کالمز

تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

تحریر: غلام الدین

ویسے تو ہم دنیا کی عظیم اقوام میں سے ایک ہیں جنہوں نے بڑی جدوجہد اور تن من دھن کا نذرانہ پیش کرکے ملک عظیم کو حاصل کیا ہے۔کئی ماؤں کے آنچل اجڑگئے، کئی بہنوں نے اپنے بھائیوں کو نذر آتش ہوتے دیکھا، کئی بھائیوں نے اپنی بہنوں کو اور کئی بیٹیوں نے اپنی ماؤں کی عزت و آبرو کی سرِ بازار نیلام ہوتے دیکھا، کئی والدین نے اپنی اولاد اور عزیزوں کو زیرخنجر دم توڑتے ہوئے دیکھا اورکئی دولت مند اور جاگیرداروں نے اپنے جاگیروں کو دشمنوں کے ہاتھوں جلتے اور قبضہ ہوتے دیکھا اور انہوں نے ایسے کئی جابرانہ حالات سے نمٹتے ہوئے اور سختیاں جھیلتے ہوئے ہمارے لئے ایک ایسے امن کے گہوارے کا معاہدہ کیا جہاں ہماری جان،مال،عزت و آبرو،ثقافت، تہذیب و تمدن اور مذہبی اقدار و روایات محفوظ ہوں۔ اسی دارالامان کا نام ہمارے آباء و اجداد نے اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا جسکا مطلب پاک لوگوں کے رہنے کی سرزمین ہے۔مگر ہم آج جو کچھ کرہے ہیں اس سے ان کی روحوں کو تکلیف ہی نہیں بلکہ وہ اس پچھتاوے کی آگ میں جل رہے ہونگے کہ کاش ہم یہ سودا نہ کرتے۔آج اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ ضرور یہ کہتے

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

ہر طلوع سحر انسانوں کیلئے بشارت لئے نازل ہوتی ہے مگر ہمارے لئے بدخبر لئے نمودار ہوتی سے۔ہر شام ٹیلی وژنز کی سرخیاں دقت آمیز خبروں سے آباد رہتی ہیں جنہیں دیکھ کر زندہ دل لوگوں کی چیخیں اٹھتی ہیں اور ان کا ضمیر انہیں ملامت کررہا ہوتا ہے لیکن ہم اس قدر بددل ہوچکے ہیں اور ان خبروں سے عادی ہوچکے ہیں اور ہنسی مذاق میں ٹال دیتے ہیں چونکہ ہمارا ضمیر مردہ ہوچکا ہے۔

کبھی بوری بند لاشوں کا برآمد ہونا، کبھی نوعمر بچوں اور بچیوں کا بے ضمیر لوگوں اور گینگسٹرز کے نفس کا شکار ہونا اور مستقبل کے ستاروں کو ہوس کا نشانہ بنانا، نشے کی خاطرماں باپ، بہن بھائی کو موت کے گھاٹ اتاردینا، بے روزگاری کی وجہ سے ڈکیتی کرنا، ٹارگٹ کلنگ کرنا، غلط اشیاء کی اسمگلنگ کرنا، خاص خاص مقامات پر بم دھماکے کرنا اور ایسے کئی جرائم کا سرزد ہونا ہمارے لئے اور خصوصاََ ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے جرائم کون لوگ کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں اور ان کا ذمہ دار کون ہے آیئے دیکھتے ہیں۔

ہر بندے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ مالدار اور جاگیردار ہوجائے اور اس کے پاس دھن دولت کے انبار لگے ہوں اور مرسڈیز، لینڈکروزر اور وٹز اسکے گھر کی ذینت بنے، شاندار قسم کا محل ہو، بیرون ملک میں کوٹھیاں ہوں گھر میں کئی ملازم ہوں تو تب جینے کا مزہ آتا ہے۔

یہی سوچ ہمارے حکمرانوں میں آئے روز بڑھتی جارہی ہے اور اسی خواہش کی تکمیل کیلئے وہ ہر کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کرپشن، دھاندلی، جبر ، حق تلفی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے واقعات کا بازارگرم رہتا ہے جسکی وجہ سے ملک کی معیشیت دم توڑتے ہوئے نظرآتی ہے اور آئے روز بیروزگاری کی شرح بڑھتی جاری ہے۔

