تحریر: صوبیہ کامران، بکرآباد چترال
حسب معمول گھریلو کام کاج میں مصروف تھی، امّاں کی صحت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی وہ کمرے میں سوئی ہوئی تھی، ادھر سے میں نے آواز لگائی کہ امّاں نماز کا وقت ہوگیا اُٹھونا …! امی نے مجھے آواز لگائی بیٹی ! ذرا ادھر آنا …جلدی…. میرے پاس۔ میں بھاگی ہوئی کمرے میں پہنچی تو دیکھا امّاں جی کچھ اداس سی لگ رہی تھی۔ چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیااور پوچھنے لگا امّاں خیریت تو ہے۔ بولیں اللہ کے فضل سے گھر میں تو خیریت ہی ہے لیکن ٹی وی چینلز پر پی آئی اے کے حادثے کا شکار ہونے والے بد قسمت جہاز سے متعلق خبریں اور حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی حالت دیکھ کر دل بجھ گیا ہے۔ میں نے امّاں جی کو تسلی دیتے ہوئے کہاکہ یہ سب اللہ کی قدرت ہے۔ ایسے صورتحال میں انسان دعا اور صبر و تحمل کے سوا اور کر ہی کیا سکتا ہے۔ امّاں جی کچھ دیر کیلئے خاموش رہی پھر معصومانہ انداز میں بولے بیٹی آئندہ کبھی جہاز میں سفر نہیں کرنا۔میں نے کہا نہیں امّاں ہر جہاز کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش نہیں آسکتا۔ماں نے کہا پھر بھی۔۔۔ میں نے عرض کیا امّاں جی انسان کی زندگی اور موت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی نے انسان کی موت مقرر کر رکھی ہے جو کبھی جہاز کریش،کبھی گاڑی ایکسیڈنٹ ، کبھی بیماری اور کبھی گولی لگ جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس پر امّاں میرے ساتھ ااتفاق کرتے ہوئے بولیں بے شک موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے پھر وہی موضوع چھیڑتے ہوئے کہا ویسے چترال کا فضائی روٹ دنیا کے خطرناک ترین فضائی راستوں میں شمار کیا جاتاہے۔اسی روٹ پر تو بڑے دل گردے والے پائلٹ ہی جہاز لے کر آتے ہیں ۔جن میں گزشتہ دنوں حادثے کا شکار ہونے والے پائلٹ جنجوعہ صاحب بھی شامل تھے۔ایک طرف مشکل ترین راستہ تو دوسری طرف ان علاقوں کیلئے چلنے والے پی آئی اے کے طیاروں کا سن کر کون سی ماں ایسی ہوگی جس کو اپنی اولاد کی فکر نہ ہو۔مجھے تو یہ طیارے حکومت پاکستا ن کی طرف سے چترال کو خیرات میں دیا ہوا مال کی مانند لگتے ہیں۔ لیکن یہاں کے عوام پی آئی اے کی اس سروس کو اپنے اوپر ایک بڑا احسان سمجھ کر زمینی سفر سے فضائی سفر کو لاکھ غنیمت جانتے ہیں۔ وہ اسلئے کہ چند برس قبل چترال اور پشاور، اسلام آباد کے مابین زمینی سفر کے واحد راستے لواری ٹاپ کی حالات پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں سے بھی نا گفتہ بہ تھی جو کہ ابھی ٹنل بنوا کر چترالی عوام کیلئے تھوڑی بہتر بنائی گئی ہے۔ایسی صورتحال میں ہر کوئی لواری ٹاپ کی اذیت ناک سفر اور فلائنگ کوچ میں سفر سے بچنے کیلئے پی آئی اے کے ذریعے سفر کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔مگر ایک عام آدمی کیلئے چترال سے اسلام آباد کیلئے پی آئی اے کے ٹکٹ کا حصول آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف تھا۔نہ جانے کئی لوگ ایسے ہونگے جو کسی ایمر جنسی کی صورت میں جہاز کے ٹکٹ کی عدم دستیابی کے باعث زندگی سے ہاتھ دو بیٹھے ہوں۔میں نے خود ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو صبح سویرے چترال ائیر پورٹ پر بیماروں اور مریضوں کو لیکر ٹکٹ کنفرمیشن کیلئے پی آئی اے عملے کو رو رو کر فریادیں کیا کرتے تھے۔لیکن پی آئی اے کا بد مست عملہ ان کی اس فریاد سے ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔
