کالمز
اے وطن ! ہم ایک ہیں ۔۔۔۔۔ ہم ایک ہیں
محمد اعجاز مصطفوی
حضورپاکﷺکا فرمان ہے حب الوطن من الایمان یعنی وطن سے محبت کرنا ایما ن کا حصہ ہے ، جس شخص میں حب الوطنی نہ ہو اسکے ایمان پر شک کیا جاسکتا ہے اور اس ایمان پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔ وطن سے محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ، یہ بیا ن آقاﷺ کی احادیث سے ثابت ہے۔
پاکستان سے محبت کرنے میں ایک الگ ہی اطمینان القلب اور خاص لطف حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان کا مطلب کیا! لاالہ الا اللہ اور اس کے معنی پاک صاف رہنے والے اور اسے مدینہ ثانیہ بھی کہے سکتے ہیں۔ پوری دینا میں پاکستان وہ واحد مسلم ملک ہے جو اسلام کے نظریے کی بنیاد پر بنا ۔ اور اس کے بنیادوں میں لاکھوں شہدوں کے لہو شامل ہے اور ان شہدوں کے لہو سے نہ تو انکار کرسکتے ہیں اور نہ ہی راہ فراہ اختیار کرسکتے ہیں۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے جسکی بقا ءکی ضامن خود رب تعالیٰ ہے اور اسکے حبیب ﷺ کا نظر رحمت ہر وقت پاکستان کے ساتھ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔
ہم نے اس ملک کی خاطر طرح طرح کی قربانیاں دیے ہیں اور ا ئندہ بھی دینے کو تیار بیٹھے ہیں اس وطن کی خاطر مر نے سے زیادہ خوش قسمتی ہمارے لیے کوئی اور شے نہیں۔ ہم نے اپنا سب کچھ لٹاکر پاکستان کو بچانا ہے۔ اسے دشمن کی کوئی طاقت ہمیں جدا نہیں کرسکتے۔ اے وطن ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔
دشمن ہمارے درمیان نفرت کا بیج بونے میں مصروف عمل ہے لیکن اے دشمنو! یاد رکھو جس دن ہم نے متفقہ دشمن بنانے کا فیصلہ کرے دنیا کی کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہم اس وطن کی خاطر ہزار مرتبہ غزوہ بدر بپا کرنے کو تیار بیٹھیے ہیں۔ اے وطن تیرے لیے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔
دشمن اس گمان میں خوش ہے کہ انھوں نے ہمیں پنچابی ، پٹھان، بلوچی اور گلگتی کے نا م پر تقسیم کررہے ہیں اور اس سے بڑھ کر مذہبیت کے نام پر لڑوا رہے ہیں لیکن یاد رکھو جس دن وطن کی سا لمیت پر کوئی آنچ ائے، ہم نہ رنگ ونسل کو دیکھتے ہیں اور نہ ہی علاقے کو ، ہم سب ایک پاکستانی کی حثییت سے لڑےگے اور 1965 کے واقعہ کو دوبارہ تازہ کرینگے۔ اے وطن !ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔
مخالفیں ہماری افواج کی تعداد کو کم نہ سمجھیں ، ہمارے جتنے بھی ریٹایرڈفوجی ہیں وہ سب تمھارے مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ اسکے علاوہ مخالفیں کے ساتھ لڑنے کے لیے ہمارے ہر فر د گھروں سے نکلنے کو تیار ہیں۔اس کا مطلب جتنی ہماری آبادی ہے اتنی ہی ہماری افواج ہیں۔ اس سے بڑھ کر اللہ کی مد د ہمارے ساتھ ہیں۔ سو کافروں کے لیے ایک مجاہد کافی ہیں، یہ رب کا وعدہ ہے قرآن نے اس کی بشارت دے ہے، پوری دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ 1965 اور 1999 میں دیکھی ہے۔ اے وطن ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔
ہم سیاسی بنیادوں پر ایک دوسرے سے اختلاف کرسکتے ہیں، ہم اپنی اپنی ترقی کے لیے اختلاف کرسکتے ہیں ، ہم اپنی علاقائی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اختلاف کرسکتے ہیں ، اس طر ح کے ہزاروں اختلافات کرسکتے ہیں لیکن یاد رکھو جب پاکستان کی بات ائیے تو ہم یک جان یک زبان ہیں کوئی بھی ہمیں میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتے۔کوئی ہماری اندرونی مخالفت کا فائدہ نہ اٹھائے ورنہ ہم تمھیں نشان عبرت بنادینگے۔
