کالمز

حق ملکیت اور خا لصہ سر کار

کیا راج نیتی ہے۔ ایک دوسروں پر الزامات کا بوچھاڑ،،،سا بقہ موجودہ ،،پر اور موجودہ ،،سابقہ،، پرکوئی چلے ہوئے ،،کارتوس ،، یا زخمی گھوڑا ،،ہے تو کوئی کمیشن مافیا ،،،یا کا لعدم تنظیموں کا سرغنہ ،،گالم گلوچ اس قدر استعمال ہے کہ بیانات میں بھی زاتیات پر اتر آتے ہیں۔ ایک دوسروں پر جھوٹے بیا نات کا الزام تختیاں اور منصوبوں کا ایسا رونا کہ اب تو اخبارات سے ہی اکتا ہٹ ہو گئی ہے ۔حکومت تنقید کو تعمیری انداز میں لینے کے بجائی زاتی تناؤ یا دشمنی تصور کرنے لگی ہے اور حق ملکیت کے مسلے کو نان ایشو کا لیبل لگا کر راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے جس کیلے اپوزیشن خاص طور پر پیپلز پارٹی کسی بھی حالت میں تیار نہیں ہے اور ایک ایک انچ کا حساب لینے اور دینے کیلے بلکل تیار بیٹھی ہے۔ امجد حسین ایڈوکیٹ عوامی طاقت سے عوامی حقوق کی تحفظ کرنے کے عزم کے ساتھ سر گرم ہو چکے ہیں لیکن ان کے اس سرگرمی کا دائرہ کہاں تک ہے کچھ واضع نہیں ہے صرف گلگت تک حق ملکیت کی بات کرتے ہیں یا دیامر تک بھی ان کا نظر ہے یہ وضاحت کرنا باقی ہے اگر موصوف دیامر کے اس زمین کی بات بھی کرتے ہیں جو بقول فیض الللہ فراق پی پی پی کے دور سلطنت میں اٹھارہ ہزار ایکڑ اراضی خالصہ سر کار قرار دیکر مفت وفاق کو فراہم کی گئی ہے اگر دیامر کے مفلوج الحال قوم کی زمین پی پی کی سابقہ حکومت نے مفت نطر نیاز کی ہے تو کس کنڈیشن میں کی ہے؟ اور کس کی مشاورت سے کی ہے؟حالانکہ پورے گلگت اور بلتستان کے زمین کی کنڈیشن الگ نوعیت کی ہے جبکہ دیامرکی زمین معاہدہ۵۲ کے رو سے جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے ۔پچیس سو سے تین ہزار ووٹ لیکر محض مشاورتی ترقیاتی اسمبلی کے دوچار ممبروں کے زریعے عوامی حقوق کیسے غصب کیے جا سکتے ہیں؟اس کا جواب پی پی کی موجودہ اور سابقہ قیادت کو دینا پڑے گا اگر پیپلز پارٹی کی سابقہ گورنمٹ دیامر کے زمین کو اتنے معاہدات کے رکاوٹوں کے باوجود چھپ چھپا کر خالصہ سر کار قرار دیکرعوام کو حق ملکیت سے محروم کرتی ہے تو اب پی پی کی مو جودہ قیادت حق ملکیت کی بات کیسے کر سکتی ہے؟اگر یہ سب مفروضات ہے حکومت جھوٹ کا سہارا لیے رہی ہے سارے کرتوتیں ان ہی کی ہیں تو عوام کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے ایک طرف ایک ہی صوبہ ایک ہی قانون ایک ہی زبان نسل اور قوم کی بات ہے دوسری طرف دوہرا طریقہ کیسے اپنا یا جا سکتا ہے؟فرض کریں حکومت کا یہ موقف سو فیصد درست ہوا کہ دیامر کے اٹھارہ ہزار ایکڑ زمین کو پی پی نے خالصہ سر کار قرار دیا ہے تو ن لیگ کی حکومت نے مٹی پاؤ والی پالیسی کیوں اپنایا؟اگر انہوں نے دیامر کے زمین کو خیرات سمجھ کر بانٹ دیا تو آپ نے اس زمین کو کون سا عوام کو واپس کردیا؟حکومت خد کہہ رہی ہے کہ پی پی کے دور میں دس فیصد بھی معا وضات ادا نہیں کیے گیئے جب کہ مسلم لیگ کے دور میں نوے فیصد معاوضات ادا کیے گئے اب یہ حساب لگا نا مشکل نہیں ہو گا کہ دس فیصد والے زیادہ زمہ دار ہیں یا نویں فیصد والے؟حقیقت بھی یہ ہے کہ پی پی کے دور میں بہت کم معا وضات ادا کیے گئے صرف فیز ون کی ایک یا دو موضعات کا ایوارڈ پاس کیا یا معا وضہ ادا کیا جو کل ایوارڈ کا دس فیصد بھی نہیں بنتا ہے جب کہ ن لیگ کے دور میں نویں فیصد اراضیات کا ایوارڈ بھی پاس ہوا اور معاوضات بھی ادا ہو گئے اب اس تناسب سے عوامی محاسبہ مناسب ہے۔ اگر کوئی ایگریمنٹ سابقہ پی پی کی حکومت اور وفاق کے درمیاں دیامر کے کے زمین کے حوالے سے ہوئی ہے تو پیپلز پارٹی کی موجودہ اور سابقہ قیادت قومی مجرم ہے اور موجودہ حکومت اگر عوام کی خیر خواہ ہے تو اس معاہدے کو ختم کریں اور اٹھارا ہزار ایکڑ عوامی اراضی کو واگزار کریں کیو نکہ یہ کوئی الہامی معاہدہ تو ہے نہیں جو بلکل اٹل ہو اور منسوخ ہی نہ ہو سکے ۔جس طرح گنددم سبسڈی کے حوالے سے ریٹس کا ایگریمنٹ پر نظر ثانی کر کے منسوخ کر دیا گیا تھا ٹھیک اسی طرح پی پی کے سابقہ صوبائی حکومت کا معا ہدہ بھی منسوخ ہو سکتا ہے بشرطیکہ حکومت مخلص ہو اب گیند حکومت کے ہاتھ میں جس طرح کھیلنا چاہیے کھیل سکتی ہے محض الزام تراشی کر کے یا پھر دوسروں کو زمہ دار ٹھہرا کر راہ فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا اب پی پی سوائے تنقید کے کچھ نہیں کر سکتی ہے اختیارات حکومت کے پاس ہے تمام معاملات کا رخ موڑ سکتی ہے اور خاص کر پیپلز پارٹی جو کہ مخصوص قطعہ زمین کی بات کرتی ہے جو اس کے ہجم کو سوٹ نہیں کرتا صو بائی قیادت کو بات پورے صوبے کی کرنی چاہیے اگر دیامر میں حق ملکیت کوئی حیثیت نہ رکھے تو وہی اصول پورے صوبے پر لاگو ہو سکتا ہے اس لیے سب سے پہلے حق ملکیت کی بات دیامر سے شروع کرنی چاہیے اس طرح سر چھوڑ کر دہڑ کی بات انوکھی لگنے لگے گی ۔ایک حصہ کو خالصہ سر کار قرار دیا جا چکا ہے سب سے پہلے اس حصہ کو خالصہ عوام قرار دینا از حد ضروری ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button