بلاگز

ہزاروں سال کی بوڑھی یہ دنیا!

تحریر : احمد حسن

یہ دنیا بوڑھی ہوچکی ہے اوراس حقیقت کو سمجھنا یہاں کے باسیوں کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے تاکہ اس دنیا کی مناسب دیکھ بھال کی جاسکے۔مہذب معاشروں میں بوڑھوں یا سینئر سٹیزنس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کیوں کہ یہ مزاج کے بہت حساس ہوتے ہیں اور بات بے بات ان کے موڈ کے بگڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔با لکل اسی طرح کچھ سالوں سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ اس دنیا کا بھی مزاج بگڑا ہوا ہے اور طرح طرح کے قدرتی آفات کا ہمیں تواتر کے ساتھ سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق تمام قدرتی آفات کا موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور زلزلہ اور سونامی کا بڑھتا ہوا رجہان بھی اسی وجہ سے ہے ۔موسم کے اس بگاڑ میں کتنا عمل دخل انسان کا ہے، اس بات سے نا آشنا ہم اس دنیا کی تباہی میں اپنا حصہ مسلسل ڈالتے جارہے ہیں۔

تحفظ ماحولیات اسلام کا ایک اہم پہلو ہے۔ اور زمین کے محافظ ہونے کے ناطے فغال انداز میں ماحول کی دیکھ بھال ہماری اہم ترین زمہ داری ہے۔اگر ہم دین کی صحیح سمجھ رکھتے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمام مخلوقات، چاہے وہ ظاہری آنکھ سے نہ نظر آنے والا بیکٹیریا ہو ، دیوہیکل ہاتھی ہو یا آسمان میں پرواز کرنے والا باز ہو یا پھر کوئی پودا ، قدرت کی ہر ایک تخلیق کے پیچھے ایک خاص مقصد ہے۔ قدرت کی ہر ایک تخلیق انسان کو دعوت فکر دیتی ہے ا ور قرآن حکیم میں بارہا اس مقصد کو سمجھنے کی کوشش پر زور دیا گیا ہے۔تو جن قوموں نے تحقیق کو اپنا شغار بنایا انہوں نے نہ صرف اپنے لیے نام کمایا بلکہ وہ اس دنیا کوبھی بہت کچھ دے گئے۔یہ کہنا بجا ہوگا کہ ان قوموں نے انسان کو اسکا اصل مقام دلایا۔اور ان قوموں میں شامل ، البیرونی، ابن الہیثم اور موسی الخوارزمی کی صورت میں یقیناًمسلمان بھی شامل ہیں۔تاہم یہ امر قابل زکر ہے کہ اس تحقیق میں مسلمانوں کا حصہ گزشتہ کم از کم ۹۰۰ سالوں سے نہ ہونے کے برابر ہے۔اور یہ کوئیٗ حیران کن بات بھی نہیں کہ ہم نے قدرت کی سب سے عظیم تخلیق یعنی انسانی عقل کو بریف کیس میں بند کرکے کسی سویس بنک کے انتہائ محفوظ لاکر میں رکھوادیا ہے اور پاکستانی حکمرانوں کی مانند ہمیں پتاتک نہیں کہ اس دولت کو کب اور کس کے استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔

غور کیجیے ہمارے اجتماعی رویے پر۔ہاتھوں میں سمارٹ فون، استعمال میں جدید ترین گاڑی، گھر میں ٹکنالوجی کی ایک ایک سہولت مگر زہن میں انہیں سہولیات کے حلال ہونے کے بارے میں عجیب و غریب وسوسے۔ٹیکنالوجی کا ہر ایک آلہ جو ہمارے استعمال میں ہے ہمارے لیے اہم ہے اور اس سے وابستہ ہر ایک اپلیکیشن سے ہم آشنا بھی ہیں اور مطمئن بھی۔ مگر اسی ٹیکنالوجی کے استعمال سے کوئی یہ ثابت کرنا چاہے کہ ہماری دنیا کو درپیش مسائل میں سے بیشتر ایسے ہیں جن کا زمہ دار خود انسان ہے تو ہمارا رویہ ہی بدل جاتا ہے۔ف