یہ المیہ اپنی جگہ قابل توجہ،لیکن اصل مسئلہ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں کی خستہ حالی کا ہے ۔جو یہ جاننے کے باوجود ان علاقوں کی طرف روانہ کردیئے جاتے ہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے فضائی روٹ کا شمار دنیا کے خطرناک ترین راستوں میں ہوتا ہے۔حالانکہ اسی روٹ پر دوران پرواز کئی طیارے حادثے کا شکار ہونے کے سبب درجنوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئی۔ پہاڑی علاقوں کے روٹس پر رونما ہونے والے فضائی حادثات کے علاوہ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیاروں کا دوران سفر پرواز کی نا ہمواری تو روز کا معمول ہے۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ ان علاقوں کے لئے پی آئی اے کے کسی اور نجی کمپنی کی جانب سے کوئی سروس فراہم نہیں کی جارہی ہے۔لہذا یہاں کے عوام کا دارومدار صرف اور صرف پی آئی اے کی فضائی سروس پر ہی رہ گیا ہے۔ایسے میں پی آئی اے کی جانب سے سب سے ناکارہ طیاروں کو اس قدر دشوار گزار راستے پر روانہ کرنے سے طیاروں کا حادثہ نہیں تو اور کیا ہوگا۔۔؟
عوام کی ان محرومیوں کے ازالے اور مزید اذیتوں سے نجات کیلئے ان علاقوں کیلئے پی آئی اے کی خستہ حالی اے ٹی آر طیاروں کی جگہ جدید پروازوں کا اجراء وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہ آج اندوہناک حادثہ چترال سے واپسی پر پیش آیا تو کل کو اللہ نہ کرے یہ کسی اور جگہ بھی ہو سکتا ہے۔اس صورت میں اس طرح کے حادثات کو اللہ تعالیٰ کی قدرت ااور فنی خرابی کا شاخسانہ قرار دے کر حکمرانوں کے بری الذمہ ہونے اور میڈیا پر شور مچا کر میری ماں جیسے کمزور دل لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اسلئے حکومت فوری نوٹس لیں اور چترال کیلئے جدید طیاروں کی پرواز کو یقینی بنائیں ۔یہ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسی پر صوبائی اور وفاقی حکومت کوخاص توجہ دینا چاہئے ۔ اور اس ضمن میں ہمارے ضلعی نمائندگان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے ایسی آواز اٹھائے جو صوبائی اور وفاقی اسمبلی میں پہنچ جائے ۔ جب تک ادارے ٹھیک نہیں ہوں گے تو ایسے حادثات جنم لیتے رہتے ہیں۔جب تک اداروں میں بہتری نہیں آئے گی ، ایسے حادثات ہوتے رہیں گے اور یہ جہاز یوں ہی گرتے رہیں گے۔اب بھی وقت ہے کہ حکومت غریب عوام کی خاطر سوچیں ، اور اس پر کوئی لائحہ عمل طے کریں تاکہ آئندہ اللہ نہ کرے اس طرح کا کوئی حادثہ پیش نہ آئے۔ اس عظیم سانحے سے پوری قوم سوگوار ہے لیکن اللہ کا فیصلہ اٹل ہے انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ بس اللہ نا گہانی اور حادثاتی موت سے سب کو بچائیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ تمام مرحومین کو اپنے جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں۔ آمین
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button