کوئی بھی ہمیں آزاد بلوچستان ، جاگ پنچابی ، گلگتی اور اس طرح کے نعر ے نہ سکھائیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تمھارے عزائم کیا ہے۔ ہم پاکستان کی خاطر اپنا تن من دھن لٹانے کو تیار ہیں۔ پاکستان کی سا لمیت کو خطرہ ہو ا تو ہو نہ ہم پنچابی ہے نہ بلوچی اور نہ کوئی اور ، ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ اور پاکستانی بن کے مقابلہ کرینگے۔
اے وطن ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں ۔
کوئی بھی پاکستانی پاکستان کی مخالفت نہیں کرتے اور جو بھی ریاست پاکستان کی مخالفت کرتا ہے اصل میں وہ پاکستانی نہیں بلکہ کلبوشن یادیب ہے۔
ہم امن چاہتے ہیں، ایمان چاہتے ہیں ، محبت چاہتے ہیں، اخوت کا پیغامبر بننا چاہتے ہیں۔ لیکن کو ئی ہماری اس فعل کو کمزوری سمجھیں تو دنیا کو سبق سکھانا ہمیں بھی اتا ہے۔ پوری دنیا شاہد ہے ہم نے کن کن محازوں پر آللہ کا پرچم اونچا کیا ہے ۔اے وطن ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
ہم حضرت ابوبکرؑکی صدیقیت، حضرت عمرؑ کی خلافت ، حضرت عثمانؑ کی سخاوت اور حضرت علیؑ کی شجاعت کے امین ہیں، ہم حضرت خالدؑ کی تلوار، اور قاسم کی للکار ہے۔ ہم ان کے وارث ہیں۔ اور ہمیں اس پر فخر ہے۔ اے وطن ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
اے دشمنان وطن اپنی حدود میں رہو ورنہ ہم تمھارے سر کو تن سے جداکردینگے، دنیا کے سپر طاقت کو ہم نے ہی پاش پاش کیا ہے اور ائندہ بھی اس طرح کے مواقع ملے تو ائندہ بھی کرینگے۔
اے وطن ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
اخر میں اللہ ہم سب کو حقیقی محب وطن بننے اور ہم سب کو پاکستان کے لیے ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ والسلام۔
بقلم:محمد اعجاز مصطفوی
خپلوبالا کھانسر گلگت بلتستان پاکستان
طالبعلم: انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام اباد پاکستان
11-11-2016 تاریخ:
mejaz2800@gmail.com رابطہ:
ہاسٹل لایف میں پیپر کی تیاری
ہاسٹل 6 روم 48 اسلامک یونیورسٹی میں گہما گہمی کا ماحول تھا۔بہت سے چہروں پر پریشانی کے اثرات نمایاں تھے۔
"یار آج ساری رات نہیں سونا۔”ایک طالب علم نے اپنے روم میٹ سے کہا۔ سب نے تاید میں سر ہلایا۔ کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ اگر صبح پیپر اچھا نہ ہوا تو "سپلی” پکی ہے۔ اب ایک نیا مسلہ درپیش تھا ، کسی کے پاس بھی صبح ھونے والے پیپر کا سلیبس اور تیاری کے لیے نوٹس بھی نہ تھے۔ چنانچہ ایک دوست نے جھت سے جیب میں سے USB نکالی اور کہا چلو کسی سے نوٹس سے سافٹ کاپی لے کر آتے ہے۔
نوٹس کی سافٹ کاپی لی اور سب نے اپنے دماغ کے تمام دروازے کھول کر ان نوٹس کو جلد از جلد اس میں سمانے کی کوشش شروع کر دی۔ تقریبا ایک گھنٹہ بعد سب کے سب ہمت ہار گے اور یہ کہنے پر مجبور ہو گیے
"یار یہ چیزیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔یار صبح پتہ نہیں پیپر کا کیا بنے گا ؟ چلو یار اس طرح کرتے ہیں کہ فلاں لڑتے کے پاس چلتے ہیں۔ اس نے سارے لیکچر نوٹ کیے ہوے ہیں، ان میں سے کچھ اہم نکاٹ کو دیکھ لینگے اور باقی کو بھی صبح تک ایک دفعہ جتنا ہوسکے دیکھ لیں گے باقی اللہ کے حوالے ۔۔۔۔اللہ مہربان ہے۔۔۔اللہ مدد کرے گا۔۔۔اگلے سمسٹر میں شروع سے ہی پڑھای کریں گے۔” ہم یہ عظم تو کرتے ہیں لیکن ایک سمسٹر کے بعد دوسرا سمسٹر، دوسرے کے بعد تیسرا اور پھر ڈگری مکمل ہو جاتی ہے ۔ وہ اگلا سمسٹر نہیں آتا جس میں ساتھ ساتھ پڑھنے کا ارادہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہیں۔چونکہ جب انسان کی عادت پختہ ہو جاتی ہے تو اس کو تبدیل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