کالمز

فلک نور: گلگت بلتستان کی دُعا زہرا

تحریر : شریف گل

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی 13 سالہ بچی فلک نور کے مبینہ اغوا کا واقعہ اس وقت تشویش ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے ۔ تقریبا دو ماہ گزرنے کے بعد بھی گلگلت بلتستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تاحال کسی بھی قسم کی کارروائی کا نہ ہونا ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

13 سالہ بچی فلک نور 20 جنوری 2024 کو سلطان آباد، گلگت سے لاپتہ ہو گئی تھی۔فلک نور کے والدین کا کہنا ہے وہ معمول کے مطابق گھر سے سکول اور بعد ازاں مدرسہ پڑھنے جاتی تھی مگر اس دن وہ سکول سے گھر واپس آئی مگر جب مدرسہ پڑھنے گئی اس کے دس منٹ بعد ہی سلطان آباد ہی سے بابر خان نامی شخص اور ایک خاتون نے بچی کو اغوا کر لیا۔جس پر ہم نے فوری طور پر متعلقہ تھانہ دنیور گلگت سمیت سٹی تھانہ گلگت میں گمشدگی کی FIR درج کروائی۔

مگر ایک ماہ گزرنے کے بعد بھی پولیس کی طرف سے کسی بھی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی جس پر بچی کے والد سخی احمد جان نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور کیس کی کارروائی شروع ہوئی مگر تاحال قانون نافذ کرنے والے ادارے بچی کو بازیاب کرانے میں ناکام نظر آر ہے ہیں۔

دوسری طرف فلک نور کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں وہ کہہ رہی ہے کہ میں اپنی مرضی سے گئی ہوں مجھ پر کسی بھی قسم کا کوئی پریشر نہیں۔ میں فرید نامی لڑکے سے محبت کرتی تھی اور میرا والد کسی اور لڑکے سے میرا نکاح کرنا چاہتے تھے اس وجہ سے میں اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر آئی ہوں اور میں اس لڑکے سے خوش ہوں ۔

فلک نور کے والدین نے اس ویڈیو کی مکمل تردید کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق بچی سے یہ بیان زبردستی دلوایا جارہا ہے جس کی وہ مذمت کرتے ہیں اور عدالت سے انصاف کی امید کرتے ہیں۔ ہنزہ اور اسلام آباد میں اس واقعہ کے خلاف احتجاج کیا گیا جبکہ دیگر علاقوں میں بھی احتجاج کی تیاری کی جارہی ہے۔

والدین کے مطابق گلگت بلتستان پولیس پر کیس کو شفاف اور قانون کے مطابق چلانے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف اس کیس کو پولیس کی کارکردگی کے لیے ایک اہم امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔

اس پورے واقعے کو بیشتر لوگ کراچی میں ایک سال قبل پیش آنے والا واقعہ دعاء زہرا کیس سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ دعا زہرا بھی کم عمری میں اپنی مرضی سے گھر سے گئی تھی، مگر والدین نے ہمت نہ ناہاری اور بالاخر اپنی بچی کو واپس لانے میں کامیاب ہوگئے۔  دعاء زھرا کیس کو سوشل میڈیا سمیت پاکستان کے مین سٹریم میڈیا نے خوب کوریج دی اور بچی کی بازیابی تک والدین کا بھر پور ساتھ دیا۔ لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے کچھ گنے چنے سوشل میڈیا چینلز کے علاوہ سب اس واقعہ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

فلک نور کا واقعہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا انوکھا اور غیر معمولی واقعہ ہے۔ فلک نور ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اس کا والد ایک دیہاڑی دار مزدور ہے اور اس وقت وہ ایک کرایہ کے کھر میں رہتے ہیں اور بظاہر یہی وجہ ہے جس بنا پر اس کیس پرابتدائی کام کرنے میں ہی پولیس کو تقریبا دو ماہ کا وقت لگا۔اس پورے واقعے میں ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بہت سارے شک وشبہات پیدا ہونے کے ساتھ ہی ان پر کیے جانے والے اعتماد پر گہرے منفی اثرات جنم لے رہے ہیں۔

