جنگ آزادی گلگت بلتستان 1948 ء میں گلگت بلتستان کے غیور عوام نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کرنے اور مملکت خداداد پاکستان میں شامل ہونے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت اُٹھ کھڑے ہو گئے اورجو عظیم قرنیاں رقم کیں آج وہ قصہ پارینہ بن چکی ہیں آج کو ن جانتا ہے کہ اس جنگ آزادی میں لداخ ،تراکبل دراس اور کارگل کے پہاڑیوں میں کتنے لوگ بے گور و کفن رہ گئے جو غازی فتح یاب ہو کر واپس لوٹے ان کو خالی ہاتھ گھروں ہی کو لوٹا دیا گیا اور جن خوش قسمت غازیوں کو پنشن کے نام سے جو وضیفہ ملتا تھا وہ چار روپے بعد میں تیس روپے مقرر ہوئے شہیدا کے ورثا و لواحقین کا تو حا ل ہی پوچھیں ان کو غم کے آنسوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔
اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی ریاست پاکستان میں شامل ہونے کی جستجوں میں گلگت بلتستان کے عوام دھوبی کے کتے نہ گھر کے نہ گھاٹ کے ہو گئے ایسا لگتا ہے کہ یہ دو گھروں سے روٹی کا ٹکڑا کھانے والا کُتا کسی دن راستے میں بھوک سے مر جائے گا کیونکہ مالک کی مرضی ہے کہ وہ روٹی کا ٹکڑا پھینکے یا نہ پھینکے۔میں نے 1948 ء کے کئی وکٹرز یعنی غازیوں کو قریب سے دیکھا ہے یہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام ،اقتدار کے اعوانوں میں بیٹھ کر ایک دوسروں پر ناز بیا آوازے کسنے والے مہذب ارکان اسمبلی اسٹیبلشمنٹ و بیورو کریسی غرض کہ زندگی کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے نہایت ہی محسنین 1948 ء کے شہدا اور غازی غربت کی لیکر سے نیچے سسک سسک کر جی رہے تھے اور ان میں سے تقریبا 95 فیصد غازی بے بسی کی موت مر چکے ہیں میں پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے محسنین اس لئے کہتا ہوں اگر یہ لوگ( بقول اقبال یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے )عظیم قرنیاں رقم کر کے گلگت بلتستان کو ڈوگرہ راج سے آزاد نہ کراتے یہاں بھی مقبوضہ کشمیر جیسے حالات ہوتے تو پاکستان نیوبتاؤ؟پاک چین دوستی کے چرچے اور اس دوستی کے تناظر میں پاکستان کی دفاع اور معثیت پر مثبت اثرات کیسے ممکن تھے۔سی پیک منصوبہ جس کو حکومت اور اپوزیشن دونوں ٹی وی پر بے سود بحث مباحثے چھیڑ کر گلگت بلتستان کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں وہ کسی طرح ممکن تھا۔اب تو وسط ایشائی ممالک سے گیس پائپ لائن وغیرہ کی باتیں ہو رہی ہیں بتاؤ یہ سب کیسے ممکن ہوا بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کو صفہ قرطاس پر لانے سے ہماری نوجوان نسل کو کوئی اچھا پیغام نہیں جائے گا ہم جہاں حکومت سے اپنے جائز حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہاں پاکستان کی سالمیت پاکستان کے ساتھ یکجہتی اور گلگت بلتستان کے عوام کا پاکستان کے ساتھ نظریاتی لگاؤ کے بارے میں سوچتے ہیں کیونکہ سی پیک کی کامیابی کے بعد ملک دشمن عناصر نے اپنے توپوں کا رخ گلگت بلتستان کی طرف موڈ دیئے ہیں سی آئی اور ایم آئی سکس کے اپنے طریقہ وارداد ہیں لیکن بد نام زمانہ را تو کھلے عام پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہیں اب تو این ڈی ایس جیسے انجنسیاں بھی پاکستان کو انکھیں دیکھانے لگے ہیں گویا کہ گلگت بلتستان دشمن ملک کے اجنسیوں کے ہدف ہیں۔ ان حالات میں جبکہ گلگت بلتستان کی اہمیت مہینوں کے حساب سے بڑھ رہی ہے تو اس کی حساسیت دنوں کی حساب سے بڑھ رہی ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کے بے شمار مسائل سے حکومت کی غفلت گھنٹوں کی حساب سے بڑھ رہی ہے۔
خطے کی اہمیت ۔ حساسیت ۔ عوام کے مسائل سے حکومتی غفلت اللہ خیر کریں یہ فاقہ مستی کیا رنگ لائیں گی۔اس میں شک نہیں کہ شہدا کے ورثا اور غازیان وطن نہ کھیلاڑی ہیں اور متوالے ہیں نہ جیالے ہیں جن کے ووٹوں سے اقتدار کے اعوانوں تک پہنچ کر غریب عوام کے پیسے باہر ملکوں میں منتقل کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں ان جیالوں کا کون پوچھے گا۔جو 18 اور 22 ہزار فٹ کی بلندی پر وطن عزیز کی دفاع کرتے ہیں محکمہ جنگلات اور محکمہ فیشریز کے گریڈ ون کو 18 ہزار پنشن مل جاتی ہے تو اچھی بات ہے لیکن 18 ہزار فٹ کی بلندی پر اپنی جانوں کا نظرانہ دینے اور اپنی وطن کی دفا ع کرنے والے شہدا کے ورثا اور غازیوں کو نہ 18 ہزار فٹ کا نصف مل جاتا ہے اور نہ محکمہ جنگلات کا گریڈ ون کا پنشن کا نصف مل جاتا ہے کیا صلہ شہادت ہے تو کیا غازیوں پر مہربانیاں ہیں۔ارکان اسمبلی کے تنخواوں میں 150 فیصد اضافہ منیٹوں میں ہو جاتا ہے اور غازیان وطن کی پنشن میں 69 سالوں میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے اقتدار کے حوس میں پارٹیوں اور پارٹی کے جیالوں کو نوازنے والو ذرا غور سے سن لو۔ احمد شاہ رنگیلا اور بہادر شاہ ظفر بھی ایسے ہی لوگ تھے جو آخر میں بہادر شاہ ظفر نے کہا
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔
Very well written.
above map shows village gojal, where is it??near Gulmit or sust.