کالمز
سندھ میں تبدیلی مذہب بل کے اصل مقاصد
سندھ کی شہر ی اور دیہی سیاست میں گزشتہ ہفتہ کافی سرگرم رہا، ایک طرف پیپلزپارٹی اپنے 49ویں یوم تاسیس کے حوالے سے تو دوسری طرف ایم کیوایم کے مختلف گروپس ایک دوسرے کے خلاف ،جبکہ تحریک انصاف کی قیادت سرگرم دیکھائی دی،دوسری جانب 24نومبر2016ء کو سندھ اسمبلی میں اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر تبلیغ اسلام پر پابندی کے بل کی منظوری کی وجہ سے سندھ کی مذہبی جماعتیں بھی سرگرم اورکافی مشتعل ہیں ۔
سندھ اسمبلی سے منظورہونے والے اس بل میں بظاہر جبری طور پر اقلیتوں کے مذہب کی تبدیلی کی بات کی گئی ہے لیکن بل پر باریک بینی سے غور کیاجائے تو عملا تبلیغ اسلام اور کسی غیر مسلم کے کسی بھی صورت میں مسلمان بننے پرنہ صرف پابندی عائد کردی گئی ہے بلکہ اس کو قابل تعزیر جرم قرار دیاگیاہے ۔بل کے مطابق اگر کوئی مسلمان اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرتاہے تو اس بل میں عائد کی جانے والی پابندیوں اور سزاؤں کا اس فردیا متعلقہ افراد پر اطلاق نہیں ہوگا۔تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ جبری طور پر مسلمان بنانے کی اجازت اسلام دیتاہے اور نہ ہی کوئی مکتبہ فکر اس کا قائل ہے، لیکن سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر جس طرح کا بل منظور کیاگیاہے وہ حقیقتاً اسلامی احکام، آئین پاکستان اور اخلاقیات سے بالکل متصادم ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام مذہبی طبقہ سراپا احتجاج ہے۔ جس انداز میں بل منظور کیاگیا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ بل کی تیاری سے لیکر منظوری تک اس پر باریک بینیوں سے غور نہیں کیاگیا، دانستہ یا غیر دانستہ طو پر جزباتی انداز میں بل کو منظور کیاگیا ۔ذرائع کے مطابق بل کی تیاری میں بعض این جی اوز اور بھارت نواز قوتوں نے اہم کردار اداکیا ہے ۔ہمارے خیال سے اس بل کے دو مقاصد ہیں ، پہلا مقصدیہ ہے کہ صوبے میں تبلیغ سے متاثر ہوکر مسلمان ہونے والوں کا راستہ روکا جائے ۔ دوسرا مقصد مذہبی بنیادوں پر مسلمانوں اور اقلیتوں کے مابین دوریا ں پیدا کی جائیں اور کسی سخت ردعمل کی صورت میں پھر دنیا کے سامنے پاکستان کے خلاف مہم شروع کی جائے ۔میں نے بل جن نکات پر غور کیا ہے وہ ان کے مطابق یہ بل خوفناک حد تک خطرناک ہے ۔ماہرین کے مطابق بل عدالت میں چیلنج ہوا تو یقینی طور پر کالعدم ہوجائے گا کیونکہ یہ قرآن وسنت اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔جمعیت علماء اسلام(ن )لاڑکانہ میں اپنے مرحوم رہنماء ڈاکٹر خالد محمود سومروکی مناسبت سے منعقد شہید اسلام کانفرنس میں اس بل کے خلاف بھرپور مہم چلانے کا اعلان کیا ہے ، جبکہ جماعت اسلامی کراچی کے تحت باغ جناح میں 26اور27نومبر کو ہونے والے دوروزہ وکرز کنونشن میں بھی جماعت اسلامی نے بھی نہ صرف بل کی مذمت کی ،بلکہ اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے ۔جماعت اسلامی نے خیبر پختونخوا کے بعد سندھ میں ایک بڑا اور کامیاب وکرز کنونشن منعقد کیا جس میں ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی ۔سندھ میں ایک طویل عرصے بعد جماعت اسلامی کا اس نوعیت کا اجتماع تھا ۔ فلسطین کی عظیم تحریک حماس کے مرکزی رہنماء خالد مشعل کے ٹیلی فونک خطاب ،ترکی، بنگلہ دیش ، برما اور دیگر ممالک کے وفود کی شرکت نے کنونشن کو عالمی کانفرنس کی شکل دی ۔کنونشن میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے مختلف ملکی اور عالمی ایشوز کے حوالے سے اپنا موقف ایک مرتبہ پھر دھرایا ، تاہم سندھ اسمبلی میں منظور ہونے والے بل کے حوالے سے انہوں نے بھی سخت پیغام دیا ہے ۔