ہمارے آفیسروں اور حکمرانوں کو اس بات سے غرض نہیں رہتا کہ کسی غریب پر کیا بیت رہی ہوتی ہے انہیں تو اس بات سے غرض ہے کہ کسطرح سے زیادہ سے زیادہ دولت کمایا جائے اور دنیا کے امیرترین لوگوں کے فہرست میں اپنا نام شامل کردیا جائے۔اپنا کام بنے بھاڑ میں جائے جنتا والی کہاوت خوب جچتی ہے۔

ہمارے حکمرانوں کے بچے تو لندن اور پیرس میں غریبوں کی پیسوں پر شہنشاہوں کی زندگی جیتے ہیں اوربڑے بڑے تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور بڑے بڑے لینڈکروزرز میں گھومتے ہیں اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ اس لئے انہیں کسی بات کی فکر نہیں رہتی چاہے ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو قفل لگے یا کھلے رہیں۔پڑھائی ہو یا نہ ہو۔اس لئے وہ مہینوں تک دھرنے دیتے اور تعلیمی اداروں کوقفل لگانے پر مجبور کرتے ہیں اور ان کی وجہ سے کئی لوگوں کا کاروبار زندگی مفلوج رہتا ہے اور لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپتے ہیں مگر حکمرانوں کی کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ ان کے سر پر تو صرف اقتدار کا بھوت سوار رہتا ہے۔

بیروزگاری اور بھوک کی وجہ سے لوگ خودسوزی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جبکہ وزیراعظم صاحب کی ایک وقت لنچ کیلئے فائیو سٹارہوٹل اسلام آباد سے ہیلی کاپٹر مری میں لینڈ کرتی ہے اور غرباء کے بچے سکول میں ہونے کے بجائے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کی غرض سے ورکشاپوں اور کارخانوں کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں اور کئی ہفتوں تک ان کے گھروں میں چولہا تک نہیں جلتا اور ان کا حال پوچھنے والاکوئی نہیں۔

حکمران یا ان کے بچے کو معمولی بخار لاحق ہو تو حکومتی خرچے پر انہیں امریکہ اور برطانیہ کے مہنگے ترین ہسپتالوں تک پہنچادیا جاتا ہے جبکہ کسی غریب کی زندگی کا سوال ہو تو بھی وہ گورنمنٹ ہسپتالوں میں سڑے ہوئے بیڈوں پر ایکسپائرڈ دوائیاں کھاتے ہوئے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہوتے ہیں۔

ہمارے تعلیمی نظام کا حال بھی زوال کا شکار ہے جہاں سے مستقبل کے معمار نکلنے کے بجائے ایٹم بم نکلتے ہیں جو کہ معاشرے کے لئے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ۔ جنگ آزادری کے بعد فرنگیوں نے جو تعلیمی نظام رائج کیا ہے وہی نظام اکیسویں صدی میں بھی چل رہا ہے جو کہ جدید نقطہ نظر سے بالکل غلط ہے۔جدید تعلیمی نظام سے ہم کئی سو سال دور ہیں۔

اگر ہمارے معاشرے کا اور حکومت کا طرز عمل یہی رہا تو بہت جلد ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائیگا۔اسی لئے حکمرانوں سے میری اپیل ہے کہ خدا را اس ملک کو زوال کا شکار ہونے سے بچانے میں اپنا مثبت کردارادا کریں اور ہمارے آباؤ اجداد کی روحوں کو سکھ پہنچا دیں ۔ حکومتی اداروں کو شفاف تر بنا دیں ، تعلیمی اداروں کو جدید سے جدید تر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں اور جدید ٹیکنالوجی سے ملک کے تمام تر تعلیمی اداروں کو مستفید کریں اور ان کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں اور مستقبل کے معماروں کو صحیح معنوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ان کی ہر طرح کی مدد کی جائے اور ان کے مسائل کو حل کیا جائے اور ان کی رائے کو ترجیح دی جائے اور اس کے بعد ہر شہری کو اس کا بنیادی حق بہم پہنچایا جائے اور مختلف طریقوں سے لوگوں میں ماس اویرنس پیدا کیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہم بھی دنیا کے عظیم اقوام کی فہرست میں شامل کر دئے جائیں وگرنہ ہم یوں ڈوب جائیں گے کہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

صاحبِ تحریر آغاخان ہائر سیکنڈری سکول گلگت کا طالبعلم ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button