وراً سے پیشتر کفرکا شایبہ ہونے لگتا ہے اور مغرب کا یلغار نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور ہر آلہ شیطانی آلہ بن جاتا ہے۔ زرا سوچئے کہ جب ۲۰۱۵ کے سیلاب کے ا سباب کے حوالے سے کیے گئے ایک تحقیق کا زکر ہوا تو ایک دوست اپنا فرض عین سمجھ کر ایک بین لاقوامی تحقیق کو یکسر مسترد کرکے فرمانے لگے کہ جناب یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔خیرکئی ساینسدانوں کی چار عشروں کی مسلسل محنت پر محیط اس تحقیق سے بھی یہی ثابت ہورہا تھا کہ یہ سب ہمارے اعمال ہی کا نتیجہ ہے کہ انسان نے ’’مال مفت، دل بے رحم‘‘ کے مصداق اس دنیا کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔اگر کہا جاےٗ کہ انسان نے اس زمین کو چیر پھاڑ کر کھایا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ کیونکہ ایک اندازے کے مطابق موجودہ حالات میں دنیا کی موجودہ آبادی کے حساب سے وسائل کی اتنی کمی ہے کہ ہماری دنیا جیسی تین اور دنیاؤں کے وسائل درکار ہیں کہ ہماری ضروریات پوری ہو۔وہ سائنسدان جو اس زمین کابغور جایزہ لیتے آ رہے ہیں کے پاس یقینی شواہد ہیں کہ زمین کا اوسط درجہ حرارت واضح طور پر بڑھ چکا ہے اور یہ کہ ہماری زمین دن بہ دن گرم ہو رہی ہے۔اور اسکا سب سے بڑا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں، خصوصاً نامیاتی ایندھن کا جلانااور اسکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گرین ہاوس گیسززمین کے اوسط درج حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔موسمیاتی تبدیلی انسان اور اس دنیا کے لیے انتہائ خطرناک چیلنجز لے کہ آرہا ہے جس کا اندازہ ابھی سے کیا جاسکتا ہے۔ تیزی سے گھٹتے گلیشیرز،مسلسل بڑھتا ہوا سمندر کا سطح،ہیٹ ویو ، قحط ، نئ بیماریاں، غیر معمو لی بارشیں اورسیلاب، معاشی مسائل، پانی کی کمی کے سبب جنگوں کا خدشہ اورہیٹ ویو کے نتیجے میں جانوروں اور انسانوں کی غیر معمولی اموات اس ماحولیاتی تبدیلی کے خوفناک ترین چیلنجز میں شامل ہیں۔

اور اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے گلیشرز کے ذخائر گزشتہ چار دہایوں میں رکارڈ تیزی سے گھٹے ہیں۔ہمارے پاس چترال یا گلگت کی تصاویر تو نہیں ہیں لیکن ارکٹک، ٹندرااور الاسکا کی نیچے دی گئ تصویروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے گلیشیرز کے ذخائر کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ہو گی۔بلکہ ہمالیہ ،ہندوکش اورقراقرم کے پہاڑوں میں سیٹلایٹ تصاویر میں واضح طور پر دیکھابھی جاسکتاہے کہ ہر سال نئے جھیل بن رہے ہوتے ہیں اور گلیشیرز کی سطح گھٹ رہی ہوتی ہے۔ خاص کر اس حقیقت کو سامنے رکھ کر سوچا جائے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی مضر اثرات کا شکار ملکوں میں آٹھویں نمبر پر ہے تو یہ امر اور اہم ہوجاتاہے۔ خصوصاً پہاڑی علاقوں کی بات کرے تو شاید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ نقصان چترال اور گلگت کو ہورہاہے۔اور اسکی ایک نہیں کئی ساری جھلکیاں ہم گزشتہ بارہ سالوں میں دیکھ چکے ہیں۔

