بلاگز

عشق حسین کے جرم میں مارنے والو، آدیکھ ذرا کربلا کی طرف

تحریر : محمد حسن جمالی

دنیا میں ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں،اس کی بات مانیں ،اس کا دل سے احترام کریں اور اس کے ساتھ محبت وچاہت کا برتاؤ کریں۔ اس کے لئے انسان مختلف طریقے اپنا لیتے ہیں- خوب کهلاتے پلاتے ہیں, لوگوں کا کہا مانتے ہیں،ان کے سامنے فروتنی کا مظاہرہ کرتے ہیں, دوسروں کی ضروریات تکمیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان اسباب کے ذریعے انسان کو ظاہری اور وقتی کامیابی ضرور ملتی ہے لیکن یہ کامیابی دیرپا نہیں ہوتیبلکہ ہمیشہ معرض خطر میں ہوتی ہے- جس دن یہ اسباب منقطع ہوجائیں، محبت کی بھی موت واقع ہوجاتی ہے اور انسان کی فطری محبت کی چاہت اپنی جگہ تشنہ رہ جاتی ہے

تاریخ بشریت میں اس کی مثالیں فراوان پڑھنے کو ملتی ہیں۔ رضا شاہ پہلوی کی مثال لیجئے-ایشیا میں محمد رضا شاہ پہلوی امریکہ کا سب سے بڑا دوست تھا۔ یورپی پریس اسے ”امریکن گورنر“کہتا تھا،وہ امریکی وفاداری میں بہت آگے چلا گیا،امریکہ نے اسے روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا حکم دیا اور اس نے امریکہ کی اندھی محبت میں ایران کے اندر اپنی پوری توانائیاں خرچ کیا۔ اس کے دور میں کوئی باپردہ عورت گھر سے نکلتی تھی تو پولیس سرے عام اس کا برقع پھاڑ دیتی تھی۔ شاہ ایران نے تمام زنانہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرٹ کو یونیفارم بنا دیا،شراب نوشی، رقص اور بدچلنی فیش بن گیا۔ شاہ کے دور میں ایران دنیا کا واحد ملک تھا جس میں کالجوں میں شراب کی دکانیں تھیں، یونیورسٹیوں میں خواتین کی بے حرمتی ہوتی تھی۔اس مکروہ کاروبار کو قانونی حیثیت حاصل تھی۔شاہ کے زمانے میں دو جرنیلوں کے ہم جنس پرست بیٹوں نے آپس میں شادی کی۔سرکاری سطح پر نہ صرف ان کی دعوت ولیمہ ہوئی بلکہ شاہ اور اس کی کابینہ نے خصوصی طور پر اس تقریب میں شرکت کی۔ شاہ نے امریکہ کی محبت میں ایران میں موجود 42ہزار امریکیوں کو سفارتی حیثیت دے دی، امریکہ نے شاہ ایران کے دفتر میں ”گرین فون“لگا رکھا تھا اوراسے امریکہ سے جو ہدایت ملتی تھیں وہ ان پر فوری عمل درآمد کراتا تھا۔

ایران میں امام خمینی نے ایرانی قوم کو شعور دے کر بیدار کیا، انقلاب کامیاب ہوا تو رضا شاہ ملک سے فرار ہوگیا۔اس کا خیال تھا امریکہ اب اس کی وفاداریوں کا بدلہ دے گا لیکن جو نہی شاہ ایران کا طیارہ ایران کی حدود سے نکلا، امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں۔شاہ پہلے مصر گیا، پھر مراکش، پھر بہاماس اور پھر میکسیکو۔وہ اس دوران امریکہ سے مسلسل مدد مانگتا رہا لیکن وائٹ ہاﺅس نےاس کا ٹیلی فون تک نہیں سنا۔ شاہ ایران سوا سال تک مارا مارا پھرتا رہا لیکن کسی نے اس کی مدد نہیں کی۔امریکہ نے اس کے اکاﺅنٹس تک منجمدکردئیے۔ آخر میں انور السادات کام آیا اوراس نے رضاشاہ کو پناہ دے دی۔ جولائی 1980ءمیں قاہرہ میں اس کا انتقال ہوا۔انتقال کے وقت اس کے پاس اس کی تیسری بیوی کے سوا کوئی نہ تھا۔لوگ اس کا جنازہ تک پڑھنے نہ آئے چنانچہ اسے اس کے بیڈ روم ہی میں دفن کردیا گیا۔

یہ صرف رضا شاہ پہلوی کی کہانی نہیں۔ امریکہ کا ہر دوست حکمران اسی انجام کا شکار ہوا۔ صدام حسین کی کہانی تو پوری دنیا جانتی ہے۔انقلاب ایران کے بعد امریکہ نے صدام حسین کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ صدام حسین نے امریکہ کی ایماءپر22ستمبر 1980ءکو ایران پرحملہ کردیا۔یہ جنگ20اگست 1988ءتک 8سال جاری رہی اور اس میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک اور20لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ صدام حسین1990ءتک امریکہ کا دوست رہا لیکن پھر امریکہ نے تیل کے لالچ میں عراق پر حملہ کردیا۔اس جنگ میں86ہزار عراقی شہری شہید ہوئے ۔ 2003ءمیں امریکہ نے ایک بار پھر عراق پر حملہ کیا۔ صدام حسین گرفتار ہوا اور امریکی ہدایات پر اسے 30دسمبر 2006ءکو بغداد میں پھانسی دے دی گئی۔

