کالمز

روٹھے ہوئے مہمان‎

اللّٰہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اس کائنات میں کسی بھی چیز کی تخلیق بلاوجہ یا مشیت ایزدی کے خلاف نہیں ہے۔ کائنات کی ہر شے منشاء الٰہی کے مطابق ایک خاص مقصد کے ساتھ اور کائنات کی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ انسان ،حیوان، چرند، پرند، جنگل و صحرا، کوہسار و دریا ،گویا یہ سارے عناصر مل کر اس نظامِ کائنات کو نہایت ہی خوش اسلوبی سے چلاتے ہیں ۔ ان سارے عناصر کا بیک وقت موجود ہونا ماحول کی نمو اور بقاء کے لئے  نہایت ضروری ہے کیونکہ ماحول کے اندر موجود تمام عناصر کا ایک دوسرے پر مکمل انحصار ہوتا ہے چاہے وہ انسان ہو یا حیوان، چرند ہو یا پرند۔ کسی ایک عنصر کی کمی پورے نظامِ قدرت کے دائرے میں چلنے والا منعظم نظام کو بگاڈ  دیتی ہے۔

انسان اپنے اندر نہایت ہی مطلب پرست اور خود غرض ہے۔ بظاہر انسان کوایسا لگتا ہے کہ خود انسانی وجود کے علاوہ تمام چیزوں کا معاشرے میں وجود غیر ضروری یے۔ ہم ایک ایسے ماحول میں پرورش پا رہے ہیں جہاں ہم اپنے ارد گرد بہت ساری چیزوں کو لاشعوری یا شعوری طور پر نظر انداز کر رہے ہیں اور ایک ہی سمت میں بھاگ رہے ہیں جس کو ہم نے ترقی کا نام دیا ہے۔ ہم روایتی تعلیم، کاروبار، پیسہ ،گھر، زیور ، لباس اور عیش وعشرت بھری صنعتی زندگی کو ترقی کہتے ہیں۔ہم  پرسکون ، صحتمند، آزاد، صاف ستھری زندگی کو ترقی نہیں سمجھتے حالانکہ دنیا کی شورش سے بھاگ کر پرسکون فضا میں چند لمحے گزار نے کا ہر انسان خواہاں ہے۔
تین دہائیوں پر محیط اس سفر زندگی میں بہت سی تبدیلیاں اچانک آگئی ہے ان میں سے کچھ تبدیلیاں فطری ہیں اور کچھ غیر فطری ہے۔ غیر فطری سے میرا مطلب چند چیزوں کی تبدیلی کا زمہ دار خود انسان ہی ہیں۔

گلگت بلتستان کی ان خوبصورت اور سرسبز و شاداب وادیوں میں کثیرالنسل اور مختلف نوع کے خوبصورت پرندے پائے جاتے تھے ۔ جو یا تو موسمی تھے یا غیر موسمی۔ ان میں سے اکثر پرندے اب نایاب ہو گئے ہیں۔ ان کے چہل پہل اور چہچہانے سے جہاں ماحول کا حسن دوبالا ہوتا تھا وہاں اللّٰہ کے وجود اور اللّٰہ کی شان و عظمت کا بھرپور احساس ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پوری کائنات مل کر اللّٰہ کی حمد و ثناء کر رہی ہو۔ الصبح پرندوں کے چہچہانے سے جہاں لاشعوری طور پر انسانی روح کو سکون ملتا ہے وہاں کائنات کا قدرتی حسن دوبالا ہوتا ہے۔

