کالمز

آنے والے انتخابات کی تیاری 

آنے والے انتخابات کب ہونگے ؟ یہ بات کوئی نجو می ہی بتاسکتا ہے البتہ وطن عزیز کی بعض اہم سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی تیاری شروع کی ہے دو بڑی جماعتوں نے الگ الگ راستہ اختیار کیا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکمت علمی یہ ہے کہ کارکنوں کو بلا و ل بھٹو زرداری کی قیادت میں متحرک کر کے جیالوں کو پلیٹ فارم دیا جائے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی یہ ہے کہ کامیابی کی ضمانت والی شخصیات (الیکٹیبلز ) کواکٹھا کر کے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جائیں علاقائی سطح پر جماعتوں میں ایم کیو ایم تین دھڑوں میں تقسیم ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اس کے باو جود ووٹ اُس دھڑھے کو ملینگے جو الطاف بھائی کا دھڑا ہوگا لندن سکرٹریٹ کا و فادار ہوگا بہرحال کراچی اور حیدرآباد پر ایم کیو ایم کا راج نوشتہ دیوار ہے قومی سطح کی کوئی جماعت اس میں دراڑ نہیں ڈال سکے گی بلوچستان کے اندر بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کے حلقے ان کے ہاتھوں میں رہینگے جمعیۃ العلمائے اسلام کی برتری چند حلقوں میں قائم رہے گی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو حصہ بقدر جُثہ مل جائے گا منقسم مینڈیٹ بلوچستان کا مقدر ہے جب علاقائی جماعتیں ختم نہیں ہونگی وہاں مستحکم سیاسی روایات جنم نہیں لے سکینگی سندھ کے دیہاتی حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ فنکشنل اپنا اپنا ووٹ بینک قائم رکھینگے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کا بہت کاٹنے دار مقابلہ ہوگا دونوں کے پاس اپنے اپنے دلائل بھی ہیں اور الگ الگ پاکٹ بھی موجود ہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب کو تنظیمی لحاظ سے تین تنظیموں میں جگہ دی ہے جنوبی پنجاب، وسطی پنجاب اور پوٹھو ہار اس حکمت عملی کا مقابلہ کر نے کے لئے شہباز شریف اپنے پتے احتیاط اور تدبر سے کھیل رہے ہیں پنجاب سے قومی اسمبلی کی 150 نشستیں جس کو ملینگی ، وفاق میں وہی حکومت بنائے گا اس لئے دونوں بڑی جماعتوں نے 150 حلقوں پر نظر رکھی ہوئی ہے پنجاب کے اندر علاقائی جماعتوں میں مسلم لیگ (ق) مسلم لیگ فنکشنل او رپاکستان تحریک انصاف کے بھی چند حلقے ایسے ہیں جہاں سے اُن کی نشستیں آسکتی ہیں خیبر پختونخوا کا معاملہ بلوچستان کی طرح گھمبیر ہے اس صوبے میں علاقائی جما عتوں کے چھوٹے چھوٹے پاکٹس ہیں ہزار ہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے ڈیر ہ اسمعٰیل خان اور جنوبی اضلاع میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹ بنیک ہے ہشتنگر میں عوامی نیشنل پارٹی مقبول سیاسی قوت ہے قومی وطن پارٹی بھی ووٹ بنیک رکھتی ہے جمعیتہ لعلمائے اسلام (ف) کو جنوبی اضلاع میں مقبو لیت حاصل ہے جماعت اسلامی ملاکنڈ ڈویژن میں چند حلقوں پر حاوی ہے پاکستان تحریک انصاف کی نظر نو شہر ہ او رصوابی پر مرکوز ہے مسلم لیگ (ن) کے امیر مقام اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی اور پاکستان پیپلز پارتی کے انجینئر ہمایوں خان نے غیر اعلانیہ الیکشن مہم کا آغاز کردیا ہے جمیعتہ العلمائے اسلام (ف) کا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد ہے اور یہ اتحاد جنوبی اضلاع ، ہزارہ ،ملاکنڈاور ہشتنگر میں حیرت انگیز نتائج دے گا پاکستانی پیپلز پارٹی کے