غریب آخر کہاں جائیں؟ یہ ادارے آخر کس لیے بنائے گئے ہیں؟  کیا ہماری پولیس صرف مراعات لینے بیٹھی ہے؟کیا عدالت میں رجوع کرنے اور وکیل کو بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد انصاف کی توقع کی جائے؟ کیا ہمارے تمام ادارے بد عنوانی ، کرپشن اور جان پہچان کے ہی سے کام کرتے ہیں؟ یعنی ایک غریب آدمی انصاف کہ توقع ہی نہ کرے ۔ ابھی تک پولیس کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ اگر اس کیس کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہوئی ہے تو وہ میڈیا کے سامنے کیوں نہیں لاتے؟

اس قسم کے بہت سارے سوالات اس کیس کے حوالے سے بنتے ہیں مگر یہ جوابات شاید ان کے پاس نہ ہوں مگر یہاں انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم اس متاثر خاندان خاندان کا ساتھ دیں۔ ہم یہ محسوس نہیں کرسکتے کہ فلک نور کے والدین پر کیا گزری رہی ہوگی!

چلیں مان بھی لیں فلک نور اپنی مرضی سے گئی ہے۔ لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ایک بارہ سالہ بچی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا قانونی اور شرعی اختیار حاصل ہے؟

ایک لخت جگر کا یوں اچانک جدا ہونا والدین کے لیے یقینا اذیت ناک ہے۔  فلک نور کے مزدور باپ نے اسی بچی کو تعلیم دلانے کی خاطر ہنزہ سے ہجرت کی۔ اس کا دوسرا بچہ گونگا ہے۔ وہ ابھی بہن کی وجہ بہت پریشان ہے اور اپنی بہن کے بارے میں اکثر اشاروں میں پوچھتا ہے مگر یقیناً ہر بار ٹال دیتے ہونگے!

والدین  اپنے بچوں کی خاطر ہر مشکل جھیلنے کو تیار رہتے ہیں۔ ماں بچے کو نو ماہ پیٹ میں پالتی ہے اس کے بعد جب وہ دنیا میں آتا ہے تو روایتی طور پر اس کی ذمہ داری باپ پر منتقل ہوتی ہے اور وہ اس کی خوراک کے ساتھ ساتھ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنے پر مصروف رہتا ہے اور اگر کوئی سخی احمد جان کی طرح مزدور ہو تو اسے یقینا بہت زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے۔ 

ہم اگر تھوڑا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو محسوس ہوگا فلک نور کے والدین نے 13 سال کس تکلیف سے اس بچی کو پالا پوسا اور آج بد قسمتی سے انھیں یہ وقت دیکھنا نصیب ہوا!

خیر ہمارے اس معاشرے کی سب بڑی بے ہسی تو دیکھئے ہر کوئی ان والدین سے ہمدردی کم اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنا زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ سخی احمد جان جس کرب سے گزر رہا ہے شاید کوئی جان سکے گو کہ وہ پیشے سے ایک مزدور ہے اور جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے اس وقت سے اب تک یقینا یہ مزدوری بھی کررہا ہوگا ۔اور اس دوران ان سےکتنے لوگ سوالات کرتے ہونگے اور اگر وہ تنگ آکر مزدوری کرنا چھوڑ دے تو اس کا گھر کون چلائے گا؟ یہ سب معاملات اس گھرانے کا دوسرا رخ ہیں جسکو ہم کبھی محسوس نہیں کرسکتے یہ سب مشکلات انھیں والدین کو اٹھانے پڑھ رہے ہیں۔ متاثرہ اہل خانہ کی جگہ کوئی مال دار خاندان ہوتا تو شاید یہاں معاملہ کوئی اور صورتحال اختیار کر چکا ہوتا ۔بدقسمتی سے فلک نور جو کہ ایک مزدور کی بیٹی ہے۔

والدین کی تمام تر امیدیں اللہ تعالی کے بعد متعلقہ اداروں پر صبح شام جمی ہوئی ہیں۔ اور ان کی آنکھیں انصاف منتظر ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے سمیت عدالتی حکام کو چاہیے کہ جلد از جلد اس معاملے کو حل کریں اور والدین کو جلد انصاف فراہم کریں۔اس کے ساتھ ہی سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے گزارش ہے کہ اس متاثرہ خاندان کو قانونی مدد فراہم کرنے کے ساتھ مالی امداد بھی دے تاکہ والدین کو کسی بھی قسم کی پریشان اٹھانی نہ پڑے۔ 

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button