نہایت ہی بدقسمتی سے پچھلے چند سالوں میں بہت سارے پرندے ہمارے ماحول سے بالکل نایاب ہو چکے ہیں۔ شہر کے علاوہ اب دیہی علاقوں میں بھی پرندے غائب ہیں۔ ہمیں آج کل  یا تو ان چیزوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی یا لوگوں کو کار دنیا سے فرصت نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس مخصوص تحقیقاتی ادارے ہیں۔ یہ ماضی بعید کی بات نہیں البتہ پندرہ بیس سال پرانی بات ہے۔ سارا سال مختلف علاقوں سے موسمی پرندوں کا ان علاقوں میں آنا جانا رہتا تھا جو کہ لاکھوں کی تعداد میں آتے تھے۔ کچھ پرندے  سارا سال ہمارے ارد گرد ہمارے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ کسانوں کو اپنے فصلوں پے سارا دن پہرہ دینا ہوتا تھا۔ خصوصاً گندم اور مکئی کی کٹائی کے دوران ، توت ، خوبانی اور چیری کے پکنے کے سیزن میں لاکھوں کی تعداد میں مختلف نوع اور رنگ کے پرندے فصلوں پے حملہ آور ہوتے تھے۔ توت اور خوبانی کے پکنے کے سیزن میں لوگ پہرہ دیتے تھے۔  کوؤں کی تعداد کم وقت میں کم ہو گئی ہے۔ اسی طرح پوری دنیا میں کثرت میں پایا جانے والا پرندہ جس کو چڑیا Sparrow کہتے ہے، وہ بھی آہستہ آہستہ نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ صبح صبح گھر کی چھت پر چہچہانے اور سوئے لوگوں کی نیندیں خراب کرنے والا یہ پرندہ اب بہت ہی کم تعداد میں نظر آتا ہے۔ اس ماحولیاتی تبدیلی کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں مگر جو اہم وجوہات ہیں ان کا ذکر مختصراً ضروری ہے۔
سب سے پہلی اور اہم وجہ مجموعی طور پر ان پرندوں کو یکسر نظر انداز کرنا اور ہمارے اندر موجود اس بارے میں شعور کا نہ ہونا ہے۔ ہمارا معاشرہ پہلے ہی دنیا کے کئی سارے مسائل سے خود گھیرا ہوا ہے ہر بندہ صبح و شام نان ونفقہ کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ سرکاری  اور نجی سطح پر ان کی طرف توجہ دینے کی کوئی خاص وجہ نہیں بنتی کیونکہ ہم وہاں بھر پور توجہ دینے کے عادی ہیں جہاں ہمارا کوئی مادی فائدہ ہو یا مطلب ہو۔
یورپ ترقی میں بام عروج حاصل کرنےکے باوجود اپنے ماحول کے بارے میں نہایت فکرمند ہے۔ اور قوم کے اندر ماحول کو سمجھنے کا شعور موجود ہے۔ لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں اور باغیچوں میں پرندوں کے لئے خصوصی انتظامات کئے ہوتے ہیں۔ ان کے گھونسلوں کے لئے جگہیں بنائی جاتی ہیں جہاں پرندے گھونسلے بناتے ہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری سطح پر کہیں ادارے بنےضرور ہیں مگر وہ بھی صرف مارخور کو بچانے میں مصروف ہیں۔
دوسری اہم وجہ ہماری زمین کا دن بدن تنگ ہونا ہے۔ انسانی آبادی  تیزی سے پھیل رہی ہے، اور غیر منعظم انداز میں تعمیراتی کام کی تیزی ہے جس سے چند ہی سالوں میں قدرتی حسن عرض شمال سے ناپید ہوجائے گا ۔جنگل دن بدن ختم ہو رہے ہیں، قدرتی حسن ناپید ہو رہا ہے، فضائی آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ہریالی،  کھیت و کھلیان ختم ہو رہے ہیں۔ نتیجتاً،  پرندوں اور جانوروں کے لئے قدرتی سازگار ماحول ختم ہو رہا ہے جس سے یا تو پرندے مر جاتے ہیں یا وہ مستقل طور پر دوسری جگہوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔

تیسری اہم اور سب سے اہم وجہ غیر معیاری کھادوں اور کیمیکلز کا بے دریغ استعمال ہے۔ ہمارے ہاں ریسرچ کا  بڑا فقدان ہے اور ہمارا معاشرہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اتنا باشعور ابھی تک نہیں کہ ہم ماحول دوستی کا خیال رکھے۔ آلو، گندم، سبزیوں اور کہیں فصلوں کو بہتر اگانے کے چکر میں ہم خود اپنی صحت اور ماحول کے خوبصورت پرندوں کو بڑے پیمانے پے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ میں نے ایک بزرگ سے قدیم سے ابھی تک کے پرندوں کے بارے میں دریافت کیا۔ انھوں نے اتنے پرندوں کے نام بتایا جو آج ہمارے ماحول سے  بالکل نایاب ہو چکے ہیں۔

پرندے ہمارے ماحول کے لئے نہایت ضروری ہیں اور اس Natural Cycle کو پورا کرنے کے لئے ماحول کے تمام عناصر کا موجود ہونا لازمی ہے۔ کسی ایک کی کمی سے جب Natural Cycle  کو نقصان پہنچے گا تو ماحول کا قدرتی توازن ازخود بگڑ جائے گا۔قدرت کا کرشمہ ہے ہم اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں مگر پرندے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ پرندے درختوں ، سبزیوں، فصلوں پے لگے کیڑے مکوڑوں کو کھاتے رہتے ہیں اور ان کو نقصان پہنچانے سے بچاتے ہیں۔ ان کی تعداد میں کمی سے فصلوں کو بڑے پیمانے پے نقصان پہنچانے کا خطرہ ہے اور یہ کئی علاقوں میں اب دیکھنے میں آیا ہے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے ، بزرگ فرماتے ہیں کہ جس سال پرندوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی، اس سال فصل کی پیداوار بھی زیادہ  اور اچھی ہوتی تھی۔
ہم ان پرندوں کو آسانی سے لوٹا تو نہیں سکتے البتہ ذاتی طور پر اپنے اندر اور اپنی بچوں کے اندر شعور پیدا کر سکتے ہیں کہ ہم وہ اقدامات کھبی نہ اٹھائیں جس سے  ہمارا ماحول کو ہی خطرہ لاحق ہو جیسے غیر نامیاتی کھادوں کا استعمال، فضائی آلودگی۔میں اضافہ، جنگل کا کٹاؤ، فصلوں کی پیداوار میں کمی، زراعت میں کمی اور ادویات اور زہر کا بے دریغ استعمال وغیرہ۔
اگر ہم اپنے گھروں میں، باغیچوں میں اور جہاں بھی ممکن ہو، پرندوں کے لئے تھوڑا انتظام کرے تو ہم اللّٰہ کی اس کائنات کی خوبصورتی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ گھر کا بچا کچا کھانا کسی خاص جگہ میں پرندوں کے لئے رکھا جائے تو اس کے دو فائدے ہونگے۔ ایک اللّٰہ کی اس مخلوق کی خدمت کے ذریعے دعا لینا اور ثواب کمانا اور دوسرا فائدہ مستقبل کی نسلوں کے لئے قدرتی ماحول کو محفوظ رکھنا۔ ہمیں اپنے بچوں کے اندر روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ماحول دوستی، قدرتی ماحول کی حفاظت، مخلوق خدا کی خدمت اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button