انسانوں اور زمین کے درمیان تعلق انتہائی اہم اور انتہائی پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔جہاں اس امر کی آشد ضرورت ہے کہ حکومت اس مسلئے کو سنجیدگی سے لے وہی یہ سول سوسایٹی، مذہبی حلقوں اور میڈیا کا بھی اولین فرض ہے کہ اس مسلئے کو اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔ یہ دنیا ایک امانت کے طور پر ہمیں ملی ہے اور یہ امانت اللہ رب ا لعزت کی طرف سے ہے۔یہ امانت اگر بہتر نہیں تو اسی صورت میں آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔کئی پرندے ، جانور اور پودے ایسے ہیں جو صرف انسان کی بے حسی کے بھینٹ چڑھ کراپنی نسل مکمل طور پر کھوچکی ہیں۔اور کئی ایسے ہیں جواپنی پوری نسل عنقریب کھونے والے ہیں۔ ان مخلوقات کو بچانے اور ماحول کو بہتر کرنے کے حوالے سے ہم میں سے ہر ایک چاہے کوئی بچی یا بچہ ہی کیوں نہ ہو اپنا حصہ ڈال سکتا ہے ۔

خصوصاًچترال کی بات کیجاےٗ تو چند ایک چیزیں ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ چترال میں زندگی کا دار و مدار سوفیصد گلیشرز کے پانی پر ہے۔اس لئے اگر چترال میں قدرتی حیات اور انسانی زندگی کو محفوظ بنانا ہے تو ان گلیشرز کو محفوظ بنانا ہوگا۔ورنہ ان گلیشیرز کے پھٹنے سے ہونے والی انسانی جانوں اور املاک کی تباہی ایک طرف خدشہ ہے کہ چترال نامی اس خوبصورت علاقے اور ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والی عظیم لوگوں اور انکے منفرد رسم و رواج کا صرف نام ہی زندہ رہے۔کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اگر گلیشیرز کے پگھلنے کا رفتار یہی رہا تو شاید اگلے ۳۵، ۴۰ سالوں میں چترال میں کوئی گلیشیر نہیں بچے گا۔ان گلیشیرز کو بچانے کے لیے سب سے پہلے چترال سے بھیڑ بکریاں پالنے کا رواج مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کا کردار سب سے بڑھ کر ہے۔ سخت قانونی کار وائی سے گجر کمیونٹی کو مکمل طور پر روکا جائے تو عام لوگوں کے لیے ممکن ہی نہیں رہے گا کہ وہ بکریاں پال سکے۔پھر بھی کوئی بکریاں رکھنے پراسرار کرئے تو ان پر آسانی سے پابندی لگائی جاسکے گی۔خیبر پختونخوا گورنمنٹ کی طرف سے اقدامات ضرور نظر آرہے ہیں مگر ان کے اقدامات میں مناسب coordination نظر نہیں آتی۔ صرف بونی کے اندر کم ازکم دیڑہ لاکھ روپے ماہانہ واچرز کے تنخواہ کی مد میں جاتے ہیں مگر جب تک بکری پالنے پر پابندی نہیں لگائی جاتی چراگاہوں کو گرین کرنا ان دس واچرز کے لیے ممکن ہی نہیں۔دوسری اور انتہائی اہم بات جنگلات کے تحفظ کے حوالے سے ہے۔اور پودا لگانے کو ۱۴۰۰ سال پہلے ہمارے نبی حضرت محمدﷺ نے صدقہ جاریہ قرار دیا ہے تو یہ ہم پر فرض ہے کہ کم از کم اس عمل کو تندہی سے آگے بڑھائے۔تیسرا کام ماحول کے متعلق عوام ،خاص کر بچیوں اور بچوں کی ذہن سازی کے حوالے سے ہے اور اس سلسلے میں سب سے اہم کرداراساتذہ، علماےٗ کرام اور سول سوسایٹی ادا کر سکتی ہے۔ایک اور اہم کام جو ہوسکتا ہے محض ہماری خواہش ہو،یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ چترال کے اندر شاپنگ بیگ کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کرے۔ماحول کی بہتری کے حوالے سے ہماری دیگر خواہشات میں بڑھتی آبادی پر کنٹرول،چترال میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر کنٹرول، گھروں کی تعمیر میں ٹن شیٹ کا استعمال ترک کرکے ماحول دوست طریقے اپنانااور ماحولیاتی مضامین کو نصاب کا مستقل حصہ بنانا شامل ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button