کالمز
تو اپنے پیر ہن کے چاک تو پہلے رفو کرلے
اہل مغرب چاند پر گئے تو کیا ہوا پوشیدہ صلاحیتیں تو ہمارے اندربھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں جن کی بدولت ملک و ملت زوال کی سمت دھکیل دئے جاتے ہیں اور ترقی کے منازل ہم سے کوسوں دور بھاگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔صرف اتنا ہی نہیں ہماری آنے والی نسل میں بھی یہ صلاحیتیں منتقل ہوتی ہیں جس سے ہماری آخری امید کی کرن بھی ہمیں نظروں سے اوجھل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ہمارے مستقبل کے معماروں،اقبال کے شاہینوں اور مستقبل کے ستاروں میں یہ صلاحیتیں کچھ ایسی روپ دھار رہی ہیں جو مثل گاز آئے روز ان کے ضمیر کو ٹکڑے ٹکڑے کررہی ہے۔
ہماری سب سے اچھی، نرالی اور محبوب صلاحیت تنقید کرنا ہے جس نے سربراہان مملکت سے لیکر گھر میں کھلونوں کیساتھ کھیلنے والے نونہالوں کو اپنی لپیٹ میں اس طرح سمودیا ہے کہ واپسی کیلئے دور دور تک کوئی راستہ نظروں سے ہوکر نہیں گزرتا۔
اس کی شروعات ہمارے ملک کے قومی اسمبلی سے ہوتی ہے اور اختتام گھر کے اندر پہاڑ اور گلہری پڑھنے والے بچوں پر ہوتی ہے۔اور ہمارے میڈیاتو اس امر کو کچھ اسطرح بڑھا چڑھا کرپیش کرتی ہے کہ دیکھنے والے اگر زندہ دل ہوں تو ٹی۔وی سکرین کو زیر نعلین ہوئے ہیں اور وقت گزارنے کی غرض سے کوئی شخص دیکھ رہا ہو تو وہ کچھ یوں کھو جاتا ہے جیسے ٹی۔وی اسکرین پر آنکھیں دھرنے کے دوران عزرائیل نے ان کی روح قبضہ کی ہو۔
ہماری قومی اسمبلی کی مثال ایک ایسے گھر کی ہے جہاں کسی بیٹے کی شادی ماں باپ کی پسند کے خلاف ہوتی ہو اور ساس اور بہو کے درمیان جھگڑے روز کا معمول بن گیا ہو۔اس خاندان میں وزیراعظم صاحب ساس، قائد حزب اختلاف بہو بیٹا سپیکر اور اراکین اسمبلی گھر کے دیگر افراد کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں پر بہو اور ساس کے آپس کے تعلقات بہت خراب رہتے ہیں جسکی وجہ سے بیچاری بہو مہینوں تک اپنے گھر والوں کو ساتھ لئے قومی اسمبلی کے باہر ڈھیرہ بھی جماتی ہے جسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ دنوں بعد ہمسائے لوگ آتے ہیں اور ان میں مصالحت کرواتے ہیں۔کچھ مہینے آرام کرتے ہیں اور پھر وہی ماحول شروع ہوجاتا ہے اسکی بنیادی وجہ ناقص ملکی پالیسی اور سیاست ہے اور دوسری طرف تنگ نظری چونکہ ہم دوسرون کے کاموں میں برائیاں تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور جونہی کوئی برائی سرزد ہوتی ہے تو اس پر کچھ اس طرح سے کیچڑ اچھال لیتے ہیں کہ وہ اس شخص کو ذلیل کرنے کیلئے کافی معقول رہتا ہے۔ہم ناقص طریقوں سے دوسروں کے ضمیر کو جگانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اپنا ضمیر کی پردہ پوشی کرنے ہیں اور اس سے بے خبر رہتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چلتے چلتے اس طرح گھڑے میں گرجاتے ہیں جہاں سے نکلتے نکلتے نکل نہیں پاتے۔اور دوسری جانب ہمارے آفیسرزبدعنوانی کی روک تھام کیلئے الحمداللہ سے بڑی بڑی کاوشوں میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں اور اگر اس طرح سے وہ اپنا کام جاری و ساری رکھیں گے تو انشااللہ و تعلی کچھ ہی سالوں میں بدعنوانی کا اس طرح خاتمہ ہوگا کہ دنیا کے نقشے میں ہماررا نام و نشان باقی نہیں رہیگا۔ان کا کردار قابل ذکر ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔۔۔کہ وہ خود کروڑوں مول کے لینڈکروزر جس میں ایئر کنڈیشنر، دائیں بائیں الرٹ سیکورٹی گارڑز، آگے پیچھے پانچ پانچ گاڑیوں میں سکواڑ لیکر گھومتے ہیں۔لاکھوں مول کے لباس، مہنگے ترین موبائل، ہتھیلی میں جاپانی گھڑی جسکا مول لگانا عام آدمی کیلئے خاصا مشکل ہوتا ہے اور وہ ہائی سیکورڈ اور سپیشل ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کا کام کچھ یوں ہے کہ وہ سڑکوں پر بینرز لگادیتے ہیں اور دیواروں پر چاکنگ کرتے ہیں(Say No To Corruption)۔