متفرق

غیر مساویانہ تقسیم، ضلع کونسل چترال کی خواتین ممبران نےفوری طورپر فنڈزروکنے کا مطالبہ کردیا

چترال ( بشیر حسین آزاد) ضلع کونسل چترال کے خواتین ممبران نے ضلع ناظم چترال اور ضلع نائب ناظم کی طرف سے فنڈ کی تقسیم میں غیر مساویانہ سلوک کے خلاف شدید احتجا ج کرتے ہوئے صوبائی حکومت اور ڈپٹی کمشنر چترال سے فوری طور پر فنڈ روکنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آسیہ انصار ، حصول بیگم ، شمشاد فراز ، نگہت پروین ، صفت گُلاورشاکرہ بی نے کہا ۔ کہ ضلع کونسل کے سابقہ بجٹ میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کے بعد احتجاج پر موجودہ بجٹ میں وہ کمی پوری کرنے کی یقین دھانی کرائی گئی تھی ۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے ۔ کہ موجودہ بجٹ میں تو خواتین ممبران کونسل کو یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔ جو کہ صنفی امتیاز اور نا انصافی کی انتہا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ضلع کونسل میں الیکشن اور سیلیکشن سے مخصوص نشستوں پر آئے ہوئے دو قسم کے مردو خواتین ممبران ہیں ۔ اور ضلع ناظم اور ضلع نائب ناظم نے فنڈ کی تقسیم کے حوالے سے ان کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کرکے خواتین کے فنڈ بھی مردوں کو نواز دیا ہے ۔ حالانکہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ مجریہ 2013اورپلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ گائڈ لائن میں کسی بھی جگہ یہ موجود نہیں ۔ کہ خواتین کو یکسر نظر انداز کرکے تمام فنڈ مرد ممبران میں تقسیم کئے جائیں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ اگر فنڈ کی تقسیم میں خواتین کے ساتھ اس قسم کا رویہ روا رکھنا ہی ہے ۔ تو خواتین کو ضلع کونسل کے مخصوص نشستوں پر بیٹھنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ضلع کونسل کے ذمہ دار لوگ دانستہ طور پر خواتین کو اپنی نشستیں چھوڑ نے پر مجبور کر رہے ہیں ۔ لیکن وہ اپنے حق کے حصول کیلئے ہر سطح پر قربانی کیلئے تیار ہوکر میدان میں نکلے ہیں ۔ اور حق حاصل کرکے رہیں گے ۔نیز ہم بین الاقوامی اداروں کو بھی اس بابت آگاہ کرینگے کہ چترال میں یکساں ترقی کی دعویدار ضلعی حکومت کس طرح خواتین ممبران کے ساتھ غیر مساویانہ اور غیر قانونی سلوک روا رکھی ہوئی ہے۔ آسیہ انصار نے کہا ۔ کہ صوبائی حکومت کے واضح ہدایات کے مطابق تعلیم ، صحت ،نوجوانوں اور خواتین کی ترقی کیلئے 15فیصد فنڈ مختص کرنا ضروری ہے ۔ اور 55فیصد ضلع کونسل کی صوابدید پر رکھے گئے ہیں ۔ جو کہ تمام ممبران کی باہمی مشاورت اور رضامندی سے تقسیم ہونے چاہئیں ۔ لیکن ضلع ناظم اور کنوئینر اپنی طرف سے اس کی تشریح کرکے 55فیصد کو اپنا ذاتی صوابدیدی فنڈ قرار دے کرخواتین کو مکمل طور پر محروم رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مرد مخصوص ممبران کو 19لاکھ 54ہزار اور خواتین مخصو ص ممبران کو 3لاکھ روپے دینا کہاں کا نصاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی خواتین ممبران کومرد مخصوص ممبران کے مساوی فنڈ نہ ملنے کی صورت میں وہ بھر پور تحریک چلانے پر مجبور ہوں گی ۔ جس میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے اور نشستوں سے استعفیٰ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ جماعت اسلامی اور جمعیت کے اتحاد کا پول کھل گیا ہے ۔کہ وہ کس طرح انصاف کا بول بالا رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔انہوں نے صوبائی وزیر اعلیٰ ، وزیر بلدیات اور سیکرٹری بلدیات سے مطالبہ کہ ضلع کونسل چترال کا گزشتہ بجٹ بھی قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر پاس کیا گیا ہے اور موجودہ بجٹ بھی غیر قانونی ہے لہذا گذشتہ سال کے بجٹ کو بھی منسوخ کیا جائے اور ابتک ضلع کونسل کو بلدیاتی ایکٹ سے متصادم طریقے سے چلانے کی بابت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button