ دیامر سکڑ کر بسری سے تھور تک آیا ہے لیکن اب بھی کوئی حل نہیں نکلتا ہے۔
دریا کے دوسری جانب ڈوڈشال اور داریل کے عوام کے درمیان حق ملکیت کا تنا زعہ ہے پھر داریل اور ہڈور کے عوام کے درمیان حدود کا تنا زعہ ہے اب ہڈور اور بٹوخیل کے درمیاں بونڈری کا مسلہ سر اٹھا رہا ہے۔جب کہ دوسری طرف بٹوخیل اور جی کیو ایم جو کہ قدیمی باشندگان کے دعوے کے ساتھ آمنا سامنا ہے پھر تھک اور بٹوخیل کے درمیان تھک داس کے ملکیت کا مسلہ ہے ساتھ میں بونر اور بٹوخیل کے درمیان حدود کا تناؤ ہے کھینر کے باشندگان اور غیر باشندگان کے درمیان ملکیت کا معاملہ بھی چل رہا ہے گیس بالا اور پائین کے اندر کئی معاملات ہیں ایک طرف وراثت کے بے شمار دعوے ہیں تو دوسری طرف کئی خاندان اور افراد کا آپس میں تو تو میں میں ہے۔
ہوس زر کا یہ عالم ہے کہ ہر ایک دوسرے سے زیادہ حاصل کرنے کے چکر میں ہے اخلاقیات کیا ہے انصاف کس کھیت کی مولی ہے کوئی تمیز ہی نہیں ہے۔ہر طرف نفسا نفسی کا سماء ہے معاشرہ تیزی سے تناؤ کی طرف جا رہا ہے گلی کوچے چوک چوراہے گروہ بندی کا شکار ہیں اب اوپر سے یہ خبر بھی جلتی پر تیل کے مانند ہے کہ متاثرین کی آبادکاری کی زمہ داری بھی محکمہ پی ڈبلیو ڈی کے سپرد ہونے والی ہے یعنی کہ یہا ں پر بھی ڈنڈی مارنے کا مکمل پروگرام بنا یا گیا ہے لگتا ایسا ہے کہ اب متاثرین کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑنے کی پلان کو آخری شکل دیا جا رہا ہے۔ اللہ کا خوف کرو پی ڈبلیو ڈی کے زریعے آبادکاری کے بجائے تمام متاثرین کو اکھٹا کر کے انڈس ریور میں بہا دیا جائے تو کہانی ہی ختم ہو جا ئے گی یہ تڑپا تڑپا کر مارنے والا پروگرام بہت ہی اذیت ناک ہے پہلے سے اتنا سب کچھ ہو چکا ہے اب رہی سہی کسر پی ڈبلیو ڈی کے زریعے کیوں پورا کیا جا رہا ہے یہ دیامر ڈیم ہے کوئی بہتی گنگا تو نہیں ہے جو ہر کسی کو ہاتھ صاف کرنے کا پورا پورا موقع دیا جا رہا ہے چوری چکاری کا کا م لینا ہے تو بھلے ان سے لیا جائے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے مگر متا ثرین ڈیم کو اس شرسے بچانا بہت ہی ضروری ہے یہ کاغذات کے حد تک پہلوان ادارہ ہے اس ادارے کی ترقی صرف اور صرف کاغذات کے اوراق تک ہے فیلڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے ایک کلوٹ بنانے میں کئی کئی سال درکار ہوتے ہیں اپر سے کام کا معیار تو کسی سے پو شیدہ نہیں ہے اس ادارے کو یہ زمہ داری دینے کے بجائے متا ثرین کو آباد کاری کیلے مختص رقم ادا کی جائے تو سب سے بہتر ہوگا ایک خاندان کو ری سیٹل کرنے کیلے جتنی رقم در کار ہوتی ہے اس کا حساب لگا کر متاثرین کے حوالے کیا جائے جو اپنی مر ضی کے مطابق کہیں بھی آباد کاری کرینگے۔ خود اگاؤ خود کھاؤ والا طریقہ کار واحد حل ہے چو نکہ کچھ لوگوں کواس حوالے سے تحفظات بھی ہیں اس طرح کسی کو کوئی شکایت بھی نہیں رہے گی ۔
زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ مذید مکرو فریب نہیں چلے گا حکومت کو متاثرین کے مسائل پر ترجیحاتی رویہ اپنا نا پڑے گا۔معاشرے کے اندر انتشار تو پھیل چکا ہے دیامر میں روایتی طور پرمقدمات تنا زعات سے ہی خون خرابے کا عمل شروع ہوتا ہے اور دیرینہ دشمنیوں کی شکل اختیار کرتا ہے سابق ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو توں تکار سے پیدا ہونے والے معاملات دیرینہ تناؤ کی شکل میں کئی دھائیوں تک جاری رہتے ہیں ۔بعض جگوں پر تو جد امجد کے ترکہ کے طور پر نسل در نسل دشمنیاں ہی منتقل ہوتی ہیں۔اب ضرورت اس امر کا ہے کہ جس طرح سے دیامر ڈیم ملک کی ترقی و خوشحالی کا ضامن تصور کیا جاتا ہے ایسی طرح یہ منصوبہ مقامی متاثرین کیلے بھی باعث ترقی و خوشحالی کا بنیاد بننا چاہیے ۔اس کیلے انتظامی سطح پر بھی جرت کا مظاہرہ بے حد ضروری ہے ۔ہر بات کو عدالت تک لیے جانے سے پہلے انتظامی زمہ داریوں کو بھی نبھایا جائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے معاملات معزز عدالت کا وقت ضائع کیے بغیر بھی حل ہو سکتے ہیں اور دیامر ڈیم جیسے قومی نوعیت کے منصوبوں کو باعث افتخار بنانے کیلے متاثرین کے مسائل کو ترجیحاتی بنیادوں پر حل کر نا از حد ضروری ہے زرا سی کوتاہی پر یہ منصوبہ مقامی معاشرے کیلے انتشار کا منبع ثابت ہو سکتا ہے۔