کالمز

دیامر پریس کلب اور عوامی مسائل

تحریر۔اسلم چلاسی

گلگت بلتستاں میں ضلع دیامر وہ بدبخت ضلع ہے جہاں پر آج کے اس جدید دور میں بھی عوام انسانی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں تعلیم کے نام پر روایتی تدریسی نظام رائج ہے جو سپاہی سے بابو تک کا نصاب ہے صحت عامہ کے نام پر مذاق ہوتا آرہا ہے ۔امن و امان کے حالات دگر گو ں ہے۔بجلی پانی اور سڑکوں کی ضرورت ہی کیا ہے قدرتی آفات کی صورت میں و اٹر چینل بہہ جائے پل ٹوٹ جائے تو عوام اپنے مدد آپ کے تحت بحالی کا کام کرتے ہیں کچھ علاقوں میں ایک ایک مہینے تک زمینی راستہ منقطع رہتا ہے عوام اشیائے ضرورت کو اٹھا کر لیے جا نے پر مجبور ہو جاتے ہیں لوگ در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں مگر کوئی پرسان حال نہیں ہوتادور دراز دہاتوں سے آئے ہوئے سائلین کے کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے بلا آخر ان کو مایوس لوٹنا پڑتا ہے ایسی ایسی دلگداز کہانیاں جنم لیتی ہیں جو منظر عام پر نہیں آتی غریب سود کی چکی میں پس رہے ہیںآقا اور غلام کا سلسلہ عروج پر ہے آواز نہیں اٹھتاسود خوروں کی شر سے معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے صدائے حق کو دبایا جاتا ہے اکثریت عقلیت کی دلدل میں دہنس چکی ہے وڈیریت عروج پا رہی ہے انسانیت بلک سسک رہی ہے غریب کا جینا محال ہے معاشرہ میں مکمل ما یوسی ہے عوام سسٹم سے دلبرداشتہ ہوچکے ہیں ظلم و ستم کی کہانیاں گلی محلوں میں ہی دبتی ہیں ۔غریبوں کی جائدادیں چھینی جاتی ہیں معاملات انصاف کے کٹہرے تک پہنچنے سے پہلے رفع دفع ہو جاتے ہیں۔غریب ظلم سہتا ہے آواز اٹھا نہیں سکتا چونکہ یہاں کا نیم قبائلی معاشرہ ایسی گستا خی کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔ لاشیں گرتی ہیں کہرام مچتا ہے برسوں تک دیرینہ دشمنیاں چلتی ہیں ایک سے دو تین چار دس بارا تک قتل و غارت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس کو مناسب انداز میں پیش کر کے پورے معاشرے کو اعتدال کی طرف لیے جایا جا سکتا ہے اب تک دیامر میں حقائق مفروضات کے لبادے میں پیش ہوتے رہے ہیں جس سے سوسائٹی کے اندر نمایا تبدیلی وقوع پزیر نہیں ہوئی حالانکہ گزشتہ پانچ دہایوں سے گلگت بلتستان معاشرتی حوالے سے بہت ترقی کر چکا ہے مگر دیامر تمام شعبوں میں جمود کا شکار ہے۔لوگوں کو ان کے حقوق اور فرائض کے بارے میں آگاہی کیلے نہ ریاست نے کوئی کردار ادا کیا نہ اہم حلقوں نے اس پر توجہ دی جس سے عملی طور پر عوام گروہ بندی کے شکار ہوگئے۔گزشتہ چند سالوں سے سیاسی مفادات کیلے طبقاتی تفریق کو بڑے مذموم انداز میں ہوا دیا جا رہا ہے جس میں پورا معاشرہ آہستہ آہستہ غرق دریا ہو رہا ہے تقسیم کے اس کھیل میں مفا دات تو چند لوگوں کے ہو سکتے ہیں مگر نقصان پورے معاشرے کیلے یقینی ہے۔ایسی صورت میں کچھ اداروں کو معاشرے کی بہتری کیلے کردار ا دا کرنے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر زرائع ابلاغ کو موثر بنا کرآمدہ تبا کاریوں سے پورے خطے کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔علاقے میں پچانویں فیصد نوجوان بے روزگار ہیں کسی قسم کی مصروفیت نہیں ہے اور ان کو صراط مستقیم پر نہیں لا یا گیا تو درد سر بن سکتے ہیں چو نکہ معاشرے کے اندر بیلنس نہیں ہے ۔اب ان تمام خرافات کو لگام دیکر عوام کو شعور دینے کی ضرورت ہے جس کیلے میڈیا کو فعال بنا نا از حد ضروری ہے مگر اس قوم کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہ گنجان آباد نیم قبا ئلی معاشرہ جو کم از کم تین اضلاع میں تقسیم ہونا چاہیے تھا اب تک ایک ضلع کی شکل میں سسٹم کی منہ پر طمانچہ کی صورت میں سامنے ہے اور غضب کی بات یہ ہے کہ اب تک عوامی رائے کے اظہار اور مسائل کو اجا گر کرنے کیلے ایک پریس کلب کی عمارت تک نہیں ہے۔

کچھ سینئر صحافی جن کو با بائے صحافت کہیے تو بے جا نہ ہو گا اپنے پوری زندگی عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کیلے صرف کی اور ایک پریس کلب کے حصول کیلے آج بھی سر گرداں ہیں مگر جانے وہ کونسی خوف ہے کہ اب تک ضلعی انتظامیہ چند گز زمین دینے کیلے تیار نہیں ہے پورا قیانوسی ضلع مسائلوں کے گرداب میں ہے سوسائٹی میں مایوسی کے بادل گرج رہے ہیں ایسے حالات میں ایک پریس کلب جہاں عوام کو امید کی آخری کرن کا کام دے سکتا ہے جس کے حصول کیلے اب صحافی برادری بھی یک جان نظر آتے ہیں وقت کا تقا ضہ بھی یہی ہے کہ آزاد صحافت پر قدغن کے مرتکب ہونے کے بجائے اظہار رائے کے تمام بند دروازوں کو کھول دیا جائے تا کہ معاشرے کے اندر پیدا ہونے والی انتشار کا خا تمہ ممکن ہو سکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button