دوسری جانب جماعت اسلامی کی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے مرکزی وائیس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے 28نومبر کو کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کے دوران سندھ اسمبلی میں بل کی منظوری کو پیپلزپارٹی کا تاریخی کارنامہ قرار دیااور اپنی جماعت کی حمایت کو بھی باعث افتخار قراردیا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے چار روزہ دورہ سندھ کے دوران سندھ کے مختلف اضلاع میں اجتماعات سے خطاب کیا۔شاہ محمود قریشی کے مٹیاری میں پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء مخدوم امین فہیم کی قبر پر حاضری اور ان کے جانشین مخدوم جمیل الزمان سے ملاقات کو بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں اہم قرار دیا جارہاہے ۔کراچی پریس کلب میں اگرچہ مختلف سوالات کے جوابات کے دوران پانامالیکس اور تحریک انصاف کی پالیسیوں کے حوالے سے مخدوم شاہ محمود قریشی کافی مطمئن دیکھائی دینے کی کوشش کررہے تھے لیکن گفتگو میں مایوسی واضح نظر آرہی تھی۔ شاہ محمود قریشی کا کہناہے کہ تحریک انصاف کیلئے یہ وقت سندھ میں قدم جمانے کا سنہری موقع ہے ،لیکن قریشی صاحب نے یہ نہیں بتایاکہ آخر تحریک انصاف اس موقع کا فائدہ کیوں نہیں اٹھارہی ہے اور کسی کرامت کے انتظار میں کیوں ہے۔ اگر 2013ء کے مقابلے میں2016میں تحریک انصاف کو سندھ میں دیکھا جائے تو وہ انتہائی کمزور ،غیر متحرک اور منقسم نظر آتی ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے دورے کے دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے چار مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں 27دسمبر سے احتجاج کے اعلان کا بار بار ذکر کیا اور ایسا لگتاہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو نوازشریف حکومت کیخلاف جزباتی پوزیشن میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔
لیکن پیپلزپارٹی کی قیادت اس وقت کافی سنجیدگی سے معاملات کو لیکر چل رہی ہے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ ، بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے بیانات سے یہ محسوس ہوتاہے کہ پیپلزپارٹی کوئی جذباتی یا غیر سنجیدہ قدم اٹھانے کے بجائے سنجیدہ اور بالغ نظر سیاسی فیصلوں پر غور کررہی ہے ۔پیپلزپارٹی کے چار مطالبات میں سے 3مطالبات انتہائی معمولی نوعیت کے ہیں جبکہ چوتھا مطالبہ جو زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ پہلے سے ہی سپریم کورٹ میں زیربحث ہے اس لیے اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت تصادم یاانتشار سے بچنا چاہتی ہے تو پیپلزپارٹی سے مذاکرات ضروری ہیں کیونکہ دونوں ملک کی بڑی سیاسی قوتیں ہیں ان کا تصادم ملک کو انتشار کی طرف لیجاسکتاہے اور اس وقت ملک کو انتشار کی نہیں اتحاد کی ضرورت ہے ۔
اگرچہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کامرکز آج کل سندھ کے بجائے پنجاب کوبنایا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ پیپلزپارٹی اب پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کیلئے کوشاں ہے۔مبصرین کے مطابق اگر پیپلزپارٹی نے اپنی سرگرمیاں اسی طرح جاری رکھیں تو نتائج 2013ء سے بہت زیادہ نہیں تو کافی حدتک مختلف ہوں گے۔ پیپلزپارٹی نے اپنی 49ویں یوم تاسیس کی تقریبات کا آغازکردیاہے اور پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سرگرم ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کادعویٰ ہے کہ بلاول بھٹوزرداری جلد ضمنی انتخاب میں حصہ لیکر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر پارلیمانی سیاست میں حصہ لیں گے، اس ضمن میں قومی اسمبلی کے حلقہ 204کے انتخابات میں حصہ لینے کی بازگشت بھی ہے، اس وقت اس حلقے سے محمد ایاز سومرو ممبر ہیں اور یہ بھٹو خاندان کی آبائی نشست قرار دی جارہی ہے ۔پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری کی رواں ماہ وطن واپسی کی خبریں بھی زیر گردش ہیں ۔
دوسری جانب سندھ کی دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ مختلف گروپوں میں تقسیم کے بعد اب تک اپنے آپ کو سنبھال نہیں پائی ہے ایم کیوایم پاکستان کو اس وقت ایم کیوایم لندن کے حامیوں کی جانب سے شدید مزاحمت اور مشکلات کا سامناہے ۔ ذرائع کے مطابق چندروز قبل گلستان جوہر اور ناظم آباد میں ایم کیوایم پاکستان کے مقامی ورکرز اجلاسوں کے دوران ایم کیوایم لندن کے حامیوں نے سخت مزاحمت کی جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے حق میں نعرے اور ایم کیوایم کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی سے اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کے مطالبات پر مشتمل وال چاکنگ میں مسلسل اضافہ ہورہاہے، اگر سلسلہ اسی طرح جاری رہاتو بڑے تصادم کا خدشہ ہے۔اس لئے حکمران ، قومی سلامتی کے ادارے اور کراچی کی انتظامیہ حالات کا جائزہ لیکر ضروری اقدام کریں۔