یہ اس لئے تاکہ روڑپر پیدل چلنے والے مزدور اور بھکاری اس کو پڑھ سکیں اور بدعنوانی سے گریز کریں حالانکہ اصل مجرم تو اس طرح پروٹوکول کیساتھ چلتا ہے کہ آگے پیچھے دائیں بائیں سکواڑ لگے ہوتے ہیں اور گاڑیوں میں کالے شیشے لگے ہوتے ہیں جس سے انکو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جنت میں ہیں یا دنیا میں۔زمین پر ہیں یا آسمان پر، چل رہے ہیں یا بیٹھے ہوئے ہیں۔باہر کے دنیا کا ان کو کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا تو وہ بچارے سڑکوں پر لگے پوسٹرز کوکیسے دیکھ پائیں گے۔خوب ہے نا۔۔۔۔۔۔۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے لوگ برے کاموں سے گریز کریں گے تو معاشرے سے برائی دم توڑ دیگی حالانکہ خود کے گریباں میں جھانکنے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ہم لوگوں میں برائیاں تلاش کرنے میں بہت مشہور ہیں اور ہماری میڈیا بھی اس کام میں بہت تیز ہے جو کبھی کسی کے نیلی آنکھوں کو بڑا ایشو بناتا ہے تو کبھی سیلفی لینے پر بدنام کردیتا ہے اور نتیجا یہ نکلتا ہے کہ کم ظرف لوگوں کی غیرت جاگ اٹھتی ہے اور وہ کسی کا گلہ کھوٹ کر موت کی نیند سلا دیتے ہیں تو کوئی میک اپ کے پیچھے دوڑتا ہے کہ کاش میں بھی ٹی۔وی اسکرین کی زینت بنوں۔حالانکہ کوئی بندہ جب کبھی اچھا کام کرے تو اس پر خاموشی برتی جاتی ہے اس سے داد دینے کے بجائے اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس نے کوئی خاص کام نہیں کیا جس سے مایوسی غالب آجاتی ہے اور آئیندہ کیلئے کوئی شخص اچھے کام کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔اچھی باتیں اور اسلامی تعلیمات ہمیں سننے اور سنانے کی حد تک ہی مناسب لگتی ہیں۔قرآن و احادیث سے آیتیں اور قول نبویﷺ زبانی یاد کرکے مجلس سنانا ہی ہمارا شیوہ ہے نہ کہ ان پر عمل پیرا ہوکے دکھانا کہ اچھے باتوں پر عمل کرنے سے زندگی یوں بدل جاتی ہے۔یہ الم ملک کے ایوان سے لیکر گھروں تک عام ہوا ہے۔جیسا کہ گھر میں جب کوئی بچہ برتن توڑدیتا ہے تو اسے ڈرایا جاتا ہے اور اس پر ہاتھ بھی اٹھایا جاتا ہے حالانکہ وہی برتن اسی بڑے شخص کے ہاتھ سے ٹوٹ جائے تو اس سے اسکی غلطی سمجھ کر معاف کردیا جاتا ہے۔خود سے غلطیاں سرزد ہوجائیں تو معافی کی گنجائش ہے اور اگر وہی غلطی کسی دوسرے سے سرزد ہوجائے تو معافی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔اور یوں ہم بڑے دعوے اور ایمانداری کیساتھ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ہمارے قول قرآن و حدیث کے مطابق اور فعل خببیث کے ہوتے ہیں جیسا کہ ہم دوسروں کو بھائی چارگی ،ہمدردی،اخوت،عفودرگزر،اتحاد و اتفاق، دیانتداری،پاکدامنی،عدل و الصاف،برابری، استقامت،صبر و تحمل، اخلاقیات، ادب، رحم، شفقت پیار اور روادیاری کی درس دیتے ہیں جبکہ خود اناپرستی، بے دردی، بزدلی، بے اتفاقی، خیانتی، حق تلفی، نے ادبی، بے رحمی، نفرت، اور شر انگیزی پر اتر آتے ہیں تو ابلیس، حیوان اور گرگٹ کو بھی پیچھے چھوڑدیتے ہیں اور خود کو فرقوں، مسلکوں، مفادپرستی، قوم پرستی اور شر انگیزی کے بیڑیوں اور زنجیروں میں اسطرح جکڑ لیتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات اور اچھی باتیں کجا رہ جاتی ہیں اور معمولی غلطیوں پر خود کے گریباں میں جھانکے بغیر دوسروں سے دست گریباں ہوجاتے ہیں اور یوں چھوٹی چھوٹی معاملات دشمنی کی حد تک چلی جاتی ہیں جو کہ زمانہ جاہلیت کے یادوں کو روح بخشتی ہیں۔اسی امر کو زیر نظر رکھتے ہوئے اقبال نے ہماری کیا خوب تصویر کشی کی ہے کہ
تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صد جاک بلبل کا
تو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کرلے
اس لئے معاشرے سے برائیوں کی بیخ کنی کرنے کیلئے سب سے اہم اور ضروری نسخہ اور ترقی کا صیغہ راز یہ ہے کہ دوسروں پر تنقید کرنے سے گریز کریں اور سب سے پہلے خود کے گریباں میں جھانک کردیکھنے کی عہد کرے تو انشاء اللہ و تعالی ہم اپنے مشن میں کامیاب ہی نہیں ہونگے بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ مملک کے ہم صف کھڑے ہونگے وگرنہ ترقی کے خوابوں اور تمناؤں کے ساتھ ساتھ رسوائی کو ہماری مقدر بننے سے کوئی نہیں بچا پائیگا۔
مضمون نگار آغا خان ہائر سیکنڈری سکول گلگت کا طالب علم ہے۔