قائد بلا و ل بھٹو زرداری عنقریب خیبر پختونخوا کا دورہ کر نے والے ہیں ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ اے این پی ، قومی وطن پارٹ اور جماعت اسلامی کو ساتھ لیکر مسلم لیگ (ن) کے خلاف مضبوط انتخابی اتحاد قائم کیا جائے پاکستان تحریک انصاف اگر چہ حکومت میں جماعت اسلامی کی حلیف ہے مگر انتخابی میدان میں دونوں کے راستے جُدا جُداہیں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق متحرک شخصیت کے مالک ہیں صوبائی امیر مشتاق احمد خان نے گذشتہ دو سالوں میں اپنے آپ کو صوبائی سیاست میں منو الیا ہے تاہم پاکستان تحریک انصاف کی طرح جماعت اسلامی بھی سو لو فلائیٹ کی پو زیشن میں ہے اس سال اکتوبر میں پشاور کے قریب جماعت اسلامی کا اجتماع اس کی تنظیمی صلاحیت اور سیاسی طاقت کا مظاہر ہ تھا اس طاقت کو ووٹ میں بدلنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں سے کسی ایک جماعت کے ساتھ اتحاد یا کم از کم اضلاع کی سطح پر مفاہمت ناگزیر ہوگی خیبر پختونخوا میں آنے والی حکومت اُسی پارٹی کی ہوگی جس کو وفاق میں اکثریت حاصل ہوگی یہ بات ووٹر بھی جانتے ہیں اور سیاسی قیادت بھی جانتی ہے وفاق کے ساتھ محاذ ارائی سے صوبے کو نہ قابل تلافی نقصان پہنچے کا خدشہ ہے اور گذشتہ ساڑے تین سالوں میں صوبے کو اس کا خمیاز ہ بھگتنا پڑ اہے اگلے انتخابات سے پہلے اگر قبائلی علاقوں میں ایف سی ار کو ختم کر نے کا قانون منظور ہوا تو قبائلی علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائیند گی ملے گی اس صورت میں جمعیتہ العلمائے اسلام ، جماعت اسلامی اور اے این پی کو نسبتاً زیادہ فائد ہ ہوگا قومی سطح کی دونوں بڑی جماعتیں قبائلی علاقوں سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکینگی منقسم مینڈیت اور مخلوط حکومت ایک بار پھر ہمارا مقدر بنے گی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کو صوبے میں حکومت بنا نے کے لئے کم از کم 40 سیٹوں پر براہ راست انتخابت میں اپنے نما ئیند ے لانے ہونگے خواتین اور اقلیتی نشستوں کو ملا کر سیٹیں حکومت بنا نے کی پوزیشن میںآجائینگی اس صورت میں مخلوط حکومت مستحکم ہوگی چھوٹی پارٹی اکثریتی جماعت تو بلیک میل نہیں کر سکیگی اس وقت صوبے میں برسراقتدار جماعت کو دو طرح کے مسائل کا سامنا ہے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ گذشتہ ساڑھے تین سالوں کے اقتدار میں ترقیاتی کا م بند رہے بے روز گار ی میں اضافہ ہوا غربت کی شرح میں اضافہ ہوا صوبائی معیشت تبا ہوئی اور غیر ملکی امداد سے چلنے والے اہم پراجیکٹ بند ہوگئے کارکردگی دکھانے کے لئے بائیو میٹرک سسٹم ، انڈی پنڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ اور این ٹی ایس کے سوا کوئی ترقیاتی عمل سامنے نہیں ہے مذکورہ تین اقدامات پر بھی بڑے بڑے سوالیہ نشانات ہیں دوسرا مسئلہ پہلے مسئلے سے زیادہ پیچیدہ ہے وہ پارٹی کی تنظیم کا مسئلہ ہے 2012 ؁ء میں بنی ہوئی تنظیمیں تو ڑ کر نئی تنظیمیں نہیں بنائی گئیں اسلام اباد کے دھرنے کے لئے ضلعی تنظیموں کی جگہ صوبائی وزراء کو ٹاسک دیئے گئے تھے مقامی تنظیموں کے بغیر پارٹی انتخابات میں کسطرح مہم چلائیگی ؟ اگر فروری ،مارچ 2017 ؁ء میں تنظیم سازی شروع ہوتی ہے تو اس میں کتنا وقت لگے گا ؟ آنے والے انتخابات کی حلو ی پی ٹی آئی کو ہے مگر تیاری کے لحاظ سے یہ پارٹی سب سے پیچھے ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button