شاہِ ایران سے لے کرصدام حسین تک امریکی تاریخ دوست کشی کی ہزاروں مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ امریکی اپنی خارجہ پالیسی کو ”ڈسپوزل ڈپلومیسی“کہتے ہیں ۔ ان کافلسفہ ہے خرید و، استعمال کرو اور پھینک دو۔ چنانچہ یہ لوگ اپنے دوستوں کو کاغذ کے گلاس، پلیٹ، ٹشو اور گندی جراب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔چنانچہ ان کے دوست جنرل اگستو پنو شے ہوں، جنرل رضا شاہ پہلوی ہوں یا جنرل صدام حسین یہ لوگ اس وقت انہیں دوست سمجھتے ہیں جب تک وہ ان کے لئے خدمات سرانجام دے سکتے ہیں اور جس دن انہیں محسوس ہوتا ہے یہ شخص ان کی ”ذمہ داری “بنتا جارہا ہے،یہ اس کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاءالحق جیسا سلوک کرتے ہیں ۔ پس ضروری ہے کہ انسان ایسے اسباب کی تلاش کرے، جن سے حاصل ہونے والی محبوبیت، عزت ،کرامت اور احترام کو دوام اور استحکام حاصل ہو، یہ اسباب وحی سے متصل منابع میں ڈھونڈنا پڑے گا-

اللہ کی لاریب کتاب میں لازوال محبت کے دو سبب صریح طور پر بیان ہوچکے ہیں، پہلا ایمان اور دوسرا عمل صالح ،جو بھی انسان ان دو الہی قوت سے مالامال ہوگا، خدا اس کے لئے لوگوں کے دلوں میں ایسی محبت ڈال دیتا ہے، جو ابدی اور لازوال ہے- جس کا سب سے بڑا نمونہ حسین ابن علی ع کی ذات گرامی ہے- امام حسین ع نے اپنے آپ کو ایمان کامل اور عمل صالح کا مجسم بنایا، تو خدا نے لوگوں کے دلوں میں ایسی محبت ڈالی۔ بقول فرمان نبی مکرم اسلام لا تبرد ابدا” کہ اس محبت کی حرارت کی شدت اور حدت کھبی بھی ٹھنڈ نہیں ہوگی – آج پورے کرہ ارض کے انسانوں کے دلوں میں حسین کی محبت ہے۔ مسلم وغیر مسلم حسین ابن علی سے محبت کرتے ہیں- اگر کسی نے اس حقیقت کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو دیکھو ذرا کربلا کی طرف – 20 ملین پر مشتمل عاشقان حسین کس طرح ضریح مقدس حضرت سیدالشہداء ع کے گرد طواف میں محو ہیں؟ اس عظیم اجتماع میں زائرین امام حسین کی خدمت کرنے میں ایک دوسرے پر کس طرح سبقت لے رہیں ہیں؟ یہ دنیا کا واحد بڑا اجتماع ہے کہ جس میں تمام فضائل اخلاقی اور صفات محسنہ کی عملی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے، جن میں سرفہرست سخاوت , امانت، ایثار وفداکاری، خدمت خلق، تواضع وفروتنی ،رحم ،کرم، تکریم انسانی، خود گزشتگی، عفو شجاعت، بلند ہمتی، بلند حوصلہ،

دشمنوں سے خائف نہ ہونا وغیرہ کے بے نظیر نمونے نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں – عشق حسین کے جرم میں مارنے والو؛ حسینت کو کچلنے والو، گلگت بلتستان میں حسین کی یاد منانے پر پابندی لگانے والوں کہاں مرے ہوئے ہیں تم، آج کربلا میں چہلم فرزند زهراء کے لئے جمع ہونے والے 20 ملین زائرین کا عظیم اجتماع دیکھو اور فیصلہ کرو، حسینت کامیاب ہوئی یا تم- سنو وقت کے یزیدیو:گلگت بلتستان اور کوئٹہ وتفتان کے راستے میں زائرین امام حسین کو مختلف بہانوں، مکروفریب، دهوکهہ دہی، دھمکی جھوٹ اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ستاکر جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچاکر تم کھبی بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوجاوگے بلکہ یہ نااہل ظالم حکمرانوں کی نابودی اور سرنگونی کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوگا-

ممکن ہے وقتی طور پر صدام اور رضاشاه کی طرح نااہل حکمران اس نارواسلوک کے ذریعے زرخرید غلام اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرکے کچهہ ریال حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے, لیکن بدون شک تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو صدام ورضا شاہ کا ہوا ہے اور کان کھول کر سنو: کربلا اس کائنات کا بے نظیر انقلاب اور قیام تھا۔ تحریک کربلا حق و باطل میں حد فاصل بنی ہوئی تھی اور ہے ،اور ہمیشہ انسانیت کے لئے مشعل ہدایت بن کرنورافشانی کرتی رہے گی -جس طرح کہ حسین بن علی اپنے مختصر مگر باایمان و شجاع انصار و اصحاب کے ساتھ بے شمار اور سنگدل یزیدی افواج کے سامنے ڈٹ گئے اور کربلا کی سرزمین کو عشق و حماسہ وحریت کے دائمی میدان میں تبدیل کردیا، دنیا کے حریت پسند انسان بھی غاصبوں اور اہل ستم کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے اپنی تعداد اور ظاہری طاقت اور وسائل کو بنیاد نہیں بناتے، نیز جہاد و استقامت کے وقت دشمن کی تعداد اور طاقت کو بھی خاطر میں لائے بغیر شوق و جذبہ جہاد میں محو ہوکر لڑتے ہیں سرکٹاتے ہیں لیکن کھبی سر نہیں جھکاتے۔ سید الشہداء سے تعلق ہمیشہ شیعوں کے درد و غم کا مداوا بنا ہے اور بنا رہے گا ہمارا یہ شعار ہے